نماز میں قنوت نازلہ مشروع ہے
مصیبت و آزمائش کے وقت کی جانے والی دعا کو قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ اس کی مشروعیت میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ ، ابو حنیفہؒ) وتر کے سوا کسی نماز میں بھی قنوت مسنون نہیں ہے (البتہ امام احمدؒ کے نزدیک کسی پیش آمدہ مصیبت کی وجہ سے نماز فجر میں امام قنوت کر سکتا ہے۔ )
(ترمذیؒ) اکثر اہل علم اسی پر ہیں ۔ (یعنی گذشتہ قول پر)۔
(مالکؒ ، شافعیؒ) دائمی طور پر قنوت کرنا صرف نمازِ فجر میں مسنون ہے۔
[المغنى: 585/2 ، المجموع: 474/3 ، الحاوى: 150/2 ، رد المختار: 448/2 ، المبسوط: 165/1 ، الهداية: 52/1 ، الاختيار: 5531 ، الحجة على أهل المدينة: 9731 ، ترمذي بعد الحديث: 402]
(نوویؒ) ہمارے مذہب میں صرف نمازِ صبح میں قنوت جائز ہے۔
[المجموع: 474/3]
(ابن قدامهؒ) کسی پیش آمدہ مصیبت کے علاوہ کسی نماز میں بھی (سوائے وتر کے ) قنوت مشروع نہیں ۔
[المغنى: 585/2]
(ابن قیمؒ) عالم و منصف شخص جس انصاف کی بات کے ساتھ مطمئن ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت کی ہے اور چھوڑی بھی ہے۔ (یعنی قنوت کرنا اور چھوڑنا دونوں میں اختیار ہے ) ۔
[زاد المعاد: 272/1]
(راجح) ابتلا و آزمائش کے وقت بغیر کسی نماز کی تخصیص کے (تمام نمازوں میں ) قنوت نازلہ مشروع ہے۔
(شوکانیؒ ) اس کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 193/2]
(عبدالرحمن مبارکپوریؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 450/2]
اس موقف کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مشرکین نے ستر قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قتل کر دیا تو :
قنت النبى صلى الله عليه وسلم شهرا يدعو عليهم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ قنوت فرمائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (کے قاتل مشرکوں) پر بددعا کرتے رہے ۔“
[بخاري: 1002 ، كتاب الوتر: باب القنوت قبل الركوع و بعده]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم قنوت نہیں فرماتے تھے ۔
الا كه إذا دعــا لـقـوم أو دعا على قوم
”جب کسی قوم کے لیے دعا کرتے یا کسی قوم پر بددعا فرماتے ۔“
[ابن خزيمة: 314/1 ، 620]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان القنوت فى المغرب والفجر
”نماز مغرب اور نماز فجر میں قنوت کی جاتی تھی ۔“
[بخاري: 798 ، كتاب الأذان: باب فضل اللهم ربنا لك الحمد]
➍ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے۔
[أحمد: 285/4 ، مسلم: 305 ، أبو داود: 1441 ، ترمذي: 401 ، نسائي: 202/2 ، شرح معانى الآثار: 242/2 ، دارقطني: 37/2]
➎ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اللہ کی قسم میں تمہارے قریب وہ نماز ادا کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے:
فكان أبو هريرة يقنت فى الظهر والعشاء الآخر وصلاة الصبح ويدعو للمؤمنين ويلعن الكفار
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر ، عشا اور فجر کی نماز میں قنوت کرتے تھے ، (جس میں ) مومنوں کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت کرتے تھے ۔“
[بخاري: 797 ، كتاب الأذان: باب فضل اللهم ربنا لك الحمد ، أحمد: 337/2 ، مسلم: 676 ، أبو داود: 1440 ، نسائي: 202/2 ، دارقطني: 38/2 ، بيهقي: 198/2]
➏ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متواتر ایک ماہ ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر کی ہر نماز میں جب (آخری رکعت میں) سمع الله لمن حمده کہتے تو قنوت کرتے اور بنو سلیم کے چند قبیلوں رعل ، ذکوان اور عصیہ پر بد دعا کرتے اور پیچھے مقتدی آمین کہتے ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 1280 ، كتاب الصلاة: باب القنوت فى الصلوات ، ابو داود: 1443 ، أحمد: 301/1]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ حالات کے مطابق ایک نماز میں دو نمازوں میں یا پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ کی جا سکتی ہے۔
◈ قنوت نازلہ رکوع کے بعد کی جائے گی:
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ قنت رسول الله بعد الركوع شهرا ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ایک ماہ رکوع کے بعد قنوت فرمائی ۔“
[بخاري: 4096 ، كتاب المغازى: باب غزوة الرجيع ]
◈ قنوت نازلہ میں مقتدی آمین کہہ سکتے ہیں
جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ : ويؤمن من خلفه ” (آپ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت فرماتے تو) مقتدی آمین کہتے ۔“
[احسن: صحيح أبو داود: 1280 ، أبو داود: 1443]
◈ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں دیکھا: رفع يديه فدعا عليهم ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ان (مشرکین ) پر بددعا کی ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 181/2 ، أحمد: 137/3]
◈ قنوت نازلہ کی دعائیں:
➊ اَللَّهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَأَلْفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَأَصْلِحُ ذَات بَيْنِهِمْ وَانْصُرُهُمْ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمُ اللَّهُمُ الْعَنْ كَفَرَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ وَيُقَاتِلُونَ أَوْلِيَاءَ كَ اللَّهُمَّ خَالِفُ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ وَزَلْزِلْ أَقْدَامَهُمْ وَأُنْزِلُ بِهِمْ يَاسكَ الَّذِي لَا تَرُدُّهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ .
[أحمد: 137/3]
➋ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنثنى عَلَيْكَ وَلَا نَكْفُرُكَ ….. الخ
[بيهقي: 210/2 – 211]
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان قیدیوں کے نام لے لے کر ان کی نجات کے لیے دعائیں مانگتے تھے۔
[بخاري: 804 ، كتاب الأذان: باب يهوى بالتكبير حين يسجد ، مسلم: 675 ، أبو عوانة: 383/2 ، عبد الرزاق: 4028]
(نوویؒ) صحیح بات یہی ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دعا متعین نہیں ہے بلکہ ہر ایسی دعا پڑھی جا سکتی ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو اور اللهم اهدني فيمن هديت آخر تک پڑھنا مستحب ہے ، شرط نہیں ۔
[شرح مسلم: 237/1]
جو لوگ قنوت کو مشروع قرار نہیں دیتے ان کی دلیل حضرت ابو مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی وہ روایت ہے کہ جس میں ان کے والد نے قنوت کو بدعت کہا ہے۔
[صحيح: صحيح ترمذي: 330 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى ترك القنوت ، ترمذى: 402 ، أحمد: 472/3 ، ابن ماجة: 1241 ، نسائي: 204/2]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حدیث قنوت کی نفی میں ہے اور گذشتہ صحیح احادیث اس کے اثبات میں اور نفی واثبات کا تعارض ہو جائے تو اثبات کو ہی ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
[نيل الأوطار: 191/2 ، تحفة الأحوذى: 451/2]