وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ لَا يُصَلِّى الظُّهْرَ إِذَا دَخَضَتِ الشَّمْسُ
جابر بن سمرہ اللہ سے روایت ہے” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا ۔“
تحقیق و تخریج :
مسلم : 618 ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النبى صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا كَانَ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةَ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيُحِ جَهَنَّمَ وَذَكَرَ أَنَّ النَّارَ اشْتَكَتُ إِلَى رَبِّهَا فَأَذِنَ لَهَا فِي كُلِّ عَامٍ بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشَّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ
حضرت ابوہریرہ ہی ان سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جب گرمی کا موسم ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر لیا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت، جہنم کی لو ہے اور یہ تذکرہ کیا کہ جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی، تو اس نے اسے سال میں دو سانس لینے کی اجازت دے دی، ایک سانس موسم سر ما میں اور ایک سانس موسم گر ما میں ۔“
تحقيق و تخریج :
البخاری : 326، 537، 536 مسلم : 617 –
فوائد :
➊ نماز ظہر سورج ڈھل جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے جب ہر شئ کا سایہ ایک مثل ہو جاتا ہے یہی بات راجح ہے دو مثل سایہ جو ظہر کے لیے بیان کیا جاتا ہے کسی بھی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
➋ موسم گر ما میں نماز ظہر کو بقدرے ٹھنڈا کر کے پڑھنا پسندیدہ عمل ہے ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا اور دیر سے پڑھنا یہ نمازیوں کے لیے استحبابی حکم ہے دیر سے مراد ذرا سی تاخیر ہے نہ کہ نماز ظہر کے دوسرے وقت کا آخر حصہ مراد ہے ۔
➌ سردی اور گر می یہ جہنم کے دو سانس ہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہم پر موسم گر ما میں جو لو چلتی ہے یا موسم سر ما میں جو شدت کی سردی پڑتی ہے اس سے کئی درجے بڑھ کر دوزخ اپنے اندر سختیاں رکھتی ہے ۔ دوزخ اور جنت اللہ کی مخلوق ہیں جو موجود ہیں ۔
➍ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جامد اور بے جان اشیاء بھی اپنے اپنے انداز میں بتوفیق الہی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتی ہیں اور اپنا ماجرا اور حال اللہ کو سنا لیتی ہیں ۔
➎ گرم اشیائے خورد و نوش و دیگر اشیاء کو ٹھنڈا کر کے استعمال کرنا چاہیے بے جا شکایات بارگاہ الہی میں نہیں کرتے رہنا چاہیے ۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ زیادہ شکووں کی بجائے صبر کرنا چاہیے لاچاری کی حالت میں آدمی سے نہ رہا جا سکے تو اللہ تعالیٰ سے شکوہ و شکایت کر سکتا ہے پرشکوہ انداز محبت کواللہ تعالیٰ کبھی نظر انداز نہیں کرتے ۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس کام میں اجازت خداوندی پائی جائے اس کام کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے اور جس امر میں اجازت الہی موجود نہ ہو تو اس میں بے جا اجازت اور لچک کے راستے نہیں نکالنے چاہئیں ۔
جابر بن سمرہ اللہ سے روایت ہے” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا ۔“
تحقیق و تخریج :
مسلم : 618 ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النبى صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا كَانَ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةَ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيُحِ جَهَنَّمَ وَذَكَرَ أَنَّ النَّارَ اشْتَكَتُ إِلَى رَبِّهَا فَأَذِنَ لَهَا فِي كُلِّ عَامٍ بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشَّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ
حضرت ابوہریرہ ہی ان سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جب گرمی کا موسم ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر لیا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت، جہنم کی لو ہے اور یہ تذکرہ کیا کہ جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی، تو اس نے اسے سال میں دو سانس لینے کی اجازت دے دی، ایک سانس موسم سر ما میں اور ایک سانس موسم گر ما میں ۔“
تحقيق و تخریج :
البخاری : 326، 537، 536 مسلم : 617 –
فوائد :
➊ نماز ظہر سورج ڈھل جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے جب ہر شئ کا سایہ ایک مثل ہو جاتا ہے یہی بات راجح ہے دو مثل سایہ جو ظہر کے لیے بیان کیا جاتا ہے کسی بھی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
➋ موسم گر ما میں نماز ظہر کو بقدرے ٹھنڈا کر کے پڑھنا پسندیدہ عمل ہے ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا اور دیر سے پڑھنا یہ نمازیوں کے لیے استحبابی حکم ہے دیر سے مراد ذرا سی تاخیر ہے نہ کہ نماز ظہر کے دوسرے وقت کا آخر حصہ مراد ہے ۔
➌ سردی اور گر می یہ جہنم کے دو سانس ہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہم پر موسم گر ما میں جو لو چلتی ہے یا موسم سر ما میں جو شدت کی سردی پڑتی ہے اس سے کئی درجے بڑھ کر دوزخ اپنے اندر سختیاں رکھتی ہے ۔ دوزخ اور جنت اللہ کی مخلوق ہیں جو موجود ہیں ۔
➍ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جامد اور بے جان اشیاء بھی اپنے اپنے انداز میں بتوفیق الہی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتی ہیں اور اپنا ماجرا اور حال اللہ کو سنا لیتی ہیں ۔
➎ گرم اشیائے خورد و نوش و دیگر اشیاء کو ٹھنڈا کر کے استعمال کرنا چاہیے بے جا شکایات بارگاہ الہی میں نہیں کرتے رہنا چاہیے ۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ زیادہ شکووں کی بجائے صبر کرنا چاہیے لاچاری کی حالت میں آدمی سے نہ رہا جا سکے تو اللہ تعالیٰ سے شکوہ و شکایت کر سکتا ہے پرشکوہ انداز محبت کواللہ تعالیٰ کبھی نظر انداز نہیں کرتے ۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس کام میں اجازت خداوندی پائی جائے اس کام کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے اور جس امر میں اجازت الہی موجود نہ ہو تو اس میں بے جا اجازت اور لچک کے راستے نہیں نکالنے چاہئیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]