نماز میں فاتحہ خلف الامام کی فرضیت پر 16 صحیح احادیث
یہ اقتباس شیخ بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب فاتحہ خلف الامام سے ماخوذ ہے۔
نماز چاہے جہری (اُونچی قراءت والی) ہو یا سری (آہستہ قراءت والی) مقتدی اور امام دونوں کے لیئے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس پر زیل میں نبیﷺ سے 16 صحیح احادیث پر مبنی دلائل پیش خدمت ہیں۔

احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

حدیث نمبر 1

بروایت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ”لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب.“
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی۔“

(صحیح البخاری، حدیث 756)

یہ حدیث بخاری کے علاوہ مسلم حدیث 394، نسائی حدیث 918، ابو داؤد حدیث 821، ترمذی حدیث 247، ابن ماجه حدیث 837، صحیح ابن خزیمہ حدیث 492، صحیح ابن حبان (ترتیب فارسی) حدیث 1788، المنتقی لابن الجارود حدیث 207، صحیح ابی عوانہ حدیث 1528، مسند احمد حدیث 22738، مسند الحمیدی حدیث 204، مصنف عبد الرزاق حدیث 2647، مصنف ابن ابی شیبہ حدیث 3891، مسند شافعی حدیث 140، سنن دارمی حدیث 1317، الدارقطنی حدیث 1230، البیہقی حدیث 2530، جزء القراءة للبخاری حدیث 24، جزء القراءة للبیہقی حدیث 2، المعجم الطبرانی الصغیر حدیث 121، شرح السنہ للبغوی حدیث 745 وغیرہ اور دوسری کتابوں میں مروی ہے۔

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء رفع الیدین صفحہ 7 میں اس حدیث کو متواتر کہا ہے۔ یہ حدیث اپنے مطلب میں واضح ہے کہ کوئی بھی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر درست نہ ہوگی۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے:
”باب وجوب القراءة للامام والمأموم فى الصلوات كلها فى الحضر والسفر يجهر فيها ويخافت“
یعنی یہ باب اس بیان میں ہے کہ قراءت یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا ہر نمازی کے لیے فرض ہے، امام ہو یا مقتدی، سفر میں ہو یا حضر میں، نماز میں قراءت جہری ہو یا سری۔
امام ابن عبد البر ”التمهيد“ صفحہ 43 جلد 1 میں فرماتے ہیں:
”لم يخصص اماما من مأموم ولا منفرد“
یعنی یہ حدیث عام ہے، اس میں امام یا مقتدی یا اکیلے نمازی کے لیے تخصیص نہیں بلکہ سب کے لیے حکم ہے۔
الکرمانی شرح البخاری صفحہ 124 جلد 5 میں ہے کہ:
”وفيه دليل على ان قراءة الفاتحة واجبة على الامام والمأموم والمنفرد فى الصلوات كلها“
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ تمام نمازوں میں خواہ امام ہو یا مقتدی ہو یا اکیلے، سب پر سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
اسی طرح قسطلانی شرح البخاری میں بھی ہے۔

حدیث نمبر 2

بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

عن ابي هريره رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ”من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام.“ فقيل لابي هريره انا نگون وراء الامام فقال اقرأ بها فى نفسك فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال الله تعاليٰ: ”قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل فاذا قال العبد ﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏﴾ قال الله تعالىٰ حمدني عبدي واذا قال ﴿ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ﴾ قال الله تعالىٰ اثني على عبدي فاذا قال ﴿ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ قال الله تعالىٰ مجدني عبدي وقال مرة فوض الي عبدي فاذا قال ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ قال الله تعالىٰ هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل فاذا قال ﴿‎اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿٦﴾‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎﴾ قال الله تعالىٰ هذا لعبدي ولعبدي ما سأل.“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز خداج (ادھوری) ہے۔“ تین بار فرمایا کہ نامکمل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (تو پھر کیا کریں) انہوں نے فرمایا: پھر آہستہ آہستہ اپنے دل میں پڑھا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ بندہ جب ”الحمد لله رب العالمين“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور جب بندہ ”الرحمن الرحيم“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری شان بیان کی اور جب بندہ ”مالك يوم الدين“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑائی اور بزرگی بیان کی اور اپنے کام میرے سپرد کیے اور جب بندہ ”اياك نعبد واياك نستعين“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے مانگا اور جب بندہ ”اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور بندے کے لیے وہ ہے جو اس نے مانگا۔

(صحیح مسلم ترقیم عبدالباقی: 395 ترقیم شاملہ: 878 مع النووی)

نیز یہ حدیث مؤطا امام مالک حدیث 13، نسائی حدیث 918 جلد 1، ابو داؤد حدیث 821 جلد 1، ترمذی حدیث 247 جلد 1، جزء القراءة للبیہقی حدیث 2، الدارقطنی حدیث 1230 جلد 1 وغیرہ کتابوں میں مروی ہے۔

اس سے مسئلہ بخوبی واضح ہو گیا اور چند مقامات قابل غور ہیں۔

(الف) سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نامکمل ہے اور ہمیں نماز مکمل پڑھنے کا حکم ہے، پھر نامکمل نماز کیسے قبول ہو گی؟ اس لیے سورہ فاتحہ ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے۔
(ب) جس نماز میں سورہ فاتحہ نہیں ہے اس نماز کو خداج کہا گیا ہے اور خداج اس کچے حمل کو کہتے ہیں جسے اونٹنی وقت سے پہلے گرا دے۔ جیسا کہ لغت کی عام کتابوں میں ہے، مثلاً
لسان العرب، القاموس، تاج العروس، المصباح، المنبر، اقرب الموارد، اساس البلاغه للزمخشري، وغيره من كتب اللغه.
پس سورہ فاتحہ سے خالی نماز کو اتنی بے کار چیز سے تشبیہ دی گئی اور اس کا نام خداج رکھا گیا تو وہ نماز درست کیسے کہلائے گی؟
حافظ ابن عبد البر ”الاستذكار شرح موطا“ صفحہ 167-168 جلد 6 میں تحریر کرتے ہیں:
”وفي حديث ابي هريره هذا من الفقه ايجاب قراءة فاتحة الكتاب فى كل صلاة وان الصلاة اذا لم يقرأ فيها فاتحة الكتاب فهي خداج وان قرئ فيها بغيرها من القرآن والخداج النقصان والفساد من قولهم اخدجت الناقة وخدجت اذا ولدت قبل تمام وقتها (وقبل تمام الخلق وذلك نتاج فاسد… وقد زعم من لم يوجب قراءة فاتحة الكتاب فى الصلاة وقال هي وغيرها سواء وان قوله خداج يدل على جواز الصلاة لانه نقصان والصلاة الناقصة جائزة وهذا تحكم فاسد والنظر يوجب فى النقصان الا تجوز معه الصلاة لانها صلاة لم تتم ومن خرج من صلاة قبل ان يتمها فعليه اعادتها تامة كما امر على حسب حكمها ومن ادعٰي انها تجوز مع اقراره بنقصها فعليه الدليل ولا سبيل اليه من وجه يلزم والله اعلم).
یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے فقہی مسئلہ نکلتا ہے کہ ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور جس نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ ناقص اور فاسد ہے، اگرچہ سورہ فاتحہ کے علاوہ کتنا ہی قرآن کیوں نہ پڑھا گیا ہو۔ اور یہی مطلب خداج کا ہے جیسے کہتے ہیں ”اخدجت الناقة“ یعنی اونٹنی نے وقت پورا ہونے سے پہلے کچا حمل گرا دیا۔ اور ان لوگوں کا یہ خیال غلط ہے جو کہتے ہیں کہ نامکمل نماز ادھوری ہونے کے باوجود ہو جائے گی۔ یہ غلط اور فاسد فیصلہ ہے کیونکہ تحقیق کے مطابق کمی والی صورت میں نماز مکمل نہ ہو گی اور جو نماز مکمل نہیں وہ جائز کیسے ٹھہری؟ اور جو آدمی نماز کے مکمل کرنے سے پہلے اس سے نکل جائے تو اس پر حق ہے کہ دوبارہ مکمل نماز پڑھے جیسے اس کو حکم دیا گیا ہے۔ جو شخص اقرار کرتا ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز ناقص ہے پھر بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نماز جائز ہے تو اسے دلیل دینی چاہیے جس کے بغیر دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
(ج) اس حدیث میں الفاظ ہیں کہ
”من صلى صلاة الخ“
یعنی جس نے بھی نماز پڑھی اور وہ کوئی سی بھی نماز ہو اور دوسری حدیث میں ہے کہ
”كل صلاة لا يقرأ فيها بام الكتاب فهي خداج“
(جزء القراءة للبیہقی صفحہ 21)
یعنی ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ ناقص اور ادھوری ہے۔ اور ہر نمازی کے لیے یہی عام حکم ہے، امام، مقتدی یا اکیلا ہو، کوئی بھی نماز ہو، جہری ہو یا سری ہو، کوئی بھی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر مکمل نہ ہو گی یا کہ ادھوری رہے گی حالانکہ ہمیں مکمل نماز پڑھنے کا حکم ہے۔
(د) حدیث کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی یہی مفہوم سمجھا ہے، جب ان سے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواباً کہا کہ سورہ فاتحہ آہستہ پڑھا کرو جس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث میں سب کو سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے کیونکہ الراوي ادري بمرويته یعنی راوی اپنی روایت کے مطلب کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔
(ہ) بلکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق دوسری حدیث بطور دلیل کے پیش کی ہے جس میں سورہ فاتحہ کو ہی نماز کہا گیا ہے۔ اس حدیث میں نماز کی تقسیم اور سورہ فاتحہ کی تقسیم کا ذکر ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ سورہ فاتحہ خود بھی نماز ہے، اس کے بغیر نماز نہ ہو گی۔
(و) نیز جو لوگ مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے روکتے ہیں وہ غور کریں کہ اس کے پاس کیا باقی رہا جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان تقسیم کیا جائے؟ بلکہ اپنے رب سے ایسی مناجات، دعا اور جواب سے محروم رہے گا، اس لیے سورہ فاتحہ ہر نمازی کے لیے ضروری ہے۔

حدیث نمبر 3

بروایت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه قال كنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم فى صلاة الفجر فثقلت عليه القراءة فلما فرغ قال: ”لعلكم تقرؤون خلف امامكم؟“ قلنا نعم يا رسول الله! قال: ”لا تفعلوا الا بفاتحة الكتاب فانه لا صلاة لمن لم يقرأ بها.“ رواه ابو داؤد والترمذي والنسائي معناه وفي رواية لابي داؤد قال: ”وانا اقول مالي ينازع القرآن فلا تقرؤوا بشئ من القرآن اذا جهرت الا بام القرآن.“

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بھاری اور مشکل ہو گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تب فرمایا: ”شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ(ﷺ)! آپ نے فرمایا: ”ایسے نہ کیا کرو سوائے سورہ فاتحہ کے کیونکہ جس شخص نے بھی سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوگی۔“ اور ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی کہہ رہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے، قرآن مجھ سے جھگڑا کر رہا ہے۔ پس جب میں جہر سے نماز پڑھاؤں تو سورہ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو۔“

(مشکوٰة حدیث 854)

صحت حدیث:

امام ترمذی نےجامع الترمذی، حدیث 311 میں اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ امام خطابی معالم السنن شرح ابو داؤد حدیث 823 پر فرماتے ہیں کہ:
”هذا الحديث نص بان قراءة فاتحة الكتاب على من صلى خلف الامام سواء جهر الامام بالقراءة او خافت بها. واسناده جيد لا طعن فيه.“
یعنی یہ حدیث صاف اور واضح ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے خواہ وہ نماز جہری ہو یا سری۔ اور اس حدیث کی سند بالکل عمدہ ہے اس پر کوئی جرح نہیں ہے۔
اور حافظ ابن حجر ”الدراية فى تخريج احاديث الهداية“ صفحہ 164 میں فرماتے ہیں:
”واخرجه ابو داؤد باسناد رجاله ثقات.“
یعنی حدیث ابو داؤد میں ہے اس کے راوی ثقہ ہیں۔
نیز ”التلخيص“ جلد 1 صفحہ 231 میں فرماتے ہیں: ابو داؤد، ترمذی، دارقطنی، ابن حبان، حاکم اور بیہقی ان سب نے صحیح کہا ہے۔ علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی ”السعاية شرح شرح الوقايه“ صفحہ 303 جلد 2میں لکھتے ہیں کہ:
”وقد ثبت بحديث عبادة وهو حديث صحيح قوي السند امره بقراءة الفاتحة للمقتدي.“
یعنی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ثابت اور صحیح ہے اور اس کی سند قوی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی اور امام کو سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

اعتراض:

اس حدیث پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق راوی ہے جس پر جرح کی گئی ہے۔ مگر یہ اعتراض غلط ہے کیونکہ امام محمد بن اسحاق مشہور ثقہ راوی ہے۔ خود علماء حنفیہ اس کو ثقہ مانتے ہیں۔
حنفی مذہب کے مشہور امام ابن الہمام ”فتح القدیر شرح الہدایہ“ صفحه 301 جلد 1 میں لکھتے ہیں کہ:
”امام ابن اسحاق فثقة ثقة لا شبهة عندنا فى ذلك ولا عند محققي المحدثين.“
یعنی امام ابن اسحاق ثقہ ہے، اس کے بارے میں ہمیں اور محقق محدثین کو کوئی شبہ نہیں۔
”شرح منيه المصلي“ میں ہے کہ: ”والحق فى ابن اسحاق التوثيق.“ یعنی ابن اسحاق کا ثقہ ہونا حق ہے۔
اور علامہ لکھنوی ”السعاية“ صفحہ 372 جلد 1 میں فرماتے ہیں کہ: ”ان المرجح فى ابن اسحاق التوثيق.“ یعنی راجح قول کے مطابق ابن اسحاق ثقہ ہے۔ اور علامہ سلام اللہ حنفی موطا کی شرح میں لکھتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ ابن اسحاق ثقہ ہے اس لیے اس کی حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ نیز ابن اسحاق اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ زید بن واقد بھی اس حدیث کا راوی ہے جس کی حدیث دارقطنی صفحہ 319 جلد 1، جزء القراءة للبخاری صفحہ 42 اور جزء القراءة للبیہقی صفحہ 42 وغیرہ میں مروی ہے۔
الغرض یہ حدیث صحیح اور اپنے مطلب میں واضح ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے ضرور سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر مقتدی کو فرمایا: ”جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوگی۔“ اور نماز بھی فجر کی تھی جس میں جہری قراءت ہوتی ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”جب میں جہراً پڑھوں تو میرے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا کرو“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے علاوہ قرآن کی کوئی اور سورت پڑھنا منع ہے نہ کہ سورہ فاتحہ کا پڑھنا منع ہے بلکہ اس کے پڑھنے کا حکم ہے۔ اس حدیث کے سننے کے بعد کوئی بھی مسلمان امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے میں سستی نہیں کرے گا۔

حدیث نمبر 4

بروایت محمد بن ابی عائشہ

عن محمد بن ابي عائشة عن رجل من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”لعلكم تقرؤون والامام يقرأ؟“ مرتين او ثلاثا، قالوا: يا رسول الله! انا لنفعل، قال: ”فلا تفعلوا الا ان يقرأ احدكم بفاتحة الكتاب.“

ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو جب امام پڑھتا ہے؟“ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار فرمائی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ!(ﷺ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح نہ کیا کرو بلکہ تم میں سے ہر ایک صرف سورہ فاتحہ پڑھے۔“

 (مسندأحمد: 236/4)

نیز یہ حدیث جزء القراءة للبخاری صفحہ 18 اور جزء القراءة للبیہقی صفحہ 15 میں بھی مروی ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ:
”هذا حديث صحيح احتج به محمد بن اسحاق بن خزيمة رحمه الله فى جملة ما احتج فى الباب.“
یعنی یہ حدیث صحیح ہے اور امام ابن خزیمہ نے اس سے دلیل لی ہے کہ اس حدیث میں بھی مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے۔

حدیث نمبر 5

بروایت انس رضی اللہ عنہ

عن انس رضى الله عنه ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى باصحابه فلما قضٰي صلاته اقبل عليهم بوجهه فقال: ”اتقرؤون فى صلاتكم والامام يقرأ؟“ فسكتوا فقال ثلاث مرات، فقال قائل او قائلون انا لنفعل، قال: ”لا تفعلوا وليقرأ احدكم بفاتحة الكتاب فى نفسه.“
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کی طرف منہ کر کے فرمایا: ”کیا تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو جب امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟“ وہ سب خاموش رہے۔ آپ نے یہ تین بار فرمایا۔ پس انہوں نے عرض کیا: ہم اس طرح کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح نہ کیا کرو اور تم میں سے ہر ایک صرف سورہ فاتحہ اپنے دل میں پڑھ لیا کرے۔“

(جزء القراءة للبخاری حدیث 24)

یہ حدیث صحیح ابن حبان (ترتیب فارسی) صفحہ 337 جلد 3, حدیث 1820 میں بھی ہے۔ اور ابن حبان نے اس حدیث کو محفوظ کہا ہے۔ اور علامہ نور الدینبيهمي ”مجمع الزوائد“ حدیث 3388, صفحہ 110 پر یہ حدیث لا کر فرماتے ہیں کہ:
”رواه ابو يعليٰ موصلي والطبراني فى الاوسط ورجاله ثقات.“
یعنی یہ حدیث مسند ابو یعلیٰ موصلی (حدیث 3388) اور معجم الطبرانی اوسط (حدیث 649) میں بھی مروی ہے اور اس کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔
اس حدیث میں بھی مقتدیوں کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے۔

حدیث نمبر 6

بروایت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما

عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”اتقرء ون خلفي؟“ قالوا: نعم لنهذه هذا، قال: ”لا تفعلوا الا بام القرآن.“
عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میرے پیچھے (نماز میں) قراءت کرتے ہو؟“ ہم نے عرض کی: ہاں جلدی پڑھ لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے نہ کیا کرو سوائے سورہ فاتحہ کے۔“

(جزء القراءة حدیث 11)

یہ حدیث جزء القراءة للبیہقی صفحہ نمبر 53 میں بھی ہے۔ اس حدیث سے بھی واضح ہے کہ مقتدی کو بھی سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور منع صرف قرآن کی کسی دوسری سورت (فاتحہ کے علاوہ) کے متعلق ہے۔

حدیث نمبر 7

بروایت اہل بادیہ

عن رجل من اهل الباديه عن ابيه وكان ابوه اسيرا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لاصحابه: ”تقرؤون خلفي القرآن؟“ فقالوا: يا رسول الله! نهذه هذا، قال: ”لا تقرؤوا الا بفاتحة الكتاب.“

ایک اعرابی اپنے والد سے (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی بنا کر لایا گیا تھا اور بعد میں مسلمان ہو گیا تھا) سے روایت کرتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرما رہے تھے: ”کیا تم میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ اور نہ پڑھا کرو۔“

(جزء القراءة للبیہقی حدیث 27)

حدیث نمبر 8

بروایت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

عن عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:
”من صلى خلف الامام فليقرأ بفاتحة الكتاب.“

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو امام کے پیچھے نماز پڑھے وہ سورہ فاتحہ ضرور پڑھے۔“

(مسند الشامیین للطبرانی حدیث 1019)

صحت حدیث:
اس حدیث کو امام سیوطی نے ”الجامع الصغير“ صفحہ 74 جلد 1 میں حسن کہا ہے اور علامہ بیہمی ”مجمع الزوائد“ صفحہ 111 جلد 2 میں فرماتے ہیں: ”رجالہ موثوقون۔“ یعنی اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ اور علامہ علقمی نے ”شرح الجامع الصغير“ میں اس حدیث کو حسن مانا ہے۔ اس حدیث میں بالکل وضاحت سے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے۔

حدیث نمبر 9

بروایت مہران رضی اللہ عنہ

عن عبد الرحمن بن سوار قال كنت عند عمرو بن ميمون بن مهران فقال له رجل من اهل الكوفه يا ابا عبد الله بلغني انك تقول من لم يقرأ خلف الامام بام القرآن فصلا ته خداج، قال عمرو صدق حدثني ابي ميمون بن مهران عن ابيه مهران رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم انه قال: ”من لم يقرأ بام الكتاب خلف الامام فصلا ته خداج.“

عبد الرحمن بن سوار سے روایت ہے کہ میں عمرو بن میمون بن مہران کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ کوفہ کے ایک شخص نے کہا: اے ابو عبد اللہ! مجھے خبر ملی ہے کہ تو کہتا ہے جو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز خداج (ادھوری) ہے۔ عمرو بن میمون نے کہا: یہ بات سچی ہے۔ مجھے میرے والد میمون نے روایت کی، وہ اپنے والد مہران رضی اللہ عنہ سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی شخص امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز خداج (ادھوری) ہے۔“

(جزء القراءة للبیہقی حدیث 26)

حدیث نمبر 10

بروایت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب خلف الامام.“ قال ابو الطيب قلت لمحمد بن سليمان خلف الامام؟ قال: خلف الامام، وهذا اسناد صحيح والزيادة التى فيه كالزيادة التى فى حديث مكحول وغيره فهي عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه صحيحة مشهورة من اوجه كثيرة وعبادة بن الصامت رضى الله عنه من اكابر اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وفقهائهم.

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہے۔“ راوی ابو طیب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد محمد بن سلیمان سے پوچھا: امام کے پیچھے؟ یعنی یہ الفاظ حدیث میں ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور یہ زیادتی (امام کے پیچھے) صحیح ہے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بڑے اکابر فقہاء صحابہ میں سے ہیں، ان سے بیشتر سندوں سے احادیث مروی ہیں جو اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں یعنی کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی۔

(جزء القراءة للبیہقی حدیث 18)

حدیث نمبر 11

بروایت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما

عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم علم خطب الناس فقال: ”من صلى صلاة مكتوبة او سبحة فليقرأ فيها بام القرآن وقرآن معها فان انتهٰي الي ام القرآن اجزأت عنه ومن كان مع الامام فليقرأ بام القرآن قبله اذا سكت ومن صلى صلاة لم يقرأ فيها بام القرآن فهي خداج فهي خداج.“

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص فرضی نماز یا نفلی نماز پڑھے تو وہ ضرور سورہ فاتحہ پڑھے اور اس کے ساتھ مزید قرآن بھی پڑھے، اگر سورہ فاتحہ پر اکتفا کرتا ہے پھر بھی کافی ہے۔ جو شخص امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے وہ بھی ضرور سورہ فاتحہ پڑھے اور امام کے قراءت شروع کرنے سے پہلے پڑھ لے، جس نے بھی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی وہ نماز ادھوری ہے، ادھوری ہے۔“ اس روایت کی امام بیہقی نے متعدد اسناد نقل کی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ میں سورہ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دینا اس مسئلے کا اہم ترین ہونا ظاہر کر رہا ہے۔

(جزء القراءة للبیہقی حدیث 28)

حدیث نمبر 12

بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

عن ابي هريره رضى الله عنه قال امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان انادي: ”لا صلاة الا بقراءة فاتحة الكتاب فما زاد.“

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں مدینہ میں منادی کروں: ”سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی پھر اس سے زیادہ قراءت بھی کر سکتا ہے۔“

(جزء القراءة للبخاری حدیث 12)
جزء القراءة للبیہقی حدیث 6میں یہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ:
”اخرج فناد فى الناس ان لا صلاة الا بقراءة فاتحة الكتاب فما زاد.“
یعنی باہر نکل کر لوگوں میں منادی کر کہ سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی بھی نماز نہیں ہوتی پھر اس سے زیادہ کچھ قراءت بھی کر سکتا ہے۔ اور یہ الفاظ بھی ہیں کہ:
”قال امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان انادي فى المدينة انه لا صلاة الا بقراءة ولو بفاتحة الكتاب.“
یعنی مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں مدینہ میں منادی کروں کہ کوئی بھی نماز قراءت کے بغیر نہیں ہوتی اگرچہ صرف سورہ فاتحہ ہی ہو۔
ثابت ہوا کہ سورہ فاتحہ فرض اور ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ عام منادی کرانے سے یہی ظاہر ہوتا ہے اور وہ سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے والے تھے۔ جب مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنا منع تھا تو منادی میں اس بات کی وضاحت کر دی جاتی مگر مطلق حکم دیا گیا کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی اس لیے ہر نماز کے لیے سورہ فاتحہ ضروری ہے۔

حدیث نمبر 13

بروایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ

عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده انهم كانوا يقرؤون خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا انصت فاذا قرأ لم يقرؤوا واذا انصت قرؤوا وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”كل صلاة لا يقرأ فيها بام القرآن فهي خداج.“

عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا یعنی عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراءت کرتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قراءت کرتے تو مقتدی خاموش رہتے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تو مقتدی قراءت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”جس نماز میں سورہ فاتحہ نہیں وہ نماز خداج (ادھوری) ہے۔“

(جزء القراءة للبیہقی حدیث 39)

حدیث نمبر 14

بروایت جابر رضی اللہ عنہ

عن جابر رضى الله عنه ذكر قصة معاذ قال قال يعني النبى صلى الله عليه وسلم للفتيٰ كيف تصنع يا ابن اخي اذا صليت؟ قال اقرأ بفاتحة الكتاب واسأل واعوذ به من النار واني لا ادري ما دندنتك ولا دندنة معاذ فقال النبى صلى الله عليه وسلم: ”اني ومعاذ حول هاتين او نحو هذا.“

معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے متعلق جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے پوچھا: تو نماز میں کس طرح کرتا ہے؟ اس نے کہا: میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہوں اور اللہ سے جنت مانگتا ہوں اور جہنم سے پناہ طلب کرتا ہوں، مجھے آپ کے اور معاذ کے طریقے کا پتہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم دونوں کا بھی یہی طریقہ ہے۔“

(سنن أبي داود حدیث 796)

ناظرین!
اس نوجوان کا نام سلیم تھا اور وہ انصاری تھا اور معاذ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاذ رضی اللہ عنہ کی نماز کی طوالت کی شکایت کرنے آیا تھا۔ ثابت ہوا کہ مقتدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نوجوان نے یہ حقیقت بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یہ نہیں کہا کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھا کرو، تجھے امام کی قراءت ہی کافی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تک فرمایا کہ ”ہم دونوں کا بھی یہی طریقہ ہے۔“

حدیث نمبر 15

بروایت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ

عن كثير بن مره سمع ابا الدرداء رضى الله عنه سئل النبى صلى الله عليه وسلم ما فى كل صلاة قراءة؟ قال: ”نعم.“

کثیر بن مرہ نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا ہر نماز میں قراءت کرنی چاہیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“

(جزء القراءة للبخاری حدیث 4)

یہاں قراءت سے مراد سورہ فاتحہ ہے جیسے دوسری احادیث سے واضح ہے، اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ خاموش ہو کر کھڑے رہنے سے نماز نہیں ہوتی اور ایسی نماز کسی کام کی نہیں ہوتی بلکہ اس میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔

حدیث نمبر 16

بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

عن ابي هريره رضى الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: ”من صلى صلاة مكتوبة مع الامام فليقرأ فاتحة الكتاب فى سكتاته ومن انتهٰي الي ام القرآن فقد اجزأه.“

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص امام کے ساتھ فرضی نماز پڑھ رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ امام کے خاموش ہونے کے دوران سورہ فاتحہ پڑھے، جس نے صرف سورہ فاتحہ ہی پڑھی تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔“

(المستدرک للحاکم حدیث 857)

فائدہ:
امام حاکم نے اس حدیث کی سند کو مستقیم کہا ہے۔
ناظرین:
یہ سولہ احادیث ذکر کی گئی ہیں جن سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ہر حالت میں پڑھنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ملنے کے بعد کسی بھی مسلمان کو اس مسئلے کے بارے میں کوئی تردد یا شک نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار ذکر کیے جاتے ہیں جو کہ جزء القراءة للبخاری، جزء القراءة للبیہقی، الدارقطنی، سنن الکبریٰ للبیہقی سے لیے گئے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے