نماز کے دوران صفوں کو سیدھا رکھنا، صفوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنا، کندھوں کو برابر کرنا، اور ٹخنے سے ٹخنا اور پاؤں سے پاؤں ملانا واجب ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین ہمیشہ ان اصولوں پر عمل کرتے رہے ہیں۔ احادیث میں صف بندی سے متعلق احکام کو بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ احادیث درج ذیل ہیں:
① سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اس طرح کیوں صفیں نہیں بناتے جیسے فرشتے اپنے رب کے حضور صفیں بناتے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فرشتے اپنے رب کے سامنے کیسے صفیں بناتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔‘‘
(صحیح مسلم: 1/180، حدیث: 430)
② سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران ہمارے کندھوں کو درست کرتے اور فرماتے: ’’سیدھے ہو جاؤ اور ٹیڑھے نہ ہو، ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔‘‘ ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آج تم صفوں کی درستگی میں سستی کی وجہ سے سخت اختلاف کا شکار ہو۔
(صحیح مسلم: 1/181، حدیث: 432)
③ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف کے درمیان چلتے اور ہمارے سینوں اور کندھوں کو درست کرتے ہوئے فرماتے: ’’ٹیڑھے نہ ہو جاؤ، ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔‘‘
(مسند امام احمد: 4/285؛ سنن ابوداؤد: 664؛ سنن نسائی: 812؛ سنن ابن ماجہ: 997، سند صحیح)
④ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس طرح درست کرتے جیسے تیروں کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ ہم سمجھ گئے ہیں، تو ایک دن نماز کے لیے آئے اور تکبیر کہنے ہی والے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے بندو! تم اپنی صفوں کو درست کر لو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
(صحیح مسلم: 1/182، حدیث: 436)
⑤ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھا کر لو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت ڈال دے گا۔‘‘
(صحیح بخاری: 717؛ صحیح مسلم: 436)
⑥ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم (باجماعت) نماز پڑھو تو اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو۔‘‘
(صحیح مسلم: 1/174، حدیث: 404)
⑦ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صفوں کو اچھی طرح سے ملاؤ، تاکہ تمہارے درمیان سے چھوٹے جانور نہ گزر سکیں۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ چھوٹے جانور کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ چھوٹے سیاہ بکری کے بچے ہیں جو یمن میں پائے جاتے ہیں۔‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/351؛ مسند السراج: 758؛ المستدرک علی الصحیحین: 3/217، سند صحیح)
⑧ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت:
’’جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو درست کرتے۔ جب ہم سیدھے ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تکبیر کہتے۔‘‘
(سنن ابوداؤد: 665؛ صحیح ابی عوانہ: 138، سند حسن)
⑨ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز میں صف کو درست کرو، کیونکہ صف کو درست کرنا نماز کی خوبصورتی ہے۔‘‘
(صحیح بخاری: 722؛ صحیح مسلم: 435)
⑩ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم صفوں کو درست کیا کرو کیونکہ صفوں کی درستگی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔‘‘
(صحیح بخاری: 1/100، حدیث: 723؛ صحیح مسلم: 1/181، حدیث: 433)
صفوں کو برابر اور سیدھا کرنا نماز کی درستی کا لازمی حصہ ہے، اور صفوں کا ٹیڑھا ہونا نماز میں نقص کا سبب بنتا ہے۔
⑪ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز میں صفوں کو اچھی طرح درست کیا کرو۔‘‘
(مسند امام احمد: 2/485، سند صحیح)
امام ابن حبان نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
⑫ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز کی اقامت ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رخِ انور ہماری طرف کرتے ہوئے فرمایا: "تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔”
(صحیح بخاری: 1/100، حدیث: 719)
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: "تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔” پھر ہم میں سے ہر شخص اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا لیتا تھا۔
(صحیح بخاری: 1/100، حدیث: 725)
انگلیوں سے صرف انگلی ملانے والوں کا عمل:
جو لوگ صرف انگلیوں کو ملاتے ہیں، ان کا یہ عمل حدیث کے مطابق ہے یا مخالف؟ اس بارے میں علامہ عبیداللہ بن عبدالسلام مبارک پوری رحمہ اللہ (م: 1414ھ) فرماتے ہیں: ’’یہ احادیث واضح طور پر بتاتی ہیں کہ صفوں کی درستی سے مراد نمازیوں کا سیدھی لائن میں کھڑا ہونا ہے، کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر صف کی خالی جگہوں کو پر کرنا ہے۔ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اس عمل پر عمل پیرا تھے، لیکن بعد کے لوگوں نے اس میں سستی کرنا شروع کر دی۔‘‘
(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: 5/4)
دیوبندی عالم کشمیری صاحب کا موقف:
جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کا کہنا ہے:
فقہاے اربعہ کے مطابق کندھے سے کندھا ملانے کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازیوں کے درمیان اتنی جگہ نہ ہو کہ کوئی تیسرا درمیان میں آ سکے۔
سلف صالحین میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو جماعت میں اپنے پاؤں کے فاصلے کو انفرادی نماز کے مقابلے میں زیادہ رکھتا ہو۔
اہل حدیث کے پاس صرف لفظ ’’الزاق‘‘ ہے، جسے وہ کندھے اور پاؤں ملانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کندھے سے کندھا حقیقی طور پر ملانا مشقت والا کام ہے، اور یہ صرف غیر مقلدین کی ایجاد ہے۔
کشمیری صاحب کے موقف کی تردید:
علامہ عبیداللہ بن عبدالسلام مبارک پوری رحمہ اللہ کشمیری صاحب کے موقف کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’الزاق کو مجازی معنیٰ پر محمول کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ صحابہ کرام کے دور میں صفوں کو سیدھا کرنا اور خالی جگہ کو پر کرنا عام تھا۔ صحیح احادیث میں کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑا ہونے کا ذکر حقیقی طور پر کیا گیا ہے۔‘‘
(مرعاۃ المفاتیح: 6/4)
⑬سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت:
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سیدھے رہو اور قریب قریب ہو جاؤ۔”
(مسند امام احمد: 5/282؛ مسند الدارمی: 662، سند حسن) امام ابن حبان رحمہ اللہ (1037) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
⑭سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "صفوں کو سیدھا کرو اور مل جاؤ۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم میں سے ہر شخص اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا لیتا تھا۔ اگر آج ایسا کرو تو لوگ سرکش خچروں کی طرح بدک جائیں گے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/350؛ السنن لسعید بن منصور، سند صحیح)
صف بندی کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ صف بندی کا یہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا اور صفوں کو درست کرنے کا مطلب یہی تھا کہ نمازی کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہوں۔‘‘
(فتح الباری: 2/211)
صف بندی پر زور:
صاحب التعلیق المغنی فرماتے ہیں: ’’ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ صفوں کی درستگی نماز کا ایک لازمی حصہ ہے۔ صف میں آگے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ ہر نمازی کو اپنے ساتھی کے ساتھ کندھے اور پاؤں کو حقیقی طور پر ملانا چاہیے۔ مگر آج یہ سنت چھوڑ دی گئی ہے۔ اگر آپ آج اس پر عمل کریں تو لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بدک جائیں گے۔‘‘
(عون المعبود: 2/256)
انس رضی اللہ عنہ کا مشاہدہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’وہ مدینہ آئے تو ان سے پوچھا گیا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد سے آج تک کس بات میں تبدیلی دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا: صرف صف بندی کے اہتمام میں کمی دیکھی ہے۔‘‘
(صحیح بخاری: 1/100، حدیث: 724)
امام بخاری رحمہ اللہ (194-256ھ) نے اس حدیث پر باب باندھا: ’’باب: جو لوگ صفیں مکمل نہیں کرتے، ان کے گناہ کا بیان۔‘‘
تبصرہ:
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م: 1353ھ) نے انس رضی اللہ عنہ کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’آج کے زمانے میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اگر ان کے ساتھ صحیح طریقے سے صف بندی کی جائے تو وہ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگ جائیں گے۔ وہ اس سنت کو بدعت سمجھتے ہیں، اللہ انہیں سنت کی مٹھاس نصیب کرے۔‘‘
(إبکار المنن في تنقید آثار السنن للمبارکفوري، ص: 245)
صف بندی کی سنت کی حالت:
اہل بدعت اور اہل تعصب کی مساجد میں صف بندی کی سنت کا اہتمام نہیں ہوتا۔ لوگ صفوں میں ایک دوسرے سے دور، فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کوشش کرے کہ پاؤں سے پاؤں ملائے تو دوسرے لوگ دور ہٹ جاتے ہیں۔ یہ لوگ سنت کی مخالفت کر کے اُمت کی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور سنتوں کو ترک کرتے جا رہے ہیں۔
دعا:
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور انہیں صحیح ثابت شدہ احادیث پر عمل کرنے اور تاویل و تحریف سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
⑮سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف اپنا چہرہ مبارک کیا اور فرمایا: اپنی صفوں کو سیدھا کرو۔ یہ بات آپ نے تین بار دہرائی، پھر فرمایا: تم ضرور اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دے گا۔‘‘ نعمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے دیکھا کہ (اس فرمان کے بعد) ایک شخص دوسرے کے کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔‘‘
(مسند امام احمد: 4/276؛ سنن ابوداؤد: 662؛ صحیح بخاری: 1/100 مختصراً، سند صحیح)
حدیث کی درستی:
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (160) اور امام ابن حبان (2176) نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے ، جبکہ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث کو امام ابوداؤد اور دیگر ائمہ نے حسن سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔‘‘
(خلاصۃ الاحکام للنووی: 1/116)
صحابہ کرام کی صف بندی:
صحابہ کرام کی صف بندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تھی، جس میں مکمل جڑ کر کھڑا ہونا شامل تھا۔ یہ صف بندی آج کے دور میں اکثر لوگوں میں نظر نہیں آتی۔ آج لوگ صفوں میں اتنے فاصلے سے کھڑے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ چھو جائیں تو شاید ناپاک ہو جائیں گے۔ یہ فاصلہ اور صف بندی میں کمی اختلاف اور پھوٹ کی وجہ بنتی ہے۔ اگر ہم صحابہ کرام کی طرح قدم سے قدم، پنڈلی سے پنڈلی اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، تو اس سنت پر عمل کرنے سے بے شمار برکتیں اور محبت پیدا ہوں گی۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف:
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420ھ) حدیث انس اور حدیث نعمان بن بشیر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ان احادیث سے اہم فوائد حاصل ہوتے ہیں:
صفوں کو درست اور سیدھا کرنا واجب ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں حکم موجود ہے۔ حکم میں اصل وجوب ہی ہوتا ہے، جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل نہ ملے۔ یہاں پر موجود قرینہ وجوب کو مزید پختہ کرتا ہے، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’ورنہ اللہ تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا۔‘ ایسا انتباہ صرف واجب امور کے لیے ہوتا ہے۔
صفوں کو درست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملایا جائے، جیسا کہ صحابہ کرام نے حکم کے مطابق کیا تھا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للألبانی: 1/40-41، تحت الحدیث: 23)
صف بندی کے فوائد:
علامہ البانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’یہ بات افسوس کی ہے کہ صفوں کی درستی والی سنت کو اکثر مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے، بلکہ یہ سنت بھلا دی گئی ہے۔ میں نے یہ سنت صرف اہل حدیث کے ہاں دیکھی، جب میں 1368ھ میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر سختی سے عمل پیرا تھے۔ دوسری طرف، مذاہب اربعہ کے پیروکار، حتی کہ حنبلی بھی، اس سنت کو بھول چکے ہیں۔ ان کے ہاں اس سنت کو ترک کرنا معمول بن گیا ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صف بندی کی تاکید:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی صفوں کو درست کرو، کندھوں کو برابر کرو، خالی جگہیں پُر کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو اور شیطان کے لیے خالی جگہیں نہ چھوڑو۔ جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کے ساتھ ملائے گا، اور جو شخص صف کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے کاٹ دے گا۔‘‘
(مسند امام احمد: 2/98؛ سنن ابوداؤد: 666؛ سنن نسائی: 820، سند صحیح)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1549) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، اور امام حاکم رحمہ اللہ نے امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ کی تشریح:
حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث کا مطلب ہے کہ صفوں کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، اور صفوں کو ملانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خالی جگہ نہ چھوڑو۔‘‘
(الحاوی للفتاوی للسیوطی: 1/52)
اہم ہدایات:
امام ابو داؤد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو،‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص صف میں شامل ہونا چاہے تو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے کندھوں کو نرم کرے تاکہ وہ صف میں داخل ہو سکے۔
(سنن ابوداؤد، تحت الحدیث: 666)
⑯سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفوں کو درست کرو اور خالی جگہیں پُر کرو۔‘‘
(صحیح ابن حبان: 402، سند صحیح)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1548) نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے، اور امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ’’امام بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دیا ہے ۔
سعودی عالم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا موقف:
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ (1330-1420ھ) فرماتے ہیں: ’’جو شخص صف بندی میں سستی دیکھے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو نصیحت کرے اور انہیں خالی جگہوں کو پُر کرنے کا حکم دے۔ ائمہ مساجد کا فرض ہے کہ وہ اس بارے میں لوگوں کو تاکید کریں تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ رکھا جا سکے۔‘‘
(مجموع فتاوی ابن باز: 12/203)
صف بندی کی برکتیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ صفوں کو ملاتے ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘
(صحیح ابن خزیمہ: 1550، سند حسن)
اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو ملانے والوں کے لیے دعا کی: ’’جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت کے ساتھ) ملائے گا۔‘‘
(مسند امام احمد: 2/98؛ سنن ابوداؤد: 666؛ سنن نسائی: 820، سند صحیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کا صف بندی کا اہتمام:
⑰سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
صفوں کو درست کرنے کی تاکید: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "صفوں کو درست کیا کرو، کیونکہ شیطان ان میں بکری یا بکری کے بچوں کی طرح داخل ہو جاتا ہے۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی: 9/275، ح: 9376، سند صحیح)
نماز کی صفوں کا مکمل ہونا: "مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک نماز کھڑی نہیں کی جاتی تھی جب تک ہمارے ساتھ صفیں مکمل نہ ہو جاتیں۔”
(مسند امام احمد: 1/419، سند صحیح)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس روایت کے راوی صحیح بخاری والے راوی ہیں۔” (مجمع الزوائد: 2/90)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ (الحاوی للفتاوی: 1/53)
صفوں کو سیدھا کرنے کا حکم: "اپنی صفوں کو سیدھا کیا کرو۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/351، سند صحیح)
⑱سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ:
صفوں کی درستی کا اہتمام: ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: "میں ان لوگوں میں سے تھا جنہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ صفیں سیدھی کرانے کے لیے اپنے آگے کھڑا کرتے تھے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/351، سند صحیح)
نماز سے پہلے صفوں کی درستی: "آپ رضی اللہ عنہ اس وقت تک لوگوں کو نماز نہیں پڑھاتے تھے جب تک ان کی صفیں درست نہ ہو جاتیں۔ اس کام کے لیے آپ نے کئی لوگوں کو مقرر کر رکھا تھا۔”
(جزء ابی الجہم: 21، سند صحیح)
صفوں میں خلا کو ختم کرنے کی تاکید: عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں: "جب آپ صفوں کے درمیان سے گزرتے، تو فرماتے: سیدھے ہو جاؤ۔ جب صفوں میں کوئی خلا نہ دیکھتے تو آگے بڑھتے اور تکبیر کہتے۔”
(صحیح بخاری: 3700)
⑲سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ:
"سیدھے ہو جاؤ، کندھوں کو برابر کر لو کیونکہ صف کو سیدھا کرنے سے نماز مکمل ہو گی۔”
(الموطأ امام مالک: 1/104؛ مصنف ابن ابی شیبہ: 1/351، سند صحیح)
مالک بن ابی عامر بیان کرتے ہیں کہ "آپ اس وقت تک تکبیر تحریمہ نہ کہتے جب تک وہ لوگ آپ کے پاس نہ آ جاتے جنہیں صفوں کو درست کرنے کے لیے مقرر کیا ہوا تھا۔”
⑳سیدنا بلال رضی اللہ عنہ:
صفوں کی درستی کے لیے عملی اقدام: تابعی سوید بن غفلہ بیان کرتے ہیں: "بلال رضی اللہ عنہ ہمارے کندھوں کو برابر کرتے اور صف کو درست کرنے کے لیے ہمارے پاؤں پر مارتے تھے۔”
(المطالب العالیہ لابن حجر: 428، سند صحیح)
صف بندی کی اہمیت اور اس کے فوائد:
صفوں کو مکمل کرنا، سیدھا کرنا، صفوں میں خالی جگہوں کو پُر کرنا اور باہم مل کر کھڑا ہونا نماز کے آداب میں شامل ہے۔ صحیح احادیث میں صف بندی کی شدید تاکید کی گئی ہے، لیکن آج کے دور میں مسلمان اس سنت کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ صف میں خالی جگہ چھوڑنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، جس پر شدید وعید آئی ہے، کیونکہ اس سے جماعت کی فضیلت ضائع ہو جاتی ہے۔
صف کے پیچھے اکیلا کھڑا ہونا: اگر صف میں لوگ ایک دوسرے سے مل کر کھڑے نہ ہوں اور صف میں خلا ہو، تو وہ ان افراد کے حکم میں آتے ہیں جو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
فائدہ:
مشہور مفسر امام اسماعیل بن عبدالرحمن السدی رحمہ اللہ، فرمان باری تعالیٰ: {وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ} (الصافات: 165) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "یعنی ہم نماز کے لیے صفیں بنانے والے ہیں۔”
(تفسیر الطبری: 23/135، سند حسن)
یہ روایات اور احادیث بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صف بندی کو کس قدر اہمیت دی۔ نماز میں صفوں کو درست اور مل کر کھڑا ہونا ایک اہم سنت ہے، جس پر عمل کرنے سے باہمی محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے، جبکہ اسے ترک کرنے سے اختلاف اور پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو اس سنت کی اہمیت کا ادراک کرنا چاہیے اور اپنی صفوں کو درست کرکے سنت رسول پر عمل کرنا چاہیے۔
خلاصہ:
نماز کے دوران صف بندی کو درست کرنا اور صفوں کو برابر کرنا ایک اہم سنت ہے، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بہت تاکید کی ہے۔ صفوں کو سیدھا کرنا، ان میں خلا کو پُر کرنا، کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑا ہونا واجب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں واضح طور پر حکم دیا کہ صفوں کو درست کیا جائے، اور خبردار کیا کہ اگر صفیں درست نہ کی گئیں تو اللہ تعالیٰ دلوں میں اختلاف ڈال دے گا۔ صحابہ کرام اس سنت پر سختی سے عمل پیرا تھے، یہاں تک کہ نماز کا آغاز اس وقت تک نہیں ہوتا تھا جب تک صفیں مکمل اور سیدھی نہ ہو جاتیں۔
صحابہ کرام اور خلفائے راشدین، جیسے سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہم، صف بندی کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ وہ نماز سے پہلے صفوں کا جائزہ لیتے، لوگوں کو صفوں میں برابر کراتے، اور صفوں میں خلا کو ختم کرنے کے لیے ذمہ دار افراد مقرر کرتے۔ یہ اہتمام اس بات کا غماز ہے کہ صحابہ کرام صفوں کی درستی کو نماز کی تکمیل اور جماعت کی یکجہتی کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔
آج مسلمانوں میں صف بندی کی اس سنت پر عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ نماز میں ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوتے ہیں، جس سے شیطان کو صفوں میں داخل ہونے اور اختلاف پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سنت کے اس ترک کی وجہ سے نماز کی وہ فضیلت اور برکات حاصل نہیں ہوتیں جو صفوں کو درست کرنے سے ملتی ہیں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے اس سنت کی اہمیت پر زور دیا اور بتایا کہ صفوں کی درستی کا حکم ایک واجب عمل ہے، جسے چھوڑنے پر سخت وعید آئی ہے۔ انہوں نے امت کو تلقین کی کہ وہ اس سنت کو زندہ کریں اور اس پر عمل کریں تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید سے بچا جا سکے اور نماز کی برکات حاصل ہوں۔
نتیجہ:
صف بندی کی سنت پر عمل پیرا ہونا ایک اہم فریضہ ہے، جو نماز کی روحانیت اور اجتماعیت کو مضبوط کرتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ نماز میں صفوں کو درست کریں، صفوں کے خلا کو پُر کریں، اور کندھے سے کندھا، پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہوں۔ اس عمل سے دلوں میں محبت اور اتحاد پیدا ہوتا ہے، جبکہ سنت کی مخالفت سے دلوں میں بغض اور دوری پیدا ہوتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں صف بندی کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ نماز کا حقیقی حسن اور جماعت کی فضیلت حاصل ہو۔