آخری تکبیر کے بعد دونوں جانب سلام پھیرا جائے
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین کام کیا کرتے تھے کہ جنہیں لوگوں نے چھوڑ دیا ہے:
إحدا هن التسليم على الجنازة مثل التسليم فى الصلاة
”ان میں سے ایک نماز جنازہ میں اس طرح سلام پھیرنا ہے جیسے نماز میں سلام پھیرا جاتا ہے ۔“
[حسن: بيهقي: 43/4 ، امام نوويؒ نے اس كي سند كو جيد كها هے۔ المجموع: 239/5 ، امام ہيثميؒ رقمطراز هيں كه اس روايت كو طبراني كبير ميں روايت كيا گيا هے اور اس كے رجال ثقه هيں۔ مجمع الزوائد: 34/3]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ میں بھی عام نمازوں کی طرح دائیں اور بائیں دونوں جانب سلام پھیرنا چاہیے۔ تا ہم اگر صرف ایک جانب ہی سلام پھیر دیا جائے تو یہ بھی کفایت کر جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں :
وسلم تسليمة واحدة
”اور ایک مرتبہ ہی سلام پھیرا۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص/ 163 ، دارقطني: 191 ، حاكم: 360/1 ، بيهقى: 43/4]
وضاحت:
نماز جنازہ میں سلام ایک جانب پھیرا جائے یا دو طرف، یہ اہلحدیث علماء کے مابین ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔
✿ محدث العصر شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نماز جنازہ میں ایک طرف (دائیں جانب) سلام پھیرنے کے قائل تھے، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔
✿ شیخ محمد ندیم ظہیر نے بھی ایک طرف سلام پھیرنے کو راجح کہا ہے، اور اوپر پیش کردہ دلائل کے مدلل جوابات اپنے اس مضمون میں نقل کیے ہیں۔
✿ شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ بھی ایک جانب سلام پھیرنے کے قائل ہیں، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔
❀ شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ کے نزدیک نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا بھی جائز ہے اور دو طرف بھی، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔
❀ شیخ عمران ایوب لاہوری حفظہ اللہ کی تحقیق میں بھی دو طرف سلام پھیرنے والی حدیث صحیح ہے، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔