نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کب ہوئی؟
شمارہ السنہ جہلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کب ہوئی؟ اس موقع پر جو کچھ کیا جاتا ہے ، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب : معراج حق ہے لیکن تاریخ کے متعلق کچھ ثابت نہیں ۔
علامہ ابو شامہ مقدسی رحمہ الله (665 ھ) لکھتے ہیں:
ذكر بعض القصاص أن الأسرى كان فى رجب وذالك عند أهل التعديل والتجريح عين الكذب
” کسی قصہ گو نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ماہ رجب میں ہوئی ۔ محققین کے ہاں یہ صریح جھوٹ ہے ۔“ [الباعث على إنكار البدع والحوادث ، ص ١١٦]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ شیخ الاسلام ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
ولم يقم دليل معلوم لا على شهرها ولا على عشرها ولا على عينها ، بل النقول فى ذلك منقطعة مختلفة ليس فيها ما يقطع به ، ولا شرع للمسلمين تخصيص الليلة التى يظن أنها ليلة الإسراء بقيام ولا غيره
”ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ، جس سے معراج کا مہینہ ، عشرہ یا تاریخ کا علم ہو سکے ، بلکہ اس کے متعلق جتنی روایات ہیں ، ساری کی ساری منقطع اور ضعیف ہیں ، کوئی بھی قابل استناد نہیں ۔ جس رات کو لیلتہ الاسرا کا نام دیا جاتا ہے ، اسے قیام یا کسی اور عبادت سے خاص کر نا مشروع نہیں ۔ “ [ زاد المعاد فى هدي خير العباد: ٥٨/١]
نیز فرماتے ہیں:
ولا يجوز لأحد أن يتكلم فيها بلا علم ، ولا يعرف عن أحد من المسلمين أنه جعل لليلة الإسراء فضيلة على غيرها ، لاسيما على ليلة القدر ، ولا كان الصحابة والتابعون لهم بإحسان يقصدون تخصيص ليلة الإسراء بأمر من الأمور ولا يذكرونها ، ولهذا لا يعرف أى ليلة كانت ، وإن كان الإسراء من أعظم فضائله صلى الله عليه وسلم ، ومع هذا فلم يشرع تخصيص ذالك الزمان ولا ذالك المكان بعبادة شرعية ، بل غار حراء الذى ابتدء فيه بنزول الوحي وكان يتحراه قبل النبوة لم يفصده هو ولا أحد من أصحابه بعد النبوة مدة مقامه بمكة ، ولا خص اليوم الذى أنزل فيه الوحي بعبادة ولا غيرها ، ولا خص المكان الذى ابتدء فيه بالوحي ولا الزمان بشيء ، ومن خص الأمكنة والأزمنة من عنده بعبادات لأجل هذا وأمثاله كان من جنس أهل الكتاب الذين جعلوا زمان أحوال المسيح مواسم وعبادات ، كيوم الميلاد ، ويوم التعميد ، وغير ذالك من أحواله
”اس مسئلہ میں بغیر علم کے کلام کرنا کسی کے لئے روا نہیں ۔ کسی مسلمان سے ثابت نہیں کہ اس نے اس رات کو دیگر راتوں ، خصوصاًً لیلتہ القدر پر فضیلت دی ہو ۔ صحابہ اور تابعین میں سے کوئی بھی اس رات کو مخصوص کر کے عبادت نہیں کرتا تھا اور نہ کسی نے اس کا تذکرہ کیا ۔ تب ہی تو اس کا تعین نہیں ہو سکا ! اگرچہ معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فضائل میں سے ہے ، لیکن اس کے باوجود اس وقت اور جگہ کو کسی شرعی عبادت سے خاص کرنے کا نہیں کہا گیا ۔ غار حراء ،جس میں وحی کی ابتد ہوئی اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل عبادت کیا کرتے تھے ، وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی صحابی نے عبادت کا قصد نہیں کیا ، نزول وحی کے دن کو عبادت وغیرہ کے لیے خاص کیا ، نہ کسی مکان و زمان کو کسی عمل کے ساتھ خاص کیا ۔ کسی زمان و مکان کو کسی عبادت کے ساتھ خاص کرنے والے کی مثال ، ان اہل کتاب کی سی ہے ، جنہوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے احوال کے اوقات کو مخصوص عبادات اور رسومات بنا لیا ۔ مثلاًً عید میلاد عیسی (کر سمس ڈے) اور یوم تعمید (عیسائی مذہب قبول کرنے والے کو غسل کرایا جاتا ہے)
وغیرہ وغیرہ ۔“ [ زاد المعاد فى هدي خير العباد: ٥٨/١-٥٩]
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ (795 ھ) لکھتے ہیں:
وقد روي: أنه فى شهر رجب حوادث عظيمة ولم يصح شيء من ذلك فروي: أن النبى صلى الله عليه وسلم ولد فى أول ليلة منه وأنه بعث فى السابع والعشرين منه وقيل: فى الخامس والعشرين ولا يصح شيء من ذلك وروي بإسناد لا يصح عن القاسم بن محمد: أن الإسراء بالنبي صلى الله عليه وسلم كان فى سابع وعشرين من رجب وأنكر ذلك إبراهيم الحربي وغيره
”ماہِ رجب کے متعلق روایات ہیں کہ اس میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے لیکن ان میں کوئی بھی روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ، مثلاًً یہ کہ یکم رجب کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور ستائیسویں یا پچیسویں شب آپ کو نبوت ملی ۔ ان میں کچھ بھی ثابت نہیں ۔ ایک ضعیف روایت قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے بیان کی جاتی ہے کہ معراج رجب کی ستائیسویں شب ہوئی ،لیکن ابراہم حربی وغیرہ نے اس کا انکار کیا ہے ۔“ [ لطائف المعارف ، ص 233]
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذ الأعياد شريعة من الشرائع ، فيجب فيها الاتباع ، لا الابتداع ، وللنبي صلى الله عليه وسلم خطب وعهود ووقائع فى أيام متعددة: مثل يوم بدر ، وحنين ، والخندق ، وفتح مكة ، ووقت هجرته ، ودخوله المدينة ، وخطب له متعددة يذكر فيها قواعد الدين ، ثم لم يوجب ذلك أن يتخذ أمثال تلك الأيام أعيادا ، وإنما يفعل مثل هذا النصارى الذين يتخذون أمثال أيام حوادث عيسى عليه السلام أعبادا ، أو اليهود ، وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع ، وإلا لم يحدث فى الدين ما ليس منه
”چوں کہ عیدیں بھی شریعت ہیں ، لہٰذا اس میں اتباع واجب ہے ، نہ کہ اختراع ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی خطبے ، معاہدے اور اہم واقعات ہیں ، مثلاًً یوم ، بدر ، حنین ، خندق ، فتح مکہ ، وقت ہجرت ،مدینہ میں داخلہ وغیرہ ، جن میں آپ نے اساس دین کو ڈسکس کیا ہے ، لیکن ان سب کے باوجود ان جیسے دنوں اور موقعوں کو عید قرار نہیں دیا ۔ یہ تو عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، انہوں نے عیسی علیہ السلام سے منسو ب اہم واقعات کو یوم عید قرار دیا ۔ یہودیوں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ، عید ایک شرعی تہوار ہے ، جسے اللہ شریعت بنا دے ، وہ واجب الاتباع ہے ، ورنہ دین میں بدعت شامل نہ کی جائے ۔“ [ اقتضاء الصراط المستقيم ، ص ٢٩٤]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: