نماز، نیکیاں اور برائیاں: گانوں کے سننے کا شرعی حکم
ماخوذ: قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01، صفحہ 529

سوال

(۱) میں ایک نمازی ہوں، ہر نیک عمل کرتا ہوں، لیکن کبھی کبھار شیطان کے بہکانے سے برائی کر بیٹھتا ہوں۔ کیا یہ برائیاں میری نیکیوں پر اثر ڈالتی ہیں؟ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکیوں اور برائیوں کے الگ الگ رجسٹر ہیں، یا برائیاں نیکیوں کو متاثر کرتی ہیں، یا نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں؟ اس بارے میں وضاحت کریں۔

(۲) کبھی کبھی میں گانے سنتا ہوں، لیکن کسی کو آواز کے ذریعے تنگ نہیں کرتا۔ میں انہیں آہستہ آواز میں، تنہائی میں اور تھوڑے وقت کے لیے سنتا ہوں، اور ایسا کئی بار ہوتا ہے۔ میری نیت میں کوئی برائی نہیں ہوتی۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) کچھ نیک اعمال ایسے ہیں جن سے انسان کی تمام برائیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر:

  • ایمان و اسلام قبول کرنا
  • ہجرت کرنا
  • حج مبرور ادا کرنا

اسی طرح کچھ برائیاں ایسی ہیں جن سے انسان کی تمام نیکیاں ضائع اور باطل ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر:

  • کفر
  • شرک
  • صلاۃِ عصر کو ترک کرنا

لہٰذا آپ کے معاملے میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آپ جو برائی کرتے ہیں وہ کس نوعیت کی ہے، تب ہی بتایا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کی نیکیوں پر اثر انداز ہوتی ہے یا نہیں۔

(۲) معازف، مزامیر، ساز اور گانے سننا بذاتِ خود ناجائز اور گناہ کا کام ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ:

  • اس سے انسان برائی کی طرف مائل ہو یا نہ ہو
  • کسی کو اس سے تکلیف پہنچے یا نہ پہنچے
  • یہ تنہائی میں ہو یا محفل میں
  • آہستہ آواز میں ہو یا بلند آواز میں

بہرحال یہ عمل جرم، گناہ، حرام اور ناجائز ہے، جس سے بچنا لازمی اور ضروری ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے