پروفیسر ڈاکٹر محمد یسٰین مظہر صدیقی لکھتے ہیں:
چشمه زمزم کی بازیابی کے ذکر کے ساتھ مصادر میں جناب عبد المطلب ہاشمی کی نذر قربانی کا حوالہ آتا ہے جس کے مطابق انہوں نے منت مانی تھی کہ پروردگار عالم اگر انہیں دس فرزند عطا فرمائے گا تو وہ ایک کو کعبہ کے پاس اللہ کی راہ میں قربان کر دیں گے کیونکہ زمزم کھودتے وقت بعض قریشی اکابر بالخصوص خاندان بنو عبد مناف کے ایک ذیلی گھرانے بنو نوفل کے سربراہ عدی بن نوفل نے ان کو طعنہ دیا تھا کہ اس قدر کدوکاوش کی ضرورت اور دوسروں سے بڑے بننے کی حاجت کیا ہے جبکہ ان کی اولاد ہی نہیں سوائے ایک فرزند کے۔ ابن اسحاق وغیرہ نے جس انداز سے یہ روایت نقل کی ہے وہ اس کی کمزوری کو اجاگر کرتی
ہے :
قال ابن اسحاق : وكان عبد المطلب بن هاشم، فيما يزعمون والله اعلم قد نذر . حين لقي من قريش ما لقي عند حفر زمزم. لئن ولد له عشرة نفر ثم بلغوا معه حتى يمنعوه لينحرن اجدهم لله عند الكعبة فلما توافي بنوه عشرة وعرف انه سيمنعونه، جمعهم ثم اخبره بنذره و دعاهم إلى الوفاء لله بذلك فأطاعوه [ابن هشام 64/1 او مابعد ]
بہرحال روایت کے مطابق جب ان کے دس فرزند جوان و مدافع ہو گئے تو انہوں نے اپنے فرزندوں کو جمع کر کے اپنی نذر ان کو بتائی اور اسے پورا کرنے کے لئے ان کو ہمت دلائی اور ان سب نے ان کی اطاعت کی۔
نذر پورا کر نے اور قربانی کے بدلے اونٹ ذبح کرنے کا واقعہ بہت طویل ہے۔ قصه مختصر یہ کہ کعبہ میں رکھے تیروں کے ذریعہ ہر بچہ اور فرزند کے نام پر ان کو چلانے کا فیصلہ ہوا اور جس فرزند کا نام نکل آئے اس کو قربان کرنے کا معاملہ طے کیا گیا۔ صاحب القداح یعنی کعبہ کے تیروں کے نگراں پروہت نے یہ کام انجام دیا اور ہر بار جناب عبد الله کا نام آتا رہا اور عبدالمطلب نے ان کو ذبح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اکابر قریش نے اپنی مجالس میں جب یہ دیکھا کہ وہ عبداللہ کو قربان کرنے جا رہے ہیں تو وہ آڑے آئے اور دیوار آہنی بن کر کھڑے ہو گئے کہ وہ ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ بالآخر ان کے عزم مصمم کے سامنے یہ طے ہوا کہ ایک حجازی عرافہ ( کاہنہ) سے فیصلہ کرائیں اور وہ جو کہے وہی کریں۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے وہ مدینہ گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ وہ خاتون محترمہ خیبر میں ہے تو اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس نے بڑے سوچ بچار کے بعد فیصلہ دیا کہ فرزند کی جگہ اونٹ ذبح کر دیں۔ تیر اندازی کے ذریعہ اونٹوں کی تعداد بڑھتی گئی حتیٰ کہ وہ سو ہو گئی اور تب عبداللہ کی جگہ اونٹوں کا نام تھا اور عبد المطلب نے ان کو ذبح کر کے اپنی نذر پوری کی اور فرزند کو بچا لیا۔ [ابن هشام 164/1 – 168، سهيلي 131/2 – نيز 137- 139، ابن سعد 92-88/1،ابن اثير 0/2-7-14،بلاذري، 78/1 -79، طبري 2/ 239 – 243 بحواله روايت ابن اسحاق و تبصره ابن كثير 248/2 – 249 بحواله ابن اسحاق و يونس بن بكير۔ ]
تحقیق الحدیث :
نذر عبد المطلب اور قربانی عبداللہ کی تاریخ و زمانے پر روایات میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔
ابن اسحاق اور ان کے پیروکار مؤلفین سیرت کے مطابق اس واقعہ کے فورا بعد ہی عبداللہ کی شادی کا معاملہ ہوا۔ اس سے یہ قرینہ ملتا ہے کہ فرزند کی قربانی کی منت اور اس پر عمل آوری کا کام ولادت نبوی سے ایک دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ یعنی 71- 570ء کا کیونکہ شادی کے قلیل عرصہ کے بعد ہی عبداللہ کی وفات کا سانحہ پیش آ گیا۔
قال ابن اسحاق: ثم انصرف عبد المطلب آخذا بيد عبد الله فمر به فيما يزعمون على امرأة من بني اسد بن عبد العزى بن قصي بن كلاب، و هي اخت ورقة بن نوفل وهى عند الكعبة فقالت له حين نظرت الى وجهه : اين تذهب يا عبد الله؟ قال : مع ابي، قالت: لك مثل الابل التى نحرت عنك وقع على الآن؟ قال: أنا مع ابي ولا استطيع خلافه ولا فراقه . . . . [ابن هشام 168/1 -169، سهيلي 141/2 -142 وما قبل نيز ابن سعد 95/1-97، طبري 243/2- 244،بحواله ابن اسحاق ابن كثير 244/2 -218، بحواله ابن اسحاق حلبي 39/1- 40 ]
بلاذری کی ایک روایت میں جو حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب بن عبد المطلب ہاشمی کی سند پرمروی ہے، زمزم کھودنے اور فرزند کی قربانی کی تاریخیں بیان کی گئی ہیں۔
اول الذکر واقعہ عبد المطلب ہاشمی کے چالیسویں سال میں پیش آیا اور دوسرا اس کے تیس سال بعد۔
واقدی کی روایت میں تصریح ہے کہ فرزند کے عوض اونوں کی قربانی کا واقعہ فیل کے حادثے سے پانچ سال قبل پیش آیا تھا اور اسی سال قربانی میں عبدالمطلب ہاشمی کے فرزند اکبر حارث کا انتقال ہوا اور مرحوم کا فرزند ربیعہ اس وقت دو برس کا بچہ تھا۔ لہٰذا ربیعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات سال بڑا تھا۔ [ بلاذري 78/1 – 79 ]
. . . . . . فمتى كان اراد ذبح ولده؟ قال : بعد ذلك اي حفر زمزم بثلاثين سنة. . . . . . وقال : وفي سنة التى نحر فيها عبد المطلب الأبل، مات الحارث بن عبد المطلب ولا بنه ربيعة سنتان- وقال الواقدي : وكان نحر الابل قبل الفيل بخمس سنين، فكان ربيعة اسن من رسول الله بسبع سنين.
اس بنا پر نذر قربانی کا یہ واقعہ 522 ء اور سے 567ء کے زمانے کا بن جاتا ہے جبکہ جناب عبدالمطلب کی عمر ستر سال تھی۔ توقيت واقعات کے لحاظ سے یہ تاریخ وسنہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وفات عبدالمطلب کے سن اور ان کی عمر اس سے مطابقت رکھتی ہے۔ یعقوبی کے مطابق زمزم کے دریافت کرنے کے دس سال بعد جناب عبداللہ کی شادی بی بی آمنہ سے ہوئی تھی اور ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ پندرہ سال بضع عشرة سنة کے بعد ہوئی تھی اور تزویج عبد اللہ اور ان کی نذر قربانی کے درمیان ایک سال کا وقفہ تھا یعنی شادی سے ایک سال قبل۔ یہ توقیت بلاذری سے کافی مختلف ہے اور واقعات کے سنین سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ [يعقوبي 9/2 ]
اس تقوی حساب اور تاریخی تعیین میں فرزندان عبد المطلب ہاشمی کے سنین ولادت و عمر کا حساب بھی رکھنا ضروری ہے۔ فرزند اکبر حارث بن عبدالمطلب اور فرزند آخر حمزہ بن عبد المطلب کے درمیان تیس بتیس سال کا وقفہ ہے۔ حارث کی ولادت کے وقت عبدالمطلب ہاشمی کی جو عمر بھی رہی ہو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے کے وقت والد ماجد کی عمر شریف ستر بہتر سال رہی تھی۔ ان کی ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تولد ہونے سے دو سال قبل کی ہے یعنی عام الفیل سے دو سال پہلے 569ء – 570ء کے زمانے میں وہ اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائے تھے۔ یہ تخمینی حساب واقدی کی بیان کردہ روایت کی تصدیق کرتا ہے اور بلاذری کی روایت بسند عبدالله بن جعفر کی بھی۔ لہٰذا ابن اسحاق و ابن ہشام اور سہیلی وغیرہ کی توقیت کا اشارہ صحیح نہیں ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روایت ابن اسحاق میں دو واقعات ”قربانی فرزند اور تزویج عبداللہ“ کے درمیان روایت کی ایک کڑی غائب ہے۔
ابن سعد وغیرہ کی روایت میں اس کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ وہ عبداللہ کی شادی کے واقعہ کو بالکل الگ بیان کرتے ہیں اور اسے نذر والد و قربانی فرزند کے واقعات سے متصل نہیں کرتے۔ جیسا کہ مزید بحث آگے آتی ہے۔
ابن اسحاق کی روایت اور طریقہ روایت پر بھی یہاں چند الفاظ ضروری ہیں کہ وہ روایت کا مقام و مرتبہ متعین کرتے ہیں اور اس سے یہ گتھی بھی سلجھ سکتی ہے کہ ان دو واقعات کو جوڑنے میں کیا سبب ہوا۔ ابن اسحاق اگرچہ روایت یا روایات سیرت پر کھل کر تنقید کم کرتے ہیں لیکن ان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی روایت کو کمزور، ضعیف یا عوامی سمجھتے ہیں تو وہ ایک فقرہ جیسا کہ لوگوں کا گمان ہے فيما يزعمون ضرور درمیان روایت لاتے ہیں اور اگر مزید ان کو وجہ ضعف کی طرف اشارہ کرنا ہو تو والله اعلم کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ روایوں کے بیان کرنے کے لئے قالوا ( انھوں نے کہا) یا حدثوا ( انھوں نے بیان کیا) جیسے الفا ظ روایت کی جگہ زعموا / زعم (ان کا گمان/ خیال ہے ) لاتے ہیں اور یہ تمام اشارات تنقید بلکہ الفاظ تضعیف ہیں۔ عبد المطلب کی نذر کی روایت کے شروع میں فيما يزعمون، والله اعلم دونوں اسباب و علل تضعيف و تنقید موجود ہیں۔ عبد اللہ کے سب سے چہیتے فرزند احب ولد عبد المطلب اليه ہونے میں فيما يزعمون “موجود ہے۔ عرافہ سے متعلق روایت میں پھر یہ فقرہ آیا ہے۔ سو اونٹوں پر تیر نکل آنے کی روایت کے لئے فزعموا استعمال ہوا ہے اور پھر اسدی خاتون سے عہد اللہ کی ملاقات اور مکالمہ میں بھی فيما يزعمون دہرایا گیا ہے۔ یہ تمام علائم واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت عوامی ہے،کہانی ہے اور نا قابل اعتبار بھی۔
جناب عبد المطلب کی نذر، فرزند عبد اللہ کی قربانی کے ارادے، ان کے عوض اونٹوں کا نحر اور عبد اللہ کے والد ماجد کے ساتھ جاتے ہوئے راہ میں ایک خاتون کے ورغلانے غرضکہ اس پوری روایت کا دروبست یہ بتاتا ہے کہ راویان خوش بیان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند گرامی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح عظیم کے تاریخی واقعہ کو عبدaلمطلب و عبداللہ کے قصہ میں پوری طرح سے دہرایا ہے۔ واقعہ ابراہیمی کا پرتو قصہ عبداللہ پر صاب نظر آتا ہے۔ ان دونوں واقعات کی چند مماثلوں کا دوبارہ ذکر اس لحاظ سے ضروری معلوم ہوتا ہے۔
➊ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرزند قربان کرنے کا حکم رویا صادقہ میں ہوا اور انھوں نے نذر مان لی۔ ان کے ذبح عظیم کا مقام بھی کعبۃ الله کے ارد گرد یا قریب تھا۔ سب سے محبوب فرزند کو قربان کرنے کا فیصلہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے کیا۔ جناب عبد المطلب ہاشمی نے ایک تکرار کے دوران دس فرزندوں کے عطا ہونے پر کعبہ کے قریب ایک فرزند کو راہ الٰہی میں ذبح کرنے کی منت مان لی۔ عبدالمطلب ہاشمی نے اپنے محبوب ترین فرزند عبداللہ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ جناب عبد المطلب کو بھی بعض روایات کے مطابق خواب میں نذر پوری کرنے کا حکم ہوا تھا۔
➋ فرزند براہیمی نے مکمل اطاعت و سپردگی کا مظاہرہ کیا اور باپ کے فیصلہ قربانی کے سامنے سر جھکا دیا۔ جناب عبدالمطلب کے تمام فرزندان گرامی نے والد ماجد کی نذر پوری کرنے کے فیصلے سے اتفاق کیا اور سر اطاعت ختم کر دیا۔
➌ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ارادہ سے باز رکھنے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو اطاعت پدری سے روکنے کا کام ابلیس نے انجام دیا۔ جناب عبدالمطلب کو اس عظیم ارادے سے روکنے کا فریضہ بنو مخزوم کے ننہالی رشتہ داروں نے انجام دیا۔
➍ فرزند کی جگہ جانور ذبح کرنے کا فیصلہ تقدیر الٰہی سے ہوا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک بکری یا بھیڑ قربان ہوئی۔ جناب عبداللہ کا سر عزیز بچانے کے لئے ایک کاہنہ /عرافہ کی خدمات لی گئیں اور اس نے فرزند کے بجائے اونٹوں کو ذبح کرنے کا مشورہ دیا۔ جناب عبدالمطلب نے عرب روایت کے مطابق سو اونٹوں پر قرعہ نکالا اور فرزند کا بدل تلاش کر لیا۔
➎ قربان گاہ سے واپسی پر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو کسی شیطانی یا ابلیسی ذات نے گمراہ کیا تھا یا نہیں مگر اس کے مقابلے میں جناب عبداللہ بن عبدالمطلب ہاشمی کو ایک عورت نے ”نحر ابل‘‘ (اونٹ کی قربانی) کا حوالہ دے کر جناب آمنہ بنت وہب زہری سے شادی کرنے سے روکنے کی ضرور کوشش کی مگر فرزند کی تابعداری نے اس کی چلنے نہ دی۔
ان تمام متشابہات اور واقعات کی مماثلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نذر عبد المطلب کا پورا واقعہ عوامی کہانی ہے اور حضرات ابراہیم و اسمعیل علیہم السلام سے دونوں ہاشمی اکابر کو مشابہ قرار دینے کی کوشش۔ یہ ایک اسطوری قصہ نگاری ہے مفصل بحث کے لئے ملاحظہ ہو : نذر عبدالمطلب ہاشمی کی استنادی حیثیت، الفرقان لکہنؤ اکتوبر 2002ء 33-44