نصر الباری مقدمہ: فاتحہ خلف الامام کے دلائل و آثار کا مختصر خلاصہ
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب مسئلہ فاتحہ خلفُ الامام سے ماخوذ ہے۔

إن الحمد لله نحمده و نستعينه من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد: فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد ( صلى الله عليه وسلم ) وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة أعوذ بالله من الشيطان الرحيم، بسم الله الرحمن الرحيم ۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ‎﴾‏
(47-محمد:33)
وقال رسول الله له : (من أطاعني دخل الجنة و من عصاني فقد أبى )
(رواه البخاري في صحیحه 7280)
اسلام کی بنیاد پانچ (ستونوں ) پر ہے۔
لا إله إلا الله اور محمد رسول الله کی گواہی دینا۔
➋ اقامت صلوۃ: نماز
➌ ادائیگی زکوة
➍ حج
➎ اور رمضان کے روزے۔
(صحیح بخاری: 8 صحیح مسلم : 12/19۔ ترقیم دار السلام : 11)
نماز میں سورۃ فاتحہ کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ متواتر حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلوة الأبأم القرآن سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
(دیکھئے یہی کتاب ح19)
اسی وجہ سے علمائے اسلام نے سورہ فاتحہ کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں ۔ مثلاً : امیر المومنین فی الحدیث و امام الدنیا فی فقہ الحدیث، شیخ الاسلام ابوعبداللہ البخاری کی جزء القراءت اور امام بیہقی کی کتاب القراءت خلف الامام وغیرہ۔

امام بخاری سے کتاب جزء قراءت قطعی طور پر ثابت ہے

اس وقت آپ کے ہاتھ میں امام بخاری کی : جزء القراءة المشهور بالقراءة خلف الإمام يا خير الكلام فى القراءة خلف الإمام کے نام سے مشہور کتاب ہے۔
اس کتاب کے مرکزی راوی محمود بن اسحاق الخزاعی القواس ہیں۔
حافظ ابن حجر نے ان کی بیان کردہ ایک حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
(موافقته الخبر ج 1 ص 417)
محدثین کا حدیث کو حسن یا صحیح قرار دینا ، ان کی طرف سے اس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔
(دیکھئے نصب الراية للزيلعي 264/3،139/1)
محمود بن اسحاق مذکور سے تین ثقہ راوی روایت کرتے ہیں:
➊ ابو نصر محمد بن احمد بن محمد بن موسیٰ الملاحمی (312ھ – 395ھ)
➋ ابو العباس احمد بن محمد بن الحسین الرازی الضریر (م399ھ)
(تاریخ بغداد: 13/ 438 الارشاد خلیلی : 974/3- تذکرة الحفاظ : 1029/3ت 957)
➌ ابوالفضل احمد بن علی بن عمر و السلیمانی البیکندی البخاری (311 ھ – 454ھ )
(تذكرة الحفاظ: 1036/3 ت 920)
محمود بن اسحاق مذکور: حافظ ابن حجر کے نزدیک ثقہ و صدوق اور حسن الحدیث ہیں، کسی محدث نے انھیں مجہول نہیں کہا۔ بعض کذا بین کا چودھویں ، پندرھویں صدی میں انھیں مجہول کہنا سرے سے مردود ہے۔
(دیکھئے مقدمہ طبعہ اولیٰ : جزء رفع الیدین للبخاری ص 13،14 لراقم الحروف )
محمود بن اسحاق البخاری القواس کا تذکرہ (تاریخ الاسلام للذہبی: ج 25 ص 83) پر موجود ہے۔ حافظ ذہبی نے کہا:
وحدت و عمر دهرا اور اس نے حدیثیں بیان کیں اور لمبی عمر پائی۔
❀ محدث ابو یعلی خلیلی قزوینی (م446ھ) نے لکھا ہے:
و محمود هذا آخر من روى عن محمد بن إسماعيل أجزاء ببخارى ومات محمود سنة اثنتين وثلاثين وثلاثمائة
اور (امام) بخاری سے ان کے (تصنیف کردہ ) اجزاء، محمود نے سب سے آخر میں بخارا میں بیان کئے ہیں اور محمود (332ھ) میں فوت ہوئے۔
(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث: ج 3 ص 968ت 895)
محمود بن اسحاق کا شاگرد الملاحمی بھی ثقہ ہے۔
(تاریخ بغداد:356/1ت 285)
معلوم ہوا کہ اس کتاب کی نسبت امام بخاری تک صحیح ہے، اس لیے بعض الناس کا عصر حاضر میں اس نسبت پر جرح کرنا باطل ہے۔
امام بیہقی وغیرہ اکابر علماء نے امام بخاری کی کتاب القراءت سے استدلال کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسے امام بخاری کی تصنیف کردہ کتاب ہی سمجھتے ہیں۔

فاتحہ خلف الامام کے دلائل کا خلاصہ

فاتحہ خلف الامام کے دلائل و آثار کا کچھ خلاصہ درج ذیل ہے:

قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى:وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ‎﴿٨٧﴾
(15-الحجر:87)
اور ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو سات دہرائی جانے والی آیتیں اور قرآن عظیم عطا کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہی سات دہرائی جانے والی آیتیں ہیں۔
(صحیح بخاری : 380/3 رقم الحديث :4704، کتاب التفسير : سورةا لحجر)
مفسر قرآن قتاده بن دعامہ (تابعی) نے کہا:
فاتحة الكتاب تثنى فى كل ركعة مكتوبة أو تطوع
فرض ہو یا نفل ، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ دہرائی جاتی ہے۔
(تفسیر عبدالرزاق 1456 تفسیر ابن جریر الطبری: ج 14 ص 39 وسنده صحیح )
قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ
(73-المزمل:1)
اور قرآن سے جو میسر ہو پڑھو ۔
اس آیت کریمہ سے ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصاص حنفی ( احکام القرآن : ج 5 ص 367) اور ملا ابوالحسن علی بن ابی بکر المرغینانی ( الہدایہ اولین : ج1 ص 98 باب صفۃ الصلوة ) و غیر پیمانے نماز میں قراءت کی فرضیت پر استدلال کیا ہے۔
❀ نصر بن محمد السمر قندی الحنفی ( متوفی 375ھ) نے لکھا ہے:
في صلاة الليل ويقال : فاقرءوا ما تيسر من القرآن فى جميع الصلوات
اس سے رات کی نماز مراد ہے اور کہا جاتا ہے کہ قرآن میں سے جو میسر ہو اسے تمام نمازوں میں پڑھو۔
( تفسیرسمر قندی: 3/ 418 )
ما تيسر من القرآن سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ جیسا کہ سنن ابی داود ( ح 859 حسن ) وغیرہ سے ثابت ہے۔
ابوبکر الجصاص ( متوفی 370ھ ) کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں: وكان يميل إلى الإعتزال و فى تصانيفه ما يدل على ذلك فى مسألة الرؤية وغيرها یہ معتزلہ کی طرف مائل تھا۔ اس کی کتابوں میں جو کچھ ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے۔ ( مثلا دیکھئے ) مسئلہ رویت (باری تعالیٰ کو دیکھنا ) وغیر ہا ۔
( تاریخ الاسلام للذہبی : ج 26 ص 432)
یعنی یہ شخص معتزلی تھا۔ ڈاکٹر محمد حسین الذہبی نے لکھا ہے:
هذا و قد ذكره المنصور بالله فى طبقات المعتزلة وسيأتيك في تفسيره ما يوتد هذا القول
اسے منصور باللہ نے طبقات المعتزلہ میں ذکر کیا ہے اور آپ اس کی تفسیر میں اس قول کی تائید پائیں گے۔
(التفسیر والمفسرون: ج 2 ص 438)
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ‎﴿٣٩﴾
(53-النجم:39)
اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرے۔
قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً
(7-الأعراف:205)
اور عاجزی و خوف کے ساتھ اپنے دل میں اپنے رب کا ذکر کر.
اس کی تشریح میں حافظ ابن حزم اندلسی ( متوفی 456 ھ ) لکھتے ہیں:
وليس فيها إلا الأمر بالذكر سرا وترك الجهر فقط
اور اس میں صرف اس بات کا حکم ہے کہ سرا ( خفیہ ) ذکر کیا جائے اور جہر ترک کر دیا جائے۔
[المحلی : ج 3 ص 239 مسکتہ 360]
تفصیل کے لیے دیکھئے تو ضیح الکلام ( ج1 ص 102 – 118)
قال الله تعالى يقولونيَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
(5-المائدة:83)
( جب وہ قرآن سنتے ہیں تو ) کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے پس ہمیں گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو کتاب وسنت کے مطابق ضروری کلام کیا جاسکتا ہے۔
قَالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ: وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ ‎﴿٥٣﴾‏
(28-القصص:53)
اور جب ان پر ( قرآن ) پڑھا ( سنایا) جاتا ہے تو کہتے ہیں : ہم اس پر ایمان لائے یقیناً یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے، بے شک ہم پہلے سے ہی مسلمان ہیں۔
وَقَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ‎﴿٣٣﴾‏
(47-محمد:33)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال باطل ضائع نہ کرو۔
قَالَ اللهُ عَزَّوَجَلٌ: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
(59-الحشر:7)
اور رسول تمھیں جو دے وہ لے لو اور جس (چیز) سے وہ منع کرے اس سے رک جاؤ۔
وَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ
(16-النحل:44)
اور ہم نے آپ کی طرف ذکر ( قرآن ) اتارا ہے، تا کہ آپ لوگوں کے لیے اس کا بیان ( تشریح) کریں جو ان کے لیے نازل کیا گیا ہے۔

احادیث مرفوعه

عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
”اس کی نماز نہیں ( ہوتی ) جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔ “
(جزء القراء ۃ ح: 2 صحیح البخاری: 756 صحیح مسلم:340-394/36. ترقیم دار السلام 876، 874 )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى صلوة ولم يقرأ بأم القران فهي خداج ، فلا لا غير تمام
جو شخص نماز پڑھے اور (اس میں ) سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ (نماز ) ناقص (باطل) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی مکمل نہیں ہے۔
(جزء القراءة: 11 صحیح مسلم:395 – دار السلام : 2878 )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل صلاة لا يقرأ فيها بأم الكتاب فهي خداج
ہر وہ نماز ، جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے۔
(سنن ابن ماجه : 840 – احمد 6 / 275 ح 26888)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل صلوة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج
ہر نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے۔
(جزء القراءة : 14۔ ابن ماجہ: 841)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
( کتاب القراء ة للبیہقی ص50 ح 100 وسندہ صحیح)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلوة إلا بقراء
قراءت کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم:396 – جزء القراءة: 153)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
في كل صلوة يقرأ
ہر نماز میں قراءت کی جاتی ہے۔
( جزء القراءة: 13 صحیح البخاری:772۔ صحیح مسلم : 396)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اقرءوا ) تم سب قراءت کرو ۔
(جزء القراءة :73۔ ابوداؤد: 821 وسندہ صحیح)
ایک بدری صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تکبیر کہ ، پھر قراءت کر ، پھر رکوع کر ۔
( جزء القراءة :103 وھو صحیح )

خاص دلائل

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مقتدیوں سے ) فرمایا:
فلا تفعلوا وليقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب فى نفسه
پس ایسا نہ کرو اور تم میں سے ہر آدمی سورۃ فاتحہ اپنے دل میں (سرا) خاموشی سے پڑھے ۔
( جزء القراءة :255۔ ابن حبان : 459،458 والکواکب الدریہ ص 19وھو صحیح)
فقیر اللہ المختصص الاثری الدیوبندی، نام کا ایک متروک الحدیث شخص الکواکب الدریہ کا رد کرتے ہوئے لکھتا ہے:
حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء القراءۃ میں : عن رجل من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم کی حدیث کو ذکر کیا ہے۔ عن انس کی حدیث کو ذکر ہی نہیں کیا تو اس سے حجت کیسے پکڑی؟
(رسالہ فاتحہ خلف الامام علی زئی کا رد: ص 13)
فقیر اللہ مذکور کو میرے شاگر دا بو ثا قب محمد صفدر بن غلام سرور الحضر وی نے اس سلسلے میں (4 مارچ 2000 ء کو ) ایک خط لکھا تھا جس کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی ہی میں عافیت سمجھی ۔ اس خط کی نقل رجسٹری محفوظ ہے۔ والحمد للہ
( رجسٹری نمبر1129، پوسٹ آفس حضرو )
تنبیہ:
جزء القراءۃ میں یہ روایت یقیناً موجود ہے اور سابقہ صفحے پر اس کا حوالہ گزر چکا ہے۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مقتدیوں سے ) فرمایا:
فلا تفعلوا إلا أن تقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب فى نفسه
پس ایسا نہ کرو مگر یہ کہ تم میں سے ہر آدمی سورہ فاتحہ اپنے دل میں (سرا) پڑھے۔
( جزء القراءة: 67 والكواكب الدريه ص 29 وھو صحیح)
نافع بن محمود (تابعی) عبادہ بن الصامت صحابی رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مقتدیوں سے ) فرمایا:
لا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلوة لمن لم يقرأبها
سورہ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو، کیونکہ جو ( سورہ فاتحہ ) نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
(کتاب القراء للبیہقی ص 64 ح 121 وسندہ حسن، وصححه البیہقی )
ایک سند میں یہ الفاظ ہیں :
لا يقرأن أحد منكم إذا جهرت بالقراءة إلا بأم القرآن
جب میں جہر کے ساتھ قراءت کر رہا ہوتا ہوں تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے ۔
(سنن النسائی: 921 – جزء القراءة : 65 – الكواكب الدريه ص 29)
(یادر ہے کہ ) نافع بن محمود ثقة وثقه الجمهور ( نافع بن محمود ثقه ہیں ، انھیں جمہور محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مقتدیوں سے ) فرمایا:
فلا تفعلوا إلا بأم القرآن
سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو۔
(جزء القراءة :23 والكواكب الدريه: ص 35 وسنده حسن )
محمد بن اسحاق عن مکحول عن محمود بن الربیع ( رضی اللہ عنہ ) عن عباده( رضی اللہ عنہ) کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مقتدیوں سے ) فرمایا:
فلا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلوة لمن لم يقرأبها
سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہ پڑھو۔ جو ا سے نہ پڑھے یقینا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
( جزء القراءة: 257 و الکواکب الدریہ ص 31)
محمد بن اسحاق حسن الحدیث، وثقہ الجمہور ہیں۔ ان کی متابعت علاء بن الحارث نے کی ہے۔
(دیکھئے کتاب القراءة للبیہقی ص 62 ح 115، والکواکب الدریہ : ص 46)
مکحول کا مدلس ہونا ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے طبقات (المدلسین بتحقیقی : 23/108)
انھیں صرف ابن حبان اور ذہبی نے مدلس قرار دیا ہے۔ یہ دونوں ارسال کو بھی تدلیس سمجھتے ہیں۔
(دیکھئے الثقات لابن حبان : 6/ 98، الموقظة للذہبی ص 47۔ میزان الاعتدال : 326/2)
لہذا جب تک کوئی دوسرا محدث ان کی متابعت نہ کرے یا واضح دلیل نہ ہو صرف ان کا مدلس قرار دینا کافی نہیں ہے۔
معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ( جو کہ مقتدی تھے ) فرمایا:
إن هذه الصلوة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هو النسيح والتكبير وقراءة القرآن
اس نماز میں لوگوں کی باتوں میں سے کوئی چیز جائز نہیں ہے، یہ تو تسبیح تکبیر اور قراءت قرآن ( کا نام) ہے۔
(صحیح مسلم: 537 – جزء القراءة :69 70 و الکواکب الدریہ ص 49)
جس طرح مقتدی تسبیح و تکبیر کہتا ہے اس طرح وہ (سورۂ فاتحہ کی ) قراءت قرآن کرتا ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( سکتو ں میں ) خاموش ہوتے تو وہ آپ کے پیچھے ( فاتحہ کی ) قراءت کرتے تھے اور جب آپ پڑھ رہے ہوتے تو وہ قراءت نہ کرتے ۔
(كتاب القراء ة اللبیہقی ص 126 ح 301 وسنده حسن الكواكب الدريه ص 38)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقيمت الصلوة فكبر ثم اقرأ ثم اركع
جب نماز کی اقامت ہو جائے تو تکبیر کہہ ، پھر (فاتحہ کی ) قراءت کر، پھر (امام کے ساتھ ) رکوع کر۔
(جزءالقراءة :113 وسندہ صحیح)
رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقيمت الصلوه فكبر ثم اقرأ بفاتحة الكتاب وما تيسر ثم اركع
جب نماز کی اقامت ہو جائے تو تکبیر کہہ، پھر سورہ فاتحہ پڑھ اور جو میسر ہو، پھر رکوع کر ۔
(شرح السنة للبغوی : ج 3 ص 5541 و قال: هذا حديث حسن)
یہاں وما تيسر کا تعلق سری نمازوں سے ہے نہ کہ جہری نمازوں سے۔
(دیکھئے حدیث سابق :3)
واضح رہے کہ سری نمازوں میں بھی وما تيسرواجب نہیں ہے۔
(دیکھئے جزء القراءة : 8)

آثار صحابه

عمر رضی اللہ عنہ نے قراءت خلف الامام کے بارے میں فرمایا : ہاں (پڑھو). اگر چہ میں پڑھ رہا ہوں ۔
( جز والقراءة :51 وھو صحیح)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کے بارے میں فرمایا:
اقرأ بها فى نفسك
اسے (فاتحہ کو ) اپنے دل میں (سرا) پڑھو۔
( جزء القراءة11و صحیح مسلم : 395 )
اور فرمایا:
إذا قرأ الإمام بأم القرآن فاقرأ بها واسبقه
جب امام سورہ فاتحہ پڑھے تو تو بھی اسے پڑھ اور اس سے پہلے ختم کرلے۔
(جزء القراءة : 283 وسنده صحیح)
ایک روایت میں ہے کہ سائل نے کہا تھا:
جب امام جہری قراءت کر رہا ہو تو میں کیا کروں؟
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اقرأ بها فى نفسك
اسے اپنے دل میں (سرا) پڑھو۔
(جزء القراءة: 73 سند ہ حسن وھو صحیح بالشواهد )
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے قراءت خلف الامام کے بارے میں فرمایا:
بفاتحة الكتاب
سورۂ فاتحہ ( پڑھ ) ۔
(جزءالقراءة : 11، 105 وسنده حسن الكواكب الدرية : ص 69،68)
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد فرمایا:
أجل إنه لا صلوة إلا بها
جی ہاں،اس (فاتحہ) کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
( مصنف ابن ابی شیبه 375/1 ح 3770 وسنده صحیح )
مزید آثار عبادہ رضی اللہ عنہ کے لیے دیکھئے (جزء القراءة : 65) وغیرہ۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے اور ان کی یہی تحقیق اور یہی مسلک و مذہب تھا۔
( احسن الکلام 143/2 الکواکب الدریہ، ص 13)
بعض دیوبندیوں کو عبادہ رضی اللہ عنہ اور محمود بن الربیع رضی اللہ عنہ پر فاتحہ خلف الامام کی وجہ سے بہت غصہ ہے۔ اس کی چند دلیلیں درج ذیل ہیں:
➊ حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے کہا:
یہ کہ اس کو عبادہ بن الصامت معنعنا ذکر کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ مدلس ہیں اور مدلس کا عنعنہ معتبر نہیں۔
( توضیح ترمذی ص 236 طبع مدنی مشن بک ڈپو، مدنی نگر، کلکته 51، ہندوستان )
مزید کہا: ” کیونکہ بعض کے راوی عبادہ ہیں جو مدلس ہیں ۔ “
( ایضا : ص 437)
حالانکہ عبادہ رضی اللہ عنہ مشہور بدری صحابی ہیں اور صحابہ کو مدلس قرار دینا انتہائی عجیب ، غلط اور باطل ہے۔ یادر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرسل روایات بھی مقبول و حجت ہیں ۔
➋ محمد حسین نیلوی دیوبندی مماتی نے لکھا ہے:
ابو نعیم حضرت محمود بن ربیع کی کنیت ہے۔
( اعدل الکلام ص 29 طبع گلستان ج 5 شمار 12)
مزید کہا: یادر ہے کہ حضرت ابو نعیم محمود بن ربیع مدلس ہیں۔
(ایضاً ص 23)
➌ ماسٹر امین اوکاڑوی نے کہا: اور یہ عبادہ مجہول الحال ہے۔
(میزان الاعتدال)
( تجلیات صفدر مطبوعہ اشاعة العلوم الحنفیة فیصل آباد ج 3 ص 52 او جزء القراءة بحاشیه امین اوکاڑوی ص 131 تحت ح: 150)
یادر ہے کہ سید نا عبادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں میزان الاعتدال کا حوالہ اوکاڑوی صاحب کا سیاہ جھوٹ ہے۔ میزان الاعتدال میں سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں مجہول الحال کا کوئی فتویٰ موجود نہیں ہے۔ والحمد للہ ۔
❀ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھ۔
(مصنف ابن ابی شیبه : ج1 ص 375 ح3773 دھو صحیح الکواکب الدریة ص71، 70 )
انس رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ اور (سری نمازوں میں ) ایک سورت پڑھنے کے قائل تھے ۔ ثابت بن اسلم البنانی (تابعی) کہتے ہیں:
كان يأمرنا بالقراءة خلف الإمام
آپ ہمیں قراءت ( فاتحہ ) خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔
(كتاب القراءة للبیہقی ص 101 231 و الکواکب الدریۃ ص 73 وسنده حسن)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پیچھے [ ظہر و عصر میں ] (سورہ مریم کی ) قراءت کیا کرتے تھے۔
( جزء القراءة : 60 وغیرہ ۔ والکواکب الدریہ ص 75،74)
❀ جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كنا نقرأ فى الظهر والعصر خلف الإمام فى الركعتين الأولين بفاتحة الكتاب وسورة وفي الأخريين بفاتحة الكتاب
ہم ظہر و عصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور (کوئی) ایک سورت اور دوسری دورکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔
(ابن ماجه: 843 وسنده صحیح، وصححه البوصیری )
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے (سورہ فاتحہ) پڑھتے تھے۔
(جزء القراءة: 52 وھوحسن الکواکب الدریہ ص 75، 76)
ان کے علاوہ دیگر آثار کے لیے کتاب القراءة للبیہقی وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

آثار التابعین

سعید بن جبیر نے اس سوال :” کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟“ کا جواب دیا کہ ”جی ہاں اور اگر چہ تو اس کی قراءت سن رہا ہو۔ “
( جزء القراءة: 273 وسنده حسن)
ایک اور روایت میں فرمایا:
لابد أن تقرأبأم القرآن مع الإمام
یہ ضروری ہے کہ تو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھے۔
( مصنف عبدالرزاق: 133/2 ح 2789 و توضیح الکلام: ج1 ص 530و کتاب القراءت للبیہقی : 237 شطره الآخر وصرح عبد الرزاق بالسماع عنده)
❀ حسن بصری نے فرمایا:
اقرأ خلف الإمام فى كل صلوة بفاتحة الكتاب فى نفسك
امام کے پیچھے ہر نماز میں سورۃ فاتحہ اپنے دل میں (سرا) پڑھ
(كتاب القراءة اللبیہقی : ص 105 ح 232 والسنن الكبرى له: 171/2وسندہ صحیح، توضیح الکلام : 538/1، مصنف ابن ابی شیبه 374/1 ح 3762)
❀ عامر الشعبی نے فرمایا:
اقرأ خلف الإمام فى الظهر والعصر بفاتحة الكتاب وسورة و فى الأخريين بفاتحة الكتاب
ظہر وعصر میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ اور (کوئی) ایک سورت پڑھ اور آخری دورکعتوں میں (صرف ) سورہ فاتحہ پڑھ۔
(مصنف ابن ابی شیبه: ج ص 374 ح 3764 وسنده صحیح )
امام شعبی امام کے پیچھے قراءت کو اچھا سمجھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: ج1 ص 375 ح 3772 وسندہ صحیح)
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ امام کے پیچھے ( فاتحہ کی ) قراءت کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبه: 3750ح373/1 وسندہ صحیح)
ابو الملیح اسامہ بن عمیر، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/ 375ح3766 وسنده صحیح و جزء القراءة: 46 )
❀ حکم بن عتیبہ نے فرمایا:
جس نماز میں امام بلند آواز سے نہیں پڑھتا اس کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور (کوئی) ایک سورت پڑھ اور آخری دورکعتوں میں (صرف) سورۃ فاتحہ پڑھ ۔
( مصنف ابن ابی شیبہ: 374/1 ح 3767 وسندہ صحیح، توضیح الکلام: ج 1ص 555)
عروہ بن الزبیر امام کے پیچھے سری نمازوں میں ( فاتحہ اور مازادعلی الفاتحہ ) پڑھتے تھے۔
(موطا مالک : 186ح85/1وسنده صحیح)
قاسم بن محمد امام کے پیچھے غیر جہری (سری ) نمازوں میں ( فاتحہ اور مازاد علی الفاتحہ) پڑھتے تھے۔
(موطا مالک : 187ح85/1وسنده صحیح)
نافع بن جبیر بن مطعم امام کے پیچھے سری نمازوں میں فاتحہ اور (مازاد علی الفاتحہ ) پڑھتے تھے۔
(موطا مالک : 187ح85/1وسنده صحیح )
تنبیہ :
بریکٹوں میں فاتحہ اور مازادعلی الفاتحہ کی صراحت دوسرے دلائل سے کی گئی ہے۔

آثار العلماء

امام محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ ( متوفی 318ھ ) سکنات امام میں فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے ۔
(دیکھئے الاوسط لابن المنذر ج 3 ص 111،110)
امام اوزاعی نے جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا۔
( دیکھئے حاشیہ جزء لقراءۃ:22 کتاب القراءۃ للبیہقی : 247وسنده صحیح و توضیح الکلام: ج 1ص 556)
❀ امام شافعی نے فرمایا:
کسی آدمی کی نماز جائز نہیں ہے جب تک وہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھ لے۔ چاہے وہ امام ہو یا مقتدی، امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری ، مقتدی پر یہ لازم ہے کہ سری اور جہری (دونوں) نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھے۔
(حاشیه جز والقراءة: 26 ومعرفة السنن والآثار للبیہقی : ج 2 ص 58 ح 128 وسندہ صحیح )
اس قول کے راوی ربیع بن سلیمان المرادی نے کہا:
یہ امام شافعی کا آخری قول ہے جو ان سے سنا گیا۔ (ایضاً)
اس آخری قول کے مقابلے میں کتاب الام وغیرہ کے کسی مجمل و مہم قول کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اسے اس صریح نص کی وجہ سے منسوخ سمجھا جائے گا۔
امام عبد الله بن المبارک قراءت خلف الامام کے قائل تھے۔ امام ترمذی نے فرمایا:
يرون القراءة خلف الإمام
وه ( ابن المبارک وغیرہ ) قراءت خلف الامام کے قائل تھے۔
(سنن الترمذی: اس باب ما جاء في القراءة خلف الامام )
امام ترمذی نے کتاب العلل ( طبع دار السلام ص 889) میں وہ صحیح سندیں ذکر کر دی ہیں جن کے ذریعے سے امام عبد اللہ بن المبارک کے فقہی اقوال ان تک پہنچے تھے۔ ان میں سے ایک سند بھی ضعیف نہیں ہے۔
امام اسحاق بن راہو یہ بھی قراءت خلف الامام کے قائل تھے ۔
(سنن الترمذی: ح 311 و کتاب العلل : ص889 ب )
امام بخاری بھی جہری وسری نمازوں میں (فاتحہ کی ) قراءت خلف الامام کے قائل تھے، جس پر یہ کتاب( جزء القراءة اور صحیح البخاری باب وجوب القراءة للا مام والمأموم فى الصلوات كلها فى الحضر والسفر وما يجهر فيها وما يخافت : ح 755 ) گواہ ہیں ۔
امام الائمہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ النیسابوری (متوفی 311ھ ) بھی جہری نمازوں میں قراءت خلف الامام کے قائل تھے۔
(دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: ج 3 ص 36 باب القراءة خلف الامام وان جهر الامام بالقراءة قبل : ج 1581 )
حافظ ابن حبان البستی بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے ۔
(دیکھئے صحیح ابن حبان ، الاحسان : ج 3 ص 142 قبل: ح1791 باب ذکر الزجر عن ترک قراءة فاتحه الکتاب للمصلى في صلاته مأموما كان أو إماما و منفردا)
امام بیہقی بھی قراءت خلف الامام کے قائل تھے ۔ جس پر ان کی کتاب القراءت خلف الامام اور اللسنن الكبرى ومعرفتہ السنن والآثار ، وغیرہ بہترین گواہ ہیں ۔
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ قراءت ( فاتحہ ) خلف الامام کا ثبوت (1) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (3) تابعین عظام رحمہ اللہ (4) اور قابلِ اعتماد ائمہ اسلام سے قولاً وفعلاً ثابت ہے۔ لہذا یہ قول و عمل نہ قرآن کے خلاف ہے اور نہ حدیث کے اور نہ اجماع کے۔ والحمد للہ
جن روایات میں قراءت سے منع کیا گیا ہے اور انصات کا حکم دیا گیا ہے ان کا صحیح مطلب صرف یہ ہے کہ ۔
➊ امام کے پیچھے اونچی آواز سے نہ پڑھا جائے ۔ (لقمہ دینا اس سے مستثنیٰ ہے )
➋ جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ سے زیادہ نہ پڑھا جائے۔ ( تکبیر تحریمہ، تعوذ قبل الفاتحہ، تسمیه قبل الفاتحہ اور لقمہ دینا اس سے مستثنیٰ ہے )
اس تطبیق و توفیق سے تمام دلائل پر عمل ہو جاتا ہے اور کوئی تعارض باقی نہیں رہتا اور یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ راستہ انتہائی پسندیدہ راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے قرآن و حدیث و اجماع و آثار سلف سب پر عمل ہو جائے اور کسی قسم کا تعارض اور ٹکراؤ باقی نہ رہے۔ جو لوگ دلائل شرعیہ کو آپس میں ٹکرا دیتے ہیں ان کی یہ حرکت انتہائی قابل مذمت ہے۔
❀ علامه امام ابن عبدالبر (متوفی 463 ھ ) فرماتے ہیں:
وقد أجمع العلماء على أن من قرأ خلف الإمام فصلاته تامة ولا إعادة عليه
اور یقینا علماء کا اجماع ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے (سورۃ فاتحہ ) پڑھتا ہے۔ اس کی نماز مکمل ہے اس پر کوئی اعادہ نہیں ہے۔
(الاستند کار : 193/2۔ الکواکب الدریہ ص 52)
مولوی عبدالحئی لکھنوی حنفی نے صاف صاف لکھا ہے:
لم يرد فى حديث مرفوع صحيح : النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وكل ماذكروه مرفوعا فيه إما لا أصل له وإمالا يصع
کسی مرفوع صحیح حدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت وارد نہیں ہے اور وہ (مخالفین فاتحہ خلف الامام ) جو بھی مرفوع احادیث بیان کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں یا ان کی کوئی اصل نہیں۔
(تعليق المجد ص 101حاشیہ نمبر1 الكواكب الدرية ص 53)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے