نماز قائم کرنے سے متعلق اللہ کا براہ راست حکم
یہ تحریرالفت حسین کی کتاب صلاۃ المسلم سے ماخوذ ہے

نماز قائم کرنے سے متعلق اللہ کے احکام

فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا

(النساء: 103)

تو پھر صلوۃ قائم کر وہ صلوٰۃ فرض ہے مومنین پر مقررہ اوقات میں ۔

صلاۃ مومنین پر مقرراوقات میں فرض ہے۔ اوقات کی تعیین اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کر کے بتادیا ہے اور بہتر ابتدائی وقت ہے اور صلوۃ صرف اہل ایمان پر ہی فرض ہے، اہل شرک کو اس سے کوئی فائدہ نہیں۔

وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ

(القلم:43)

اور تحقیق وہ سجدے کی طرف بلائے جاتے تھے جب وہ صحیح سالم تھے۔

فاسق وفاجر دنیا میں صلوۃ کی پابندی کے ساتھ ادا نہ کرنے والے قیامت کے دن سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر وہ سجدہ نہ کر سکیں گے اور ان کی کمریں اکٹر جائیں گی کیونکہ دنیا میں ان کو سجدہ یعنی صلوۃ کی طرف بلایا جاتا تھا مگر وہ سجدہ نہ کرتے تھے اس دن ان کا یہ حال اور انجام انتہائی دردناک ہوگا کیونکہ اس دن اللہ تعالی ان پر سخت ناراض ہوں گے اور کلمہ عذاب ان پر حق ثابت ہوگا اور ان کے تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے۔

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ‎﴿٤٢﴾‏ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ‎﴿٤٣﴾‏

( المدثر : 42-43)

کس چیز نے تمہیں جہنم میں داخل کیا تو وہ کہیں گے ہم صلوۃ ادا کرنے والے نہ تھے۔ یعنی کس چیز نے تمہیں جہنم میں ڈالا یہ سوال ان کے اہل جنت ساتھی کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہم نہ تو صلوۃ کی پابندی کرتے تھے اور نہ مساکین کو کھانا کھلاتے تھے یعنی نہ ہم اللہ تعالی کے ساتھ اخلاص رکھتے تھے اور نہ ہی ضرورت مند مخلوق کے لیے فائدہ مند تھے اور دنیا میں فضولیات کھیل تماشہ اور دنیا کمانے میں ہی مصروف رہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ‎﴿٤٩﴾

(المرسلات: 48-49)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے رکوع کرو تو وہ رکوع نہیں کرتے تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ان کا جرم یہ ہے کہ جب ان کو رکوع وسجدہ یعنی صلوٰۃ کے لیے بلایا جاتا تھا تو وہ حکم کی تعمیل نہ کرتے تھے اس دن ہلاکت اور ویل نامی جہنم ہے جھٹلانے والوں یعنی صلوٰۃ کا انکار کرنے والوں کے لیے۔

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ‎﴿٥﴾

(الماعون : 4-5)

ان اہل صلوٰۃ کے لیے ہلاکت ہے جو اپنی صلوٰۃ سے غافل ہیں۔

یہ لوگ صلوٰۃ تو ادا کرتے ہیں مگر اس کے مقررہ اوقات کی پرواہ نہیں کرتے جب فرصت ملتی ہے تو قرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ صلوٰۃ کو اول وقت میں ادا کرنا چاہیے اور اذان کے بعد اپنی دیگر مصروفیات کو روک دینا چا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو ارکان صلاۃ کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے ، قیام ، رکوع و سجود میں بہت جلدی کرتے ہیں اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو صلوٰۃ کا اہتمام خشوع و خضوع کا بالکل خیال نہیں رکھتے اور خاص طورسے وہ لوگ جو اس کے معانی سے بے بہرہ ہیں آپ اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اس لیے صلوٰۃ کو اپنی اپنی زبان میں حرف بہ حرف سیکھنا ہم پر فرض ہے۔

وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا

(طہ:132)

اور اپنے گھر والوں کو صلوٰۃ کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیے۔

ان آیات میں اللہ رب العزت نے گھر والوں کو صلوٰۃ ، فرائض و نوافل کی ترغیب دینے کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو صلوٰۃ کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو انہیں مارو (اگر صلوٰۃ نہ پڑھیں تو) اور ان کے بستر الگ کر دو۔

(سنن ابو داؤد : 495)

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

(روم:31)

اور صلوٰۃ قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔

ترک صلوۃ اور دین میں فرقہ بندی یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

(مریم:59)

پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے صلوٰۃ ضائع کر دی اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑگئے سوان کا نقصان ان کے آگے آئے گا۔ مفسرین نے غنی کی تفسیر میں اس کو جہنم کی ایک وادی کا نام دیا ہے، دوسری تغییر خسارہ و ہلاکت ہے، دونوں صورتوں میں انجام جہنم ہی ہے۔

تارکین صلوٰۃ کے بارے میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپﷺ نے فرمایا:

بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاةِ ( مسلم )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

آدمی و کفر کے درمیان ملانے والی چیز ترک صلوۃ ہے۔

العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد گفر.

(سنن ترمذی)

ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ صلوٰۃ ہے جس نے اسے ترک کر دیا تو بلاشبہ اس نے کفر کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

جو شخص صلوٰۃ الجمعہ تین مرتبہ بغیر عذر اور بیماری کے چھوڑ دے گا اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیں گے۔

(ابوداؤد، ترمذی ، نسائی)

ابو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک ماہ تک روز پوچھتا رہا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے مگر جماعت اور جمعہ میں حاضر نہیں ہوتا، ابن عباس یہی فرماتے تھے وہ جہنم میں جائے گا۔

(زرقانی موطا امام مالک)

إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته فإن صلحت فقد أفلح وأنجح وإن فسدت فقد خاب وخسر .

(ترمذی)

آپ ﷺ نے فرمایا:

بیشک سب سے پہلے جس کا حساب لیا جائے گا بندے سے قیامت کے دن اس کے عمل میں سے وہ اس کی صلوۃ ہے پس اگر وہ درست ہوئی تو یقینا وہ کامیاب و کامران ہو گیا اور اگر وہ درست نہ ہوئی تو یقینا وہ خائب و خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول صلوٰۃ کے سوا کسی عمل کے چھوڑ دینے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں :

میں نے ابو مصعب مدنی کو کہتے ہوئے سنا کہ جو یہ کہے کہ ایمان صرف قول و زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے اس سے تو یہ کرائی جائے گی اگر اس نے تو بہ کر لی تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن مار دی جائے گی۔

(صحیح ترمذی)

ابودرداء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص صلوٰۃ چھوڑ دے تو یقینا اس کا ذمہ ختم ہو گیا۔

(ابن ماجہ)

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے صلوٰۃ العصر چھوڑ دی اس کے اعمال باطل ہو گئے ۔

(صحیح بخاری)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس شخص کی صلوۃ العصر فوت ہو جائے تو گویا اس کا اہل و مال لٹ گیا۔

(صحیح بخاری)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے