سوال :
ایک شخص نے مخصوص مقاصد کے لئے مخصوص نذر مانی، پھر اس نے دوسرے مقاصد کو زیادہ مفید سمجھا، تو کیا اس صورت میں نذر کی جہت تبدیل کرنا جائز ہے ؟
جواب :
مذکورہ سوال کا جواب دینے سے قبل چند تمہیدی باتیں ضروری ہیں :۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان کو نذر نہیں مانی چاہئیے کیونکہ نذر ماننا مکروہ ہے یا حرام۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نذر خیر کا باعث نہیں ہے اس کی وجہ سے بخیل سے کچھ نکالا جاتا ہے، لوگ جس مقصد کو نذر کی وجہ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں حقیقتاً اس کا سبب نذر نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ بیمار ہونے پر کسی کام کے کرنے کی نذر مانتے ہیں، کسی گم شدہ چیز کے واپس مل جانے کی صورت میں کچھ اور کرنے کی نذر مانتے ہیں۔ اب اگر اسے شفا حاصل ہو جائے یا گم شدہ چیز واپس مل جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ نذر کی وجہ سے ہوا‘ لہٰذا آپ نذر مانے بغیر اللہ تعالیٰ سے شفا اور گم شدہ چیز کے مل جانے کی دعا کریں، نذر ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ عموماً نذر ماننے والے حضرات اگر ان کی مراد بر آئے تو وہ ایفاء نذر میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ اکثر اوقات اسے چھوڑ ہی دیتے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک چیز ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّـهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ٭ فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ ٭ فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّـهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ [9-التوبة:75 ]
”اور ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں مال عطا فرما دے تو ہم خوب صدقہ کریں گے اور نیکوکاروں میں ہو جائیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دے دیا تو اس میں بخیلی اور روگردانی کرنے لگے وہ منہ پھیرے ہوئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا یہ دی کہ ان کے دلوں میں اس روز تک کے لیے نفاق پیدا کر دیا کہ جس دن وہ اللہ کے پاس حاضر ہوں گے، اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لئے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔ “
اس بنا پر مومن کو نذر مانی ہی نہیں چاہئے۔ اب ہم آپ کے سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں جب انسان کسی قسم کی نذر مان لے اور پھر یہ سمجھے کہ اس نذر کے علاوہ کوئی اور چیز اس سے افضل اور اقرب الی اللہ اور لوگوں کے لئے زیادہ مفید ہے، تو اس صورت میں جہت تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا : ”میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس میں نماز ادا کروں گا۔“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو یہیں نماز پڑھ لے۔ اس آدمی نے پھر وہی بات دہرائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی جواب دیا۔ اس نے پھر وہی بات کی تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر جیسے تیری مرضی ہے کر لے اس سے معلوم ہوا کہ انسان ادنیٰ درجے کی نذر کو اگر اعلیٰ (افضل) درجے کی نذر سے بدل لے تو یہ جائز ہے۔“
(شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ)