نماز میں تورات یا انجیل کی قرآت کرنا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

نماز میں تورات یا انجیل کی قرآت کرنا کیسا ہے؟

جواب :

جائز نہیں، نماز میں صرف قرآن کریم کی تلاوت جائز ہے، نیز تورات و انجیل اپنی اصلی حالت پر نہیں ہیں ، ان میں تحریف ہو چکی ہے۔
❀ علامہ سرخسی رحمہ اللہ (483 ھ ) کہتے ہیں :
إذا قرأ الرجل فى الصلاة شيئا من التوراة والإنجيل والزبور هو يحسن القرآن أو لا يحسنه لم تجزته؛ لأنه كلام ليس وهو بقرآن، ولا تسبيح، ومعنى هذا أن قد ثبت لنا أنهم قد حرفوا وبدلوا فلعل ما قرأ مما حرفوا، وهذا كلام الناس، ولإن النقل المتواتر الذى لا يثبت كلام الله إلا به غير موجود فيما هو فى أيديهم الآن .
” جب کوئی شخص نماز میں تورات، انجیل یا زبور میں سے کچھ پڑھے، خواہ وہ قرآن اچھی طرح پڑھ سکتا ہو، یا نہ پڑھ سکتا ہو، ہر دوصورت میں جائز نہیں، کیونکہ یہ ایسا کلام ہے، جو نہ قرآن ہے، نہ تسبیح۔ مطلب یہ کہ ہمارے پاس ثبوت ہے کہ یہود ونصاری نے ان میں تحریف و تبدیل کر دی ، ہو سکتا ہے کہ اس نے محرف شدہ حصہ پڑھا ہو اور وہ لوگوں کا کلام ہے، کیونکہ نقل تو اتر کہ جس سے اللہ کا کلام ثابت ہوتا ہے، وہ ان کتابوں میں موجود نہیں ، جواب ان کے ہاتھوں میں ہیں۔“
(المبسوط : 234/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے