نماز میں صف بندی: کندھے سے کندھا ملا ہو، 20 صحیح احادیث
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب صف بندی کے احکام و مسائل سے لیا گیا ہے۔

 

صف بندی؛ ضرورت و اہمیت

نماز کے لیے صفوں کو درست کرنا، ان کے درمیان فاصلہ کم رکھنا، صف میں کندھوں کو برابر رکھنا، ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملانا واجب ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ سلف ہمیشہ اس کے عامل رہے ہیں۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صف بندی کے احکام بڑی تاکید سے بیان ہوئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :

سیدنا جابر بن سمرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها؟»، فقلنا : يا رسول الله، وكيف تصت الملائكة عند ربها؟، قال : يتمون الصفوف الأول، ويتراصون في الصف».

’’آپ اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے ، جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور صف بستہ ہوتے ہیں؟ عرض کیا : اللہ کے رسول! فرشتے کیسے صف بناتے ہیں؟ فرمایا : پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے یوں مل کر کھڑے ہوتے ہیں کہ درمیان میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔“

🌿(صحیح مسلم : 430)

سیدنا ابو مسعود انصاری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح مناكبنا في الصلاة، ويقول: «استووا ولا تختلفوا، فتختلف قلوبكم»، … قال أبو مسعود : فأنتم اليوم أشد اختلافا.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہمارے کندھوں کو اپنے دست مبارک سے برابر کرتے اور فرماتے : سیدھے ہو جائیے ، ٹیڑھے نہ ہوں، ورنہ دل ٹیڑھے ہو جائیں گے ۔۔۔ ابو مسعود رضی الله عنه کہتے ہیں کہ آج آپ سخت اختلاف کا شکار ہو۔“
🌿(صحیح مسلم: 432)

معلوم ہوا کہ صفیں ٹیڑھی ہوں تو دل بھی ٹیڑھے ہو جاتے ہیں، مودت و محبت ختم ہو جاتی ہے، دشمنی اور عداوت گھر کر جاتی ہے، دلوں کو بغض، حسد اور عناد جیسی مہلک بیماریاں گھیر لیتی ہیں، بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، دوستی رنجشوں میں بدل جاتی ہے، دلوں میں ایسی پھوٹ پڑتی ہے کہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا گوارا نہیں ہوتا۔ آج بھی اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حدیث کو فیصل وحاکم مان کر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ائمہ مساجد اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں، صفوں کی درستی پر توجہ نہیں دیتے۔ ایسوں کو اللہ تعالی روز قیامت ضرور پوچھے گا۔ ائمہ کو اس وقت تک نماز شروع نہیں کرنی چاہیے، جب تک صفیں درست نہ ہو جائیں۔

سیدنا براء بن عازب رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخلل الصف من ناحية إلى ناحية، يمسح صدورنا ومناكبنا، ويقول : «لا تختلفوا، فتختلف قلوبكم.

’’رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صف میں داخل ہو کر ایک جانب سے دوسری جانب تک جاتے ۔ سینوں اور کندھوں کو ہاتھوں سے درست کرتے اور فرماتے : نیڑ ھے نہ ہوا کریں، ورنہ دل ٹیڑھ پن کا شکار ہو جائیں گے۔‘‘

🌿(مسند الإمام أحمد : 285/4؛ سنن أبي داود : 664؛ سنن النسائي : 812 ؛ سنن ابن ماجه : 997 متختصرا، وسنده صحيح)

اس حدیث کو امام ابن جارود (۳۱۲)، امام ابن خزیمہ (۱۵۵۶) اور امام ابن حبان (۲۱۶۱) رحمتہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمتہ اللہ (۳۱۱ ھ ) اس حدیث پر تبویب فرماتے ہیں :
باب التعليظ في ترك تسوية الصفوف، تخوفا لمخالفة الرب عز وجل بين القلوب .

’’صفوں کی درستی میں سستی کے بارے میں سخت وعید، ڈرنا چاہئے کہ اللہ دلوں میں دوری نہ ڈال دے۔‘‘

🌿(صحيح ابن خزيمة : 24/3)

سیدنا نعمان بن بشیر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي صفوقنا حتى كأنما يسوي بها القداح، حتى رأى أنا قد عقلنا عنه، ثم خرج يوما، . فقام حتى كاد يكبر ، فرأى رجلا باديا صدره من الصت، فقال: عباد الله، لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم .

’’رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں اس طرح سیدھی کرتے کہ گویا تیروں کو سیدھا کرتے ہوں، تا آنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کر لیا کہ ہم یہ بات سمجھ چکے ہیں۔ ایک دن تشریف لائے اور تکبیر تحریمہ کہنے ہی والے تھے ۔ آپ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو سینہ صف سے باہر نکالے ہوئے تھا۔ فرمایا : اللہ کے بندو! صفوں کو درست کر لو، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ میں نفرت اور پھوٹ پیدا کر دے گا۔‘‘
🌿(صحیح مسلم: 436)

صفوں کا سیدھا کرنا نہایت ضروری ہے، صفیں کج اور ٹیڑھی نہ ہوں صفوں کا ٹیڑھا پن باہمی پھوٹ ، اختلاف قلوب اور باطنی کدورت کا ضروری سبب ہے۔ جب تک صف درست نہ ہو، نماز شروع نہیں کرنی چاہیے۔

سیدنا نعمان بن بشیر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لتسون صفوفكم، أو ليخالفن الله بين وجوهكم».

’’صفوں کو سیدھا کر لو، ورنہ اللہ آپ کے منہ ایک دوسرے سے پھیر دے گا۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 717 ، صحیح مسلم : 436)

علامه ابن حزم رحمتہ اللہ (۴۵۶ھ) فرماتے ہیں:

هذا وعيد شديد، والوعيد لا يكون إلا في كبيرة من الكبائر .

’’یہ سخت وعید ہے اور وعید ہمیشہ کسی کبیرہ گناہ کے بارے ہوتی ہے۔‘‘

🌿(المحلى : 55/2، مسئلة : 415)

سید نا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إذا صليتم، فأقيموا صفوفكم».

’’جب آپ نماز ادا کریں ، تو صفوں کو درست کر لیا کریں۔‘‘
🌿(صحیح مسلم : 404)

⑦سیدنا براء بن عازب رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«رصوا الصفوف، لا يتخللكم مثل أولاد الحذف»، قيل : يا رسول الله، وما أولاد الحذف ؟ قال : غنم سود صغار، يكون بالیمین».

’’صفوں کو اس طرح ملایا کریں کہ درمیان سے ’’حذف‘‘ کے بچے جتنی چیز بھی نہ گزر سکے۔ پوچھا گیا کہ ’’حذف‘‘ کیا ہے؟ فرمایا: یمن میں پائی جانے والی چھوٹی سی بکری ۔‘‘
🌿(مصنف ابن أبي شيبة : 351/1؛ مسند السراج : 758؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم : 217/3 ، وسنده صحيح)

امام حاکم رحمتہ اللہ نے اس حدیث کو بخاری و مسلم بنانے کی شرط پر ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

سیدنا نعمان بن بشیر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں:
«كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي يعني صفوفنا إذا قمنا للصلاة، فإذا استوينا كبر».

’’ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو سیدھا کرتے۔ ہم سیدھے ہو جاتے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تکبیر کہتے۔‘‘
🌿(سنن أبي داود : 665؛ صحيح أبي عوانة : 1380 ، وسنده حسن)

حافظ نووی رحمتہ اللہ نے اس کی سند کو امام مسلم رحمتہ اللہ کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

🌿(خلاصة الأحكام : 2470)

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أقيموا الصف في الصلاة، فإن إقامة الصف من حسن الصلاة».

’’صفیں قائم رکھیں، یہ نماز کا حسن ہے۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 722؛ صحیح مسلم : 435)

سیدنا انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«سَرُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنْ تَسْوِيَةَ الصَّفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ».

’’صفیں درست کریں، کیونکہ صفوں کی درستی نماز کا قائم کرنا ہے۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 723؛ صحیح مسلم : 433)

صف کا برابر اور سیدھا کرنا نماز قائم کرنے میں داخل ہے،صفوں کا ٹیڑھا ہونا نماز میں نقصان کا باعث ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أحسنوا إقامة الصفوف في الصلاة».

’’صفیں اچھی طرح درست کیا کریں۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : 485/2، وسنده صحيح)

امام ابن حبان رحمتہ اللہ (۲۱۷۹) نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
«أقيمت الصلاة، فأقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم وترادوا فإني أراكم من وراء ظهري».

’’اقامت کہی جا چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ انور ہماری طرف پھیرا اور فرمایا : صفیں مکمل کر کے خوب مل کر کھڑے ہوں۔ میں آپ کو پیٹھ کے پیچھے دیکھتا ہوں۔‘‘

🌿(صحيح البخاري : 719)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أقيموا صفوفكم، فإني أراكم من وراء ظهري»، وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه، وقدمه بقدمه .

’’صفیں سیدھی کریں، ( دوران نماز ) میں آپ کو اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ پھر ہم اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں چپکانے لگے۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 725)

انگلی سے انگلی ملانے پر اکتفا کرنا درست نہیں، بلکہ پاؤں سے پاؤں ملانا چاہئے۔
علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رمان (م : 1414 ھ ) فرماتے ہیں :

كل ذلك يدل دلالة واضحة على أن المراد بإقامة الصف وتسويته؟ إنما هو اعتدال القائمين على سمت واحد ، وسد الخلل والفرج في الصف بالزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم، وعلى أن الصحابة في زمنه صلى الله عليه وسلم كانوا يفعلون ذلك، وأن العمل برض الصت وإلزاق القدم بالقدم وسد الخلل كان في الصدر الأول من الصحابة وتبعهم، ثم تهاون الناس به .

’’یہ تمام الفاظ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ صفوں کی درستی سے مراد نمازیوں کا ایک سیدھ میں کھڑا ہونا، کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر خالی جگہ پر کرنا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صحابہ ایسا کرتے تھے اور صف کو اچھی طرح ملانے اور پاؤں سے پاؤں چمٹانے کا عمل اسلام کے صدر اول، یعنی صحابہ وتابعین میں موجود تھا، ہاں ! بعد میں لوگ مستی اور کاہلی کا شکار ہو گئے ۔‘‘
🌿(مرعاة المفاتيح : 5/4)

علامہ انور شاہ کشمیری صاحب (۱۳۵۳ھ ) کہتے ہیں :
المراد بإلزاق المنكب بالمنكب عند الفقهاء الأربعة أن لا يترك في البين فرجة تسع فيها ثالثا … ولم أجد عند السلف فرقا بين حال الجماعة والانفراد في حق الفصل بأن كانوا يفصلون بين قدميهم في الجماعة أزيد من حال الانفراد، وهذه المسأله أوجدها غير المقلدين فقط ، وليس عندهم إلا لفظ الإلزاق، وليت شعري، ماذا يفهمون من قولهم : الباء للالتصاق، ثم يمتلونه : مررت بزيد، فهل كان مروره به متصلا بعضه ببعض أم كيف معناه؟ وفي مسائل التعامل لا يؤخذ بالألفاظ ….. لما لم نجد الصحابة والتابعين يفرقون في قيامهم بين الجماعة والانفراد؛ علمنا أنه لم يرد بقوله إلزاق المنكب إلا التراص وترك الفرجة، ثم فكر في نفسك ولا تعجل أنه هل يمكن إلزاق المنكب مع إلزاق القدم إلا بعد ممارسة شاقة، ولا يمكن بعده أيضا، فهو إذن من مخترعاتهم، لا أثر له في السلف .

فقہائے اربعہ کے نزدیک کندھے سے کندھا ملانے کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازیوں کے درمیان تیسرے کی جگہ نہ چھوڑی جائے ، باجماعت اور اکیلے نماز میں پاؤں کے درمیانی فاصلے کا فرق مجھے سلف سے نہیں ملا، سلف صالحین باجماعت نماز کی صورت میں اپنے پاؤں کا درمیانی فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ نہیں رکھتے تھے۔ یہ مسئلہ غیر مقلدین (اہل حدیث) کی ذاتی اختراع ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے. پاس صرف لفظ الزاق ( جو کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور اس کا معنی ایک نمازی کا دوسرے نمازی سے پاؤں اور کندھا چمٹانا) ہے۔ نہیں معلوم کہ غیر مقلدین یہ کہہ کر کیا مراد لیتے ہیں کہ باء الصاق ’’ملاپ کے معنی‘‘ کے لیے ہوتی ہے۔ پھر وہ الصاق کی مثال یہ دیتے ہیں کہ مَرَرْتُ بِزَید میں زید کے پاس سے گزرا‘‘۔ کیا ان کا گزر اس طرح ہوا کہ ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل گیا یا کیا معنی ہو گا؟ تعامل والے مسائل میں الفاظ کو اختیار نہیں کیا جاتا۔ جب ہم نے صحابہ و تابعین کا جماعت میں قیام انفرادی قیام سے الگ نوعیت کا نہیں پایا، تو معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ الزاق بول کر صرف صف کو اچھی طرح ملانا اور خالی جگہ کو پُر کرنا مراد لیا ہے۔ پھر آپ دل میں غور کریں کہ کندھے سے کندھا ملانا بغیر سخت مشقت کے ممکن نہیں، بلکہ مشقت کے بعد بھی ممکن نہیں۔ لہذا یہ غیر مقلدین کی گھڑنتل ہے۔ سلف میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔‘‘

🌿(فيض الباري : 302/2)
کشمیری صاحب کی عبارت سے چند باتیں سمجھ آتی ہیں :
◈ فقہائے اربعہ کے نزدیک کندھے سے کندھا ملانے کا مطلب حقیقی طور پر کندھے سے کندھا ملانا نہیں، بلکہ دو نمازیوں کا باہم قریب ہو کر کھڑا ہونا ہے۔ البتہ وہ آپس میں اتنا فاصلہ چھوڑ سکتے ہیں کہ کوئی تیسرا شخص درمیان میں کھڑا نہ ہو سکے۔
اختلاف پر معذرت ، لیکن یہ بات کسی امام سے ثابت نہیں۔
◈ سلف میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جو جماعت میں پاؤں کا فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ رکھتا ہو، ایسا صرف غیر مقلدین کرتے ہیں۔
بجا کہ کوئی غیر مقلد قسم کی مخلوق ہو گی، جو پاؤں کا فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ رکھتی ہو گی، لیکن اگر اس سے مراد اہل حدیث ہیں، تو یہ کشمیری صاحب کی غلط فہمی ہے، اہل حدیث انفرادی اور باجماعت دونوں حالتوں میں کندھوں کے حساب سے پاؤں کھولنے کے قائل ہیں اور اسی طرح صف درست ہوتی ہے۔
◈ اہل حدیث کے پاس صرف لفظ الزاق ہی ہے ، جسے وہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانے پر پیش کرتے ہیں۔
جبکہ الزاق کے ساتھ ساتھ تَرَاصُوا ’’باہم چپک جاؤ‘‘ اور سُدُّوا الْخَلَلَ ’’خالی جگہیں پر کرو‘‘ وغیرہ کے الفاظ اس معنی پر واضح ہیں، جو علمائے اہل حدیث کرتے ہیں۔
◈ کندھے سے کندھا ملانے والی حدیث میں باء الصاق ’’ملاپ‘‘ کے لیے ہے، جس کی مثال مَرَرْتُ بِزَيْدِ ’’میں زید کے پاس سے گزرا‘‘ ہے۔ کیا کوئی کسی کے پاس سے گزرتا ہے تو ان کا جسم بھی باہم ملتا ہے؟
مَرَرْتُ بِزَيْدِ ’’میں زید کے پاس سے گزرا‘‘ یہ تو الصاق مجازی کی مثال ہے، الصاق حقیقی کی مثال اہل لغت نے یوں ذکر کی ہے۔ به داء ’’اسے بیماری لگی ہے۔‘‘ کیا بیماری جسم سے چمٹی نہیں ہوتی ؟ حدیث میں پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانے کے ذکر میں جو باء الصاق ہے، وہ الصاق حقیقی کے لئے ہے۔
◈ صف بندی پر امت کا تعامل ہے اور وہ صرف افراد کے باہمی ایک سمت میں کھڑے ہونے پر ہے، لہذا حدیث کے الفاظ کی بجائے تعامل ہی معتبر ہے۔

صحابہ و تابعین کا عمل تو صحیح احادیث کی روشنی میں یہی تھا کہ وہ باہم پاؤں کے ساتھ پاؤں اور کندھے سے کندھا اچھی طرح ملاتے تھے ۔ ہر دور میں اہل حق اس پر عمل کرتے آئے ہیں۔ اہل حدیث کی مساجد میں آج بھی یہ سنت زندہ ہے۔ والحمد للہ!
◈ کندھے سے کندھا حقیقی طور پر ملانا انتہائی مشقت طلب، بل کہ ناممکن ہے۔ یہ غیر مقلدین کی گھڑنت ہے۔
تجربہ شاہد ہے کہ اس میں کوئی مشقت نہیں، بل کہ آسانی ہے، آپ کسی بھی اہل حدیث مسجد میں جا کر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمتہ اللہ (م : 1414 ھ ) فرماتے ہیں :

’’یہاں الزاق کو مجازی معنی پر محمول کرنا محتاج قرینہ ہے۔ الزاق کی یہ تفسیر کرنا کہ دو نمازیوں کے درمیان تیسرے آدمی کی جگہ نہ چھوڑی ہو، اس پر کوئی شرعی وعقلی دلیل نہیں ۔ یہاں اس معنی پر محمول کرنے کے لیے ادنی سا قرینہ اور کوئی کمزور ترین شائبہ بھی موجود نہیں۔ ایک صاحب نے سنت کو بدعت بنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باہم خالی جگہ چھوڑنا ، آپس میں نہ ملنا اور الزاق پر عمل نہ کرنا سنت ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں کی، بل کہ اس قدر جری ہیں کہ اپنی خانہ ساز بات ائمہ اربعہ کے حوالے سے بیان کر دی۔ میں کہتا ہوں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام کے عمل سے کون سی دلیل ہے، جو انفرادی اور جماعت کی حالت میں نمازی کے دونوں پاؤں کے درمیان چار انگلیوں یا ایک بالشت برابر فاصلے کی حد بندی کرتی ہے؟ حق تو یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت و نرمی کرتے ہوئے نمازی کے پاؤں کے مابین فاصلے کو معین نہیں کیا، کیوں کہ یہ فاصلہ نمازی کی حالت کے مطابق بدلتا رہتا ہے، جیسا کہ کوئی نمازی پتلا ، کوئی موٹا، کوئی مضبوط اور کوئی کمزور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نمازی اپنے پاؤں کو جماعت میں اتنا کھولے گا کہ اس کے لیے بغیر تکلف و مشقت کے خالی جگہ کو ختم کرنا اور ساتھ والے کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانا ممکن ہو۔ پھر ہمارے پاس صرف الزاق کا لفظ ہی نہیں، ’بل که تراص‘ ، ’سد خلل‘ اور شیطان کے لیے خالی جگہ چھوڑنے سے ممانعت جیسے الفاظ نبوی بھی ہیں جن میں سے ہر ایک الزاق کو حقیقی معنی پر محمول کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اگر صرف لفظ الزاق ہی ہوتا ، تو پھر بھی کیا ہو جانا تھا؟ کیوں کہ خود (کشمیری صاحب) نے اپنی عبارت کے اختتام پر اس کا اعتراف کر لیا ہے کہ الزاق سے مراد باہم اچھی طرح مل جانا اور خالی جگہ نہ چھوڑنا ہے۔ یہی تو ہم کہتے ہیں۔ باہم اچھی طرح ملنا اور خالی جگہ چھوڑنے سے بچنا تب ہی ممکن ہے، جب آدمی اپنے کندھے کو ساتھ والے نمازی کے کندھے سے اور پاؤں کو اس کے پاؤں سے حقیقی طور پر ملالے۔ نہ جانے (کشمیری صاحب) الصاق حقیقی کی اس مثال کے بارے میں کیا کہیں گے کہ عرب کہتے ہیں : به داء ’’اسے بیماری چمٹی ہے۔‘‘، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں کیا کہیں گے : ’’جب کوئی اپنے ختنہ کو مقام ختنہ کے ساتھ ملائے ، تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا۔‘‘ (کیا یہاں بھی افزاق کا مجازی معنی مراد لیا جائے گا ؟) صحیح ومحکم حدیث تعامل کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتی ہے ، نہ یہ کہ تعامل، حدیث کے قابل عمل یا نا قابل عمل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے نزدیک اہل مدینہ کے یا دیگر بلاد اسلامیہ کے لوگوں کے عمل میں کوئی فرق نہیں۔ باوجود اس کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام کا عمل، خلفائے راشدین کا عمل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام صحابہ و تابعین کا عمل باہم مل کر کھڑے ہونے اور درمیان میں خالی جگہ بالکل نہ چھوڑنے ہی پر تھا۔ صدر اول، یعنی صحابہ و تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا عمل نا قابل اعتبار ہے۔ مزید یہ کہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانے میں ادنیٰ سی مشقت بھی نہیں ہوتی ۔ ہم حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور سنت کے اتباع میں بغیر کسی تکلف و مشقت کے ایسا کرتے ہیں۔ ہم جماعت میں اپنے پاؤں کا درمیانی فاصلہ انفرادی حالت سے زیادہ بھی نہیں رکھتے، لیکن اس سنت پر عمل کرنا صرف انہی لوگوں کے لیے آسان ہے، جو سنت اور صاحب سنت سے محبت رکھتے ہیں اور سنت پر عمل چھوڑنے کے لئے حیلے بہانے نہیں تراشتے۔ رہا مقلد ، جس کی بصیرت جواب دے گئی ہے، تو اس کے لیے ہر سنت بوجھ ہے، سوائے اس کے، جو اس کی خواہش کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور انہیں صحیح ثابت احادیث پر عمل کرنے اور تاویل و تحریف کو ترک کرنے کی توفیق بخشے۔‘‘
🌿(مرعاة المفاتيح : 6/4)

سیدنا انس بن مالک دینی اش بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«استووا تراصوا».

’’سیدھے ہو جائیے، باہم مل جائیے۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : 286/3 ، وسنده صحيح)

سیدنا انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نماز کی اقامت کہی گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ انور ہماری طرف پھیرا ، تو فرمایا :
«أقيموا صفوفكم، وتراصوا فإني أراكم من وراء ظهري».

’’صفیں درست کر لیں، باہم مل کر کھڑے ہوں، میں آپ کو (حالت نماز میں) اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 719)

سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اعتدلوا في صفونكم وتراضوا فإني أراكم من وراء ظهري قال أنس : لقد رأيت أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه، ولو ذهبت تفعل ذلك لترى أحدهم كأنه بغل شموس .

’’صفوں میں اچھی طرح مل کر کھڑے ہوں ۔ (دوران نماز) میں آپ کو اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ انس رضی الله عنه کہتے ہیں کہ ہم اپنے ساتھ والے کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں چپکا لیتے تھے۔ اگر آپ اس طرح کرنے لگیں، تو لوگ سرکش خچروں کی طرح برک جائیں۔‘‘
🌿(مصنف ابن أبي شيبة : 350/1؛ المُخَلّصيّات : 93، سير أعلام النبلاء للذهبي : 491/11 سنن سعید بن منصور نقلا عن فتح الباري لابن حجر : 2 /211 ، وسنده صحيح)

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
أفاد هذا التصريح أن الفعل المذكور كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم، وبهذا يتم الاحتجاج به على بيان المراد بإقامة الصف وتسويته .

’’معلوم ہوا کہ صف بندی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تھی، صفوں کو قائم اور سیدھا کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس حدیث میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔‘‘

🌿(فتح الباري : 211/2)

صاحب التعلیق المغنی کہتے ہیں :
هذه الأحاديث فيها دلالة واضحة على اهتمام تسوية الصفوف، وأنها من تمام الصلاة، وعلى أنه لا يتأخر بعض على بعض، ولا يتقدم بعضه على بعض، وعلى أنه يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه وركبته بركبته ، لكن اليوم تركت هذه السنة، ولو فعلت اليوم؛ لنفر الناس كالحمر الوحشية، فإنا لله وإنا إليه راجعون .

ان احادیث میں واضح دلالت ہے کہ صفوں کی درستی کا اہتمام چاہیے، صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ صف میں آگے پیچھے کھڑے نہیں ہونا چاہیے، ایک شخص دوسرے کے کندھے سے کندھا، پاؤں سے پاؤں اور گھٹنے سے گھٹنا چیکا کر کھڑا ہو، لیکن آج یہ سنت متروک ہو گئی ہے۔ اگر آپ اس پر عمل کریں ، تو لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگیں گے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون
🌿(عون المعبود شرح سنن أبي داود : 256/2 ، التعليق المغني : 284/1)

علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمتہ اللہ (۱۳۵۳ھ ) لکھتے ہیں :
هكذا حال أكثر الناس في هذا الزمان، فإنه لو فعل بهم ذلك؛ لنفروا كأنهم حمر ،وجس وصارت هذه السنة عندهم كأنها بدعة ، عبادا بالله، فهداهم الله وأذاقهم حلاوة السنة .

’’اس دور میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اگر ان کے ساتھ ایسی صف بندی کی جائے ، تو وہ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگنے لگیں گے۔ اس سنت کو وہ گویا بدعت سمجھنے لگے ہیں (نعوذ باللہ!) اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور سنت کی مٹھاس عطا فرمائے ۔‘‘
🌿(أبكار المنن في نقد آثار السنن، ص 245)

شیخ رحمتہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ اکثر مساجد اس سنت کے نور سے خالی ہیں، ان میں صف بندی کا اہتمام نہیں۔ کوئی پاؤں سے پاؤں ملانے کی کوشش کرے تو لوگ دور بھاگتے ہیں۔ گویا یہ سنت نہ ہو، کوئی بدعت ہو۔

سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه کے بارے میں ہے:
إنه قدم المدينة، فقيل له : ما أنكرت منذ يوم عهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال : ما أنكرت شيئا إلا أنكم لا تقيمون الصف.

’’وہ مدینہ منورہ تشریف لائے ، تو ان سے سوال ہوا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک کون سی بات آپ کو اچھی نہیں لگی ؟ فرمایا: (اہل مدینہ کی) کوئی بات بری نہیں، سوائے اس کے کہ آپ صف بندی کا اہتمام نہیں کرتے ۔‘‘

🌿(صحيح البخاري : 724)

امام بخاری رحمتہ اللہ نے تبویب کی ہے :
باب إثم من لم يتم الصفوف.

’’جو لوگ صفیں سیدھی نہیں کرتے ، ان کے گناہ کا بیان۔‘‘
سیدنا انس رضی الله عنه جیسے فقیہ، زیرک اور حامی سنت ، صحابی نے صدیوں پہلے جس بات پر تنبیہ فرمائی، آج ائمہ مساجد کی غفلت سے دوبارہ وہ خطا عروج پر ہے۔ عربوں میں یہ کوتاہی پھر سے جنم لے چکی ہے، دیار رسول کے باسیوں پر صد افسوس کہ انہوں نے خسارے کا سودا کیا ہے، اللہ انہیں سنت کی محبت سے سرشار کرے اور شہر نبوی میں پھر سے ایمان کی بہار آ جائے۔

ہے ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

سید نا نعمان بن بشیر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه، فقال : أقيموا صفوفكم ثلاثا، لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم، قال : فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه .

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رُخ انور ہماری طرف پھیرا اور فرمایا : صفیں قائم کیجئے ! تین مرتبہ یہی بات دہرائی، پھر فرمایا : صفوں کو قائم کر لیں، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔ نعمان بن بشیر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ اس کے بعد ایک شخص دوسرے ساتھی کے کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا چپکا لیتا تھا۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : 276/4؛ سنن أبي داود : 662؛ وسنده صحيح)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۱۲۰) اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ (۲۱۷۶) نے صحیح کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔ (تغلیق التعليق : 302/2)
حافظ نووی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
رواه أبو داود وغيره بأسانيد حسنة .

’’اس حدیث کو امام داؤد اور دیگر ائمہ نے ’’حسن‘‘ سندوں سے روایت کیا ہے۔‘‘

🌿(خلاصة الأحكام : 116/1)

زکریا بن ابی زائدہ نے سنن دار قطنی (۲۸۲/۱) اور صحیح ابن خزیمہ وغیرہ میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔

مسلمان بھائیو اور بہنو! یہ تھی صحابہ کرام کی صف بندی ۔۔۔ جو رسول اللہ نے سب مسلمانوں پر لازم قرار دی ہے، آج ہمارے اندر پھوٹ اور اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم صف بندی کا اہتمام نہیں کرتے ، صحابہ کی طرح خوب مل کر کھڑے ہوں، قدم سے قدم، پنڈلی سے پنڈلی اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، نبی کریم کے حکم کی پیروی پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں گی ، ہا بھی محبت اور الفت پیدا ہوگی۔
ناصر السنۃ علامہ البانی رحمتہ اللہ (۱۴۲۰ھ) فرماتے ہیں:
’’ان احادیث میں بہت اہم فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ صفیں قائم کرنا، ان کو سیدھا کرنا اور انہیں اچھی طرح ملانا واجب ہے، اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے۔ حکم میں اصل وجوب ہی ہوتا ہے الا یہ کہ اسکے خلاف کوئی دلیل مل جائے ۔ یہ بات کتب اصول میں مسلم ہے۔ یہاں دلیل وجوب ہی کو مزید پختہ کرتی ہے۔ وہ دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دے گا۔ ظاہر ہے کہ اتنی شدید وعید کسی واجب کام کے بارے میں ہوسکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ صفیں برابر کرنے سے مراد یہی ہے کہ کندھے سے کندھا اور پورے پاؤں کے ساتھ پورا پاؤں اچھی طرح ملالیا جائے کیونکہ صحابہ کو جب صفیں قائم کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسی وجہ سے حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے فتح الباری میں فرمایا: اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ صف بندی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی۔ صفوں کو قائم اور سیدھا کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں اس حدیث سے مکمل دلیل ملتی ہے۔ افسوس کہ اس سنت کو اکثر مسلمانوں نے اہمیت نہیں دی بل کہ انہوں نے اسے ضائع کر دیا ہے۔ میں نے یہ سنت مسلمانوں کے صرف ایک گروہ اہل حدیث کے پاس دیکھی ہے۔ میں نے انہیں مکہ مکرمہ میں ۱۳۶۸ھ میں دیکھا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری سنتوں کی طرح اس سنت کے بھی شیدائی تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ مثلاً مذاہب اربعہ کے پیروکار ، میں ان میں سے حنابلہ کو بھی مستثنیٰ نہیں کرتا۔ ان لوگوں نے اس سنت کو بالکل بھلا دیا ہے۔ انہوں نے مسلسل اس سنت کو چھوڑا ہوا ہے اور اس سے اعراض کیسے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مذاہب کی اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ دو اشخاص کے پاؤں میں چار انگلیوں کے برابر فاصلہ رکھنا سخت ہے۔ اگر اس سے زیادہ فاصلہ ہوگا تو مکروہ ہوگا، اس کی تفصیل الفقه علی المذاهب الأربعة میں موجود ہے۔ اس فاصلے کی سنتِ رسول میں دلیل موجود نہیں۔ یہ محض اپنی رائے ہے۔ اگر اسے صحیح مانا جائے تو ضروری ہے کہ اسے امام اور منفرد کے لیے خاص کیا جائے (جماعت کی صورت میں مقتدیوں کے درمیان یہ فاصلہ نہ کیا جائے) تاکہ صحیح سنت کے خلاف نہ ہو۔ اصولی قواعد کا یہی تقاضا ہے۔ خلاصہ یہ کہ وہ مسلمان خصوصاً ائمہ مساجد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے شیدائی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنے کی فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس سنت پر خود بھی عمل کریں ، اس کے شیدائی بنیں اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیں حتی کہ سب لوگ اس پر عمل شروع کر دیں۔ اسی طرح مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید سے محفوظ رہ سکیں گے کہ ورنہ اللہ دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔‘‘
🌿(سلسلة الأحاديث الصحيحة : 72/1-73، تحت الحدیث : 32)

سید نا عبد اللہ بن عمر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أقيموا الصفوف وحادوا بين المناكب، وسدوا الخلل، ولينوا بأيدي إخوانكم، ولا تذروا فرجات للشيطان، ومن وصل صفا وصله الله، ومن قطع صفا قطعه الله .

’’صفیں درست کیجئے ، کندھوں کو برابر اور خالی جگہ کو پُر کیجئے ، اپنے بھائیوں کے حق میں نرم ہو جائیں اور شیطان کے لیے خالی جگہیں نہ چھوڑیں۔ جو صف ملائے گا، اللہ تعالٰی اسے ملا دے گا اور جو صف کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دے گا۔‘‘
🌿(مسند أحمد : 98/2؛ سنن أبي داود : 666؛ سنن النسائي : 820 ، مختصرا، وسنده صحيح)

اسے امام ابن خزیمہ رحمتہ اللہ (۱۵۴۹) نے صحیح کہا ہے اور امام حاکم رحمتہ اللہ (۲۱۳/۱) نے مسلم رحمتہ اللہ کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمتہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ سیوطی رحمتہ اللہ (911ھ ) نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینے کے بعد لکھا ہے :

معنى: «قطعه الله» أي من الخير والفضيلة والأجر الجزيل.

’’صف توڑنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ کاٹ دے گا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اسے بھلائی ، فضیلت اور اجر عظیم سے محروم کر دے گا۔‘‘

🌿(الحاوي للفتاوي : 72/1)

محدث دیار شام، علامہ ناصر الدین البانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:

الحق أن سد الفرجة واجب ما أمكن .

’’حق یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خالی جگہ کو پر کرنا فرض ہے۔‘‘
🌿(السلسلة الضعيفة: 323/2)

سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رصوا صفوفكم، وقاربوا بينها، وحاذوا بالأعناق، فوالذي نفسي بيده، إني لأرى الشياطين يدخل من خلل الصف كأنها الخذف .

‘‘صفوں کو ایسے ملایا کریں، جیسے عمارت کی اینٹیں ملی ہوتی ہیں، انہیں قریب کیا کریں اور اپنی گردنوں کو برابر رکھا کریں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! میں شیاطین کو صف کی خالی جگہوں سے داخل ہوتے دیکھتا ہوں، جیسے وہ بکری کے سیاہ بچے ہوں۔‘‘
🌿(سنن أبي داود : 667؛ السنن الكبرى للبيهقي : 100/3، وسنده صحيح)

امام ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ (۲۱۶۶) نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ سنن النسائی (۸۱۶) میں قتادہ بن دعامہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی صف بندی کے بارے میں کس قدر تاکید فرما رہے ہیں کہ صفوں کے درمیان خلا کو پُر کیا کرو ، تو اہل اسلام کو چاہئے کہ صف کے شگافوں کو کندھے سے لے کر پاؤں تک اچھی طرح بند کیا کریں، قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر صف میں کھڑے ہوا کریں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ قسم کھا کر فرما ر ہے ہیں کہ صف کے درمیان شگاف سے شیطان گھس آتا ہے، اس سے نماز کا خشوع و خضوع جاتا رہے گا، نمازیوں کے درمیان اتحاد واتفاق اور محبت بھی مفقود ہو جائے گی ، نفرتیں اور کدورتیں گھر کر جائیں گی۔
حافظ سیوطی رحمتہ اللہ (۹۱۱ھ ) لکھتے ہیں :
قال الشراح : المراد بأقيموا اعتدلوا، وتراضوا؛ تلاصفوا بلا خلل .

’’شارحین کہتے ہیں کہ صفیں قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور اچھی طرح ملانے سے یہ ہے کہ خلا چھوڑے بغیر مل کر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
🌿(الحاوي للفتاوي : 72/1)

فائدہ :

امام ابوداود رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
معنى : «ولينوا بأيدي إخوانكم»، إذا جاء رجل إلى الصف، فذهب يدخل فيه؛ فينبغي أن يلين له كل رجل منكبيه حتى يدخل في الصف.

’’فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ’’اپنے بھائیوں کے حق میں نرم ہو جاؤ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی صف کی طرف آئے اور اس میں داخل ہونے لگے ، تو ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے کندھوں کو نرم کر لے تاکہ وہ صف میں داخل ہو جائے۔‘‘
علامه ابن باز رحمتہ اللہ (۱۴۲۰ھ) فرماتے ہیں :
🌿(سنن ابی داود، تحت الحديث : 666)

المشروع لمن رأى ذلك أن ينصح إخوانه ويأمرهم بسد الفرج، وعلى الأيمة أن يأمروا الجماعة بذلك تأسيا بالنبي صلی اللہ علیہ وسلم ، وتنفيدا لأمره صلى الله عليه وسلم بذلك .

’’جو صف بندی میں خلل دیکھے، اسے چاہیے کہ اپنے بھائیوں کو نصیحت کرے اور انہیں خالی جگہ پُر کرنے کا حکم دے۔ ائمہ مساجد کا فرض ہے کہ وہ جماعت کو اس کا حکم دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا نفاذ کریں۔‘‘
🌿(مجموع فتاوی ابن باز: 203/12)

سیدہ عائشہ رضی الله عنه بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله وملائكته يصلون على الذين يصلون الصفوف.

’’جو صفوں کو ملاتے ہیں ، اللہ ان پر رحمت کرتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘

🌿(صحيح ابن خزيمة : 1550؛ وسنده حسن، المُستدرك على الصحيحين للحاكم : 214/1؛ وقال : صحيح على شرط مسلم ووافقه الذهبي وأقره المنذري : 174/1)

سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«استووا، استووا ، استووا ، فوالذي نفسي بيده، إني لأراكم من خلفي، كما أراكم من بين يدي».

’’سیدھے ہو جائیے، سیدھے ہو جائے، سیدھے ہو جائیے۔ اس ذات کی قسم ، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں (نماز میں) آپ کو اپنے پیچھے سے اسی طرح دیکھتا ہوں، جیسے اپنے آگے سے دیکھتا ہوں۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : 268/3، سنن النسائي : 813 ، وسنده صحيح)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے