نظام کی تسخیری قوت اور سائنسی علمیت پر اندھا اعتماد: حقیقت اور خطرات

خلاصہ

  • سائنسی علمیت پر اندھا اعتماد سوشل سائنسز اور ماہرین کے اندرونی اختلافات کو نظرانداز کرتا ہے۔
  • سوشل سائنسز کے مختلف مکاتبِ فکر میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، لیکن پالیسی ساز ادارے انہی میں سے ایک کو منتخب کر کے معاشرتی تجربات کرتے ہیں۔
  • ماہرین کی ناکامیوں اور غلطیوں پر انہیں جوابدہ نہیں بنایا جاتا، اور ان کی غلطیاں "اجتہادی غلطی” قرار دی جاتی ہیں۔
  • "نظام کی تسخیری قوت” لوگوں کے ذہنوں میں یہ یقین پختہ کرتی ہے کہ موجودہ نظام ہی سب کچھ ہے اور اس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

سائنسی علمیت پر اندھا اعتماد

نظام کی تسخیری قوت اور سائنسی علمیت پر اندھے اعتماد کی جو صورت حال آج سامنے آئی ہے، وہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ سائنس اور سوشل سائنسز کے ماہرین کے پاس حقائق اور مسائل کے حل کرنے کا کوئی ایسا حتمی طریقہ کار موجود ہے جس پر شک کی گنجائش نہیں۔ اس وجہ سے جدید تعلیم یافتہ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ سائنسی ماہرین اور محققین کبھی کسی اختلاف کا شکار نہیں ہوتے اور ان کے فیصلے متفقہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مطابق، معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے انہی ماہرین پر بھروسہ کرنا ضروری ہے۔

ماہرین کا اختلاف اور مختلف نظریات

لیکن حقیقت میں یہ اعتماد سائنسی علم کی حقیقت اور اس کے طریقہ کار سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ سوشل سائنسز اور دیگر علوم میں کوئی بھی ایسا متفقہ نظریہ موجود نہیں جسے ہر ماہر قبول کرتا ہو۔ مختلف مکاتبِ فکر (Schools of Thought) کے درمیان بنیادی مفروضات اور طریقہ کار میں شدید اختلافات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، علم معاشیات کے ماہرین کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق نہیں کہ کساد بازاری کیوں آتی ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ کلاسیکل، کینیزین، نیوکلاسیکل، مارکسسٹ اور دیگر نظریات کے پیروکاروں کے مفروضات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، اور اس لیے یہ لوگ کبھی کسی ایک نتیجے پر متفق نہیں ہو سکتے۔

پالیسی ساز ادارے اور تجرباتی معاشرتی پالیسیاں

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی اور معاشرتی طاقت کے حامل ادارے جس نظریے کو مناسب سمجھتے ہیں، اسے نافذ کر دیتے ہیں، اور کروڑوں انسانوں کی زندگیاں ان نظریات کے تجرباتی میدان بن جاتی ہیں۔ اگر کوئی پالیسی کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا سہرا ان ماہرین کے سر باندھا جاتا ہے، اور اگر ناکام ہو جائے تو کسی اور نظریے کو آزما لیا جاتا ہے۔ لیکن اس دوران لاکھوں انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں، جنہیں کبھی انصاف کے کٹہرے میں لا کر نہیں پوچھا جاتا کہ ان ناکامیوں کا ذمہ دار کون ہے۔

ماہرین کی ناکامی اور علمی دیانتداری کا فقدان

اس سارے عمل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ماہرین کی ناکامیوں اور غلطیوں کو علمی دیانتداری اور "اجتہادی غلطی” کا نام دے کر ان پر کسی قسم کی ذمہ داری عائد نہیں کی جاتی۔ ان کی غلطیوں کے نتائج عام لوگوں کو بھگتنے پڑتے ہیں، لیکن ماہرین خود محفوظ رہتے ہیں اور بعض اوقات ان کے مالی فوائد بھی بڑھتے رہتے ہیں۔ عوام کو صرف یہ کہہ کر تسلی دی جاتی ہے کہ اگلا تجربہ شاید کامیاب ہو جائے گا، حالانکہ اس کامیابی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔

نظام کی تسخیری قوت اور ڈسکورس کا جبر

اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہمیں "نظام کی تسخیری قوت” اور "ڈسکورس کا جبر” کو سمجھنا ہوگا۔ یہ قوت لوگوں کے ذہنوں میں اس یقین کو پختہ کرتی ہے کہ موجودہ نظام ہی سب کچھ ہے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے، چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ جو لوگ اس نظام کو چیلنج کرتے ہیں یا اس پر سوال اٹھاتے ہیں، انہیں یا تو غیر اہم سمجھا جاتا ہے یا ان کی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

نتائج اور حقیقت

یہ اعتماد اندھا ہے کیونکہ یہ بنیادی اختلافات اور تضادات کو نظرانداز کرتا ہے اور لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا رکھتا ہے کہ یہ ماہرین ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ماہرین کے درمیان اختلافات اور ناکام تجربات کروڑوں لوگوں کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں، اور یہ سلسلہ بغیر کسی جوابدہی کے جاری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے