نبی صلی اللہ علیہ وسلم وقت سوال قبر میں حاضر نہیں ہوتے !
تحریر: حافظ ابویحییٰ نورپوری

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر میں وقت سوال ہر میت کے پاس حاضر و ناضر ہونا صحیح حدیث میں تو درکنار، کسی ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں۔ سلف صالحین میں اس کا کوئی قائل نہیں، لہٰذا یہ بدعی اور گمراہ عقیدہ ہے۔
قبر میں میت سے تین سوالات پوچھے جاتے ہیں، جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے :
ماكنت تقول فى هذا الرجل . . . .
”تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ “ [صحيح البخاري : 1347 ]
بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ هذا اشارہ قریب کے لیے آتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں ہر میت کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اس حدیث سے یہ مسئلہ کشید کرنا تحریف دین اور جہالت کی بات ہے، جیسا کہ :
➊ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا:
اركب إلى هذا الوادي، فاعلم لي علم هذا الرجل الذى يزعم أنه نبي .
” تو اس وادی کی طرف جا اور میرے لیے اس شخص کا حال معلوم کر، جو اللہ تعالیٰ کا نبی ہونے کا دعویدار ہے۔ “ [ صحيح البخاري : 1/544، صحيح مسلم :، 2/ 297، ح 2474 ]
اس حدیث میں سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ مکہ کو هذا الوادي اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو هذا الرجل کے الفاظ کے ساتھ تعبیر کر رہے ہیں، کہاں قبیلہ غفار اور کہاں مکہ ! کیا کوئی عاقل انسان کہہ سکتا ہے کہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے ہاں مکہ حاضر تھا ؟ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
حاضر و ناظر تھے اور وہ اپنے بھائی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جاننے کے لیے مکہ بھیجتے رہے ہیں ؟
➋ سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا بماء ممرالناس، وكان يمربنا الركبان، فنسألهم ماللناس، ماهذا الرجل، فيقولون : يزعم أن الله أرسله، أوحي الله كذا .
”ہم لوگوں کی گزر گاہ اور چشمے کے پاس رہائش پذیر تھے، ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے، ہم ان سے پوچھا کرتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے، وہ آدمی کیا ہے ؟ لوگ جواب دیتے تھے کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھیجا ہے، اس کی طرف یہ یہ وحی کی ہے۔ “ [صحيح البخاري : 615/1، ح : 4302 ]
سیدنا عمرو بن سلمہ وغیرہ قافلوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق هذا الرجل کے الفاظ استعمال کر کے پوچھتے تھے، کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضرناظر تھے ؟
➌ ہرقل نے سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور کفار قریش سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا :
أيكم أقرب نسبا بهذا الرجل الذى يزعم أنه نبئ . . . إني سائل عن هذا الرجل . . .
” تم میں سے کون نسب کے اعتبار سے اس شخص کے زیادہ قریب ہے، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے۔۔۔ میں اس شخص کے بارے میں سوال کروں گا۔ “ [ صحيح البخاري : 4/1، ح : 7صحيح مسلم : 97/2 : 1773 ]
ذخیرہ حدیث میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں وقت سوال حاضر نہیں ہوتے، کیونکہ :
دلیل نمبر
میت سے پوچھا: جاتا ہے کہ :
ما كنت تقول فى هذا الرجل، لمحمد صلى الله عليه و سلم فأما المومن فيقول : أشهد أنه عبده و رسوله
”تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا تھا، مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ “ [ صحيح البخاري : 1347 ]
اس حدیث میں هذا الرجل کی وضاحت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر کی گئی ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر ہوتے تو پھر اس وضاحت کی کیا ضرورت ہے ؟

دلیل نمبر
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے
فيقال : ما هذا الرجل الذى كان فيكم ؟ فيقول : محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه و سلم جاءنا بالبينات من عند الله عز وجل فصدقناه . . . .
” (قبر میں بوقت سوال ) کہا جائے گا، وہ شخص کون تھا جو تمہارے اندر مبعوث ہوا تھا، وہ (مومن) کہے گا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جو ہمارے پاس اللہ عز وجل کی طرف سے واضح آیات لے کر آئے تھے، ہم نے ان کی تصدیق کی تھی۔۔۔۔۔ “ [مسند الامام احمد140/6 و سنده صحيح ]
↰ یہ صریح حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قبر میں میت سے صرف پوچھا: جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

دلیل نمبر
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت سے کہا جاتا ہے :
ما ذا تقول فى هذا الرجل، يعني النبى صلى الله عليه و سلم ؟ قال : من ؟
”تو اس شخص، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے، وہ (کافر و فاسق) کہتا ہے کون ؟ “ [مسند الامام احمد : 352/6، سنده صحيح ]
اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ میت سے کہاجاتا ہے :
ماذا تقول فى هذا الرجل ؟ قال : أى رجل ؟ قال : محمد .
”تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے، وہ کہتا ہے، کون سا آدمی ؟ وہ (فرشتہ) کہتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ “ [مسندالامام احمد : 353/6، المعجم الكبير للطبراني : 125/24، وسنده صحيح ]
↰ اس حدیث سے واضح ثابت ہو رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں سوال کے وقت حاضر نہیں ہوتے ہیں، ورنه من اور أى رجل کا کیا معنیٰ ؟

دلیل نمبر
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میت سے کہا جاتا ہے :
أرأيتك هذا الرجل الذى كان فيكم، ماذا تقول فيه، وما ذا تشهد به عليه ؟ فيقول : أى رجل، فيقال : الذى كان فيكم، فلا يهتدي لاسمه، حتي يقال له : محمد . . .
”اس شخص کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے، جو تم میں مبعوث ہوا تھا، اس کے بارے میں تو کیا کہتا ہے اور تو اس پر کیا گواہی دیتا ہے، وہ کہے گا، کون سا آدمی ؟ اس سے کہا جائے گا، وہ جو تم میں مبعوث ہوا تھا، وہ اس کا نام نہیں جان پائے گا، حتی کہ اسے کہا جائے گا، وہ جو تم میں مبعوث ہوا تھا، وہ اس کا نام نہیں جان پائے گا، حتی کہ اسے کہا جائے گا، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔۔۔ “ [صحيح ابن حبان : 3113، الاوسط للطبراني : 2630، المستدرك للحاكم : 381، 380، 379/1 وسندهٌ حسنٌ ]
↰ اس حدیث کو امام ابن حبان [3113] نے ”صحیح“ کہا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ [380/1۔ 381] نے امام مسلم کی شرط پر”صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وإسناده حسن . ”اس کی سند حسن ہے۔ “ [ مجمع الزوائد : 51/3۔ 52 ]
↰ اس حدیث پاک نے روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قبر میں صرف پوچھا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں موجود نہیں ہوتے۔
علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ هذا الرجل کی تشریح میں بیان کرتے ہیں :
عبر بذالك امتحانا لئلايتلقن تعظيمه عن عبارةالقائل، قيل : يكشف للميت حتي يرى النبى صلى الله عليه و سلم، وهى بشري عظيمة للمؤمن إن صح ذلك، ولا نعلم حديثا صحيحا مرويا فى ذلك والقائل به إنمااستندلمجردأن الإشارة لاتكون إلا للحاضر، لكن يحتمل أن تكون الإشارة لمافي الذهن فيكون مجاز .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو هذا الرجل سے مردے کا امتحان کے لیے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ قائل (فرشتے ) کے کہنے سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم سمجھ نہ پائے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ میت سے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، حتی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتی ہے اور اگر یہ بات درست ہو تو یہ مؤمن کے لیے بہت بڑی بشارت ہے، لیکن ہم اس بارے میں مروی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جانتے۔ اس قول والوں نے صرف اس بات سے استدلال کہ اشارہ صرف حاضر کو کیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ اشارہ اس چیز کی طرف ہو، جو ذہن میں موجود ہے، چنانچہ یہ مجاز ہو گا۔ “ [تحفة الاحوذي لمحمدعبدالحمن المباركفوري : 155/4 ]
حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وسئل : هل يكشف له حتي يرى النبى صلى الله عليه و سلم ؟ فأجاب أنه لم يردحديث، وإنما إدعاه بعض من لايحتج به بغيرمستند سوي قوله : فى هذا الرجل، ولاحجة فيه، لأن الإشارة إلى الحاضرفي الذهن .
” حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا میت سے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، حتی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتی ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اس بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی، بلکہ یہ بعض ان لوگوں کا بے دلیل دعویٰ ہے، جن کا کوئی اعتبارنہیں، صرف یہ دلیل ہے کہ حدیث میں هذا الرجل کے لفظ آئے ہیں، لیکن ان الفاظ میں کوئی دلیل موجود نہیں، کیونکہ یہاں اشارہ اس چیز کی طرف ہے، جو ذہن میں حاضرہے۔ “ [شرح الصدورللسيوطي : ص20، طبع مصر ]
↰ ثابت ہوا کہ هذا الرجل سے یہ استدلال پکڑنا کہ میت کو قبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرائی جاتی ہے، بالکل باطل نظریہ ہے۔ اس کے باوجود جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :

”مرنے کے بعد قبر میں سب سے پہلے سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوگی۔ “ [داڑهي كا وجواب اززكريا تبليغي : ص9 ]

نیز محمد یعقوب نانوتوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :

”بجاۓ ہمارے جنازے پر تشریف لانے کے حضور قبر میں ہی تشریف لائیں گے۔ “ [قصص الاكا براز اشرف على تهانوي : ص188 ]

ان کی بات کا ردّ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کی بات سے ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں :
يكفي العهد فقط، ولادليل على المشاهدة .
”یہاں عہدِ ذہنی کا معنٰی ہی کافی ہے، مشاہدہ پر کوئی دلیل نہیں۔ “ [العرف الشذي از انورشاه كشميري : 450/2 ]
ثابت ہوا کہ بقولِ شاہ صاحب، زکریا صاحب اور یعقوب نانوتوی صاحب کی بات بے دلیل اور بے اصل ہے۔ بے دلیل بات ناقابلِ التفات ہوتی ہے۔
من فارق الدليل، فقدضل عن سواء السبيل !
(جو دلیل سے تہی دامن ہوتا ہے، صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ )
هذا الرجل کے تحت علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
أي الرجل المشهوربين أظهركم، ولايلزم منه الحضور، وترك ما يشعر بالتعظيم لئلا يصيرتلقينا، وهويناسب موضع الاختيبار .
”یعنی وہ آدمی جو تمہارے ہاں مشہور تھا، اس سے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر میں) حاضر ہونا لازم نہیں آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لینا اس لیے ہے کہ تعظیم ظاہر نہ ہو اور یہ تلقین نہ بن جائے، امتحان کے مناسب یہی بات ہے۔ “ [حاشية السندي على ابن ماجه، تحت حديث : 3258، حاشية السندي على النسائي : 97/4، ح : 2052 ]
فائدہ جلیلہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں پوچھا: تو صحابہ کرام رضوان اللہ عَلیھم اجمَعینٌ نے عرض کیا، وہ فوت ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أفلاكنتم آذنتموني ؟ قال : فكأنهم صغروا أمرها أمره، فقال : دلوني على قبره، فدلوه، فصلي عليها .
”تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی ؟ گویا انہوں نے اس کے معاملہ کو معمولی سمجھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے اس کی قبر بتاؤ، صحابہ کرام نے اس کی قبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر نماز جنازہ پڑھی۔ “ [صحيح البخاري : 1337، صحيح مسلم : 956، واللفظ له ]
↰ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر میت کی قبر میں بوقت سوال حاضر ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کے فوت ہونے کی اطلاح کیوں نہ تھی ؟
الحاصل : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وقت سوال قبر میں حاضر نہیں ہوتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

ایک تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے