إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد!
● عبادت میں احسان پیدا کرو
حدیث 1:
﴿عن معاذ بن جبلؓ قال: قلت: يا رسول الله ، أوصني ! فقال: أعبد الله كأنك تراه ، واعدد نفسك من الموتى ، واذكر الله عزوجل عند كل حجر وعند كل شجر ، وإذا عملت سيئة فاعمل بجنبها حسنة ، السر بالسر والعلانية بالعلانية . ثم قال: ألا أخبرك بأملك الناس من ذلك؟ قلت: بلى يا رسول الله، فأخذ بطرف لسانه، فقلت: يا رسول الله – كأنه يتهاون به- فقال النبى ﷺ: وهل يكب الناس على مناخرهم فى النار إلا هذا وأخذ بطرف لسانه .﴾
الترغيب والترهيب، رقم :2870۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں، میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے کوئی وصیت کیجیے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عبادت ایسے کیا کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، خود کو فوت شدگان میں شمار کرو، ہر شجر و حجر کے پاس اللہ کا ذکر کیا کرو اور اگر گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً بعد میں نیکی کیا کرو، پوشیدہ کے عوض پوشیدہ اور علانیہ کے عوض علانیہ۔ نیز ارشاد فرمایا:
کیا آپ کو وہ چیز نہ بتاؤں جو لوگوں کو اس (گناہ) سے بالکل محفوظ کر سکتی ہے؟ میں بولا ضرور یارسول الله ﷺ ! آپ نے اپنی زبان کو پکڑ لیا، میں خاطر میں نہ لاتے ہوئے پھر آپ سے پوچھنے لگا تو نبی کریم ﷺ نے دوبارہ اپنی نوک زبان پکڑنے کے بعد فرمایا:
یہی چیز لوگوں کو نتھنوں کے بل دھکیلتے ہوئے جہنم میں پھینکے گی ۔
● قبروں کو سجدہ گاہ مت بناؤ
حدیث 2:
﴿وعن جندبؓ قال: سمعت رسول الله ﷺ قبل أن يتوفى بخمس ليال ، خطب الناس فقال: أيها الناس إنه قد كان فيكم إخوة وأصدقاء، وإني أبرأ إلى الله أن أتخذ منكم خليلا، ولو أنى اتخذت من أمتي خليلا لا تخذت أبا بكر خليلا ، إن الله اتخذني خليلا كما اتخذ إبراهيم خليلا ، وإن من كان قبلكم اتخذوا قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد فلا تتخذوا قبورهم مساجد فإني أنهاكم عن ذلك .﴾
صحیح ابن حبان :334/14۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت جندبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پانچ رات قبل آپ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے:
اے لوگو! تم میں چند میرے بھائی اور چند ساتھی ہیں، میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر کسی کی دوستی سے براءت کا اعلان کرتا ہوں ۔ اگر میں نے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو دوست بنایا تھا، ویسے ہی مجھے بنالیا ہے۔ تم سے قبل کچھ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء و صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تم ان کی قبروں کو سجدہ گاہ نہ بناؤ، میں تمہیں ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کرتا ہوں۔
● دکھاوا مت کرو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴾
﴿الكهف : 110﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’(اے نبی!) کہہ دیجیے:میں تو بس تمھاری ہی طرح بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا الٰہ صرف ایک الٰہ ہے، پھر جو شخص کہ اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے ۔
حدیث 3:
﴿وعن أبى سعيد الخدريؓ قال: خرج علينا رسول الله ﷺ ونحن نتذاكر المسيح الدجال فقال: ألا أخبركم بما هو أخوف عليكم عندى من المسيح الدجال؟ قال: قلنا: بلى، فقال: الشرك الخفي ، أن يقوم الرجل يصلى فيزين صلاته لما يرى من نظر رجل .﴾
سنن ابن ماجه، کتاب الصلاة، رقم : 4204 ، صحيح الترغيب والترهيب، رقم : 27، المشكاة، رقم : 5333.
اور حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہم مسیح دجال کے ذکر میں مشغول تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے:
کیا تمہیں مسیح دجال سے زیادہ خطرناک چیز کے بارے میں نہ بتاؤں؟ فرماتے ہیں:
کیوں نہیں؟ آپ ﷺ ارشاد فرمانے لگے:
پوشیدہ شرک اور وہ یہ ہے کہ آدمی کسی دوسرے کی نظر پڑنے پر اپنی نماز خوبصورت انداز سے ادا کر نے لگ جائے ۔
● دس کاموں کی وصیت
حدیث 4:
﴿وعن معاذؓ ، قال: أوصاني رسول الله ﷺ بعشر كلمات، قال: لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت وحرقت ، ولا تعقن والديك وإن امراك ان تخرج من أهلك ومالك ، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا فإنه من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله، ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة ، وإياك والمعصية فإن بالمعصية حل سخط الله عزوجل، وإياك من الفرار يوم الزحف وإن هلك الناس ، وإذا أصاب الناس موتان وانت فيهم فاثبت ، وأنفق على عيالك من طولك ، ولا ترفع عنهم عصاك آدبا ، وأخفهم فى الله .﴾
مسند أحمد : 238/5، رقم : 22425۔ شیخ حمزہ زین نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔
اور حضرت معاذؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے مجھے دس امور کی نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
تو نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرانا، اگر چہ تجھ کو قتل کر دیا جائے اور جلا دیا جائے، ہرگز والدین کی نافرمانی نہیں کرنی ، اگر چہ وہ تجھ کو حکم دیں کہ تو اپنے اہل و مال سے نکل جائے ، جان بوجھ کر ہر گز فرضی نماز کو ترک نہیں کرنا، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر فرضی نماز ترک کر دی، اللہ تعالیٰ کا ذمہ اس سے بری ہو جائے گا، تو نے ہرگز شراب نہیں پینی، کیونکہ وہ ہر بے حیائی کی جڑ ہے، نافرمانی سے بچنا، کیونکہ نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے، لڑائی والے دن بھاگنے سے بچنا ہے، اگر چہ لوگ مر رہے ہوں، جب لوگ کثرت سے موت میں مبتلا رہے ہوں، جبکہ تو ان میں موجود ہو تو تو نے ثابت قدم رہنا ہے، اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اہل و عیال پر خرچ کر، ان کو ادب سکھانے کے لیے اپنی لاٹھی کو ان سے دور نہ کر اور ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرا۔
● قیام اللیل کو اپنا معمول بناؤ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
﴿السجدة : 16 ، 17﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے، اس عمل کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
حدیث 5:
﴿وعن بلال ، أن رسول الله ﷺ قال: عليكم بقيام الله الليل فإنه دأب الصالحين قبلكم، وإن قيام الليل قربة إلى الله، ومنهاة عن الإثم، وتكفير للسيئات، ومطردة للداء عن الجسد.﴾
سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم : 3549، إرواء الغليل، رقم : 452، المشكاة، رقم : 1227، رقم : 1227 – محدث البانی نے اسے ’’صحیح حسن‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت بلالؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قیام اللیل کو اپنا معمول بناؤ کیونکہ یہ تم سے قبل کے صالحین کا طریقہ و معمول رہا ہے اور یقیناً رات کا قیام اللہ کے قریب کرنے، گناہ سے دور کرنے، گناہوں کو مٹانے اور بدن سے بیماری ختم کرنے کا باعث ہے۔
● دوران نماز چند کاموں کی ممانعت
حدیث 6:
﴿وعن أبى هريرةؓ قال: أمرني رسول الله ﷺ بثلاث ، ونهاني عن ثلاث أمرنى بركعتى الضحى كل يوم ، والوتر قبل النوم ، وصيام ثلاثة أيام من كل شهر ، ونهاني عن نقرة كنقرة الديك ، وإفعاء كافعاء الكلب، والتفات كالتفات الثعلب .﴾
مسند أحمد : 311/2۔ شیخ احمد شاکر نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین کاموں کا حکم دیا اور تین کاموں سے منع فرمایا:
روزانہ چاشت کی دورکعتوں، سونے سے قبل وتر ادا کرنے اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کا حکم دیا اور مرغ کی طرح ٹھونک مارنے ، کتے کی طرح بیٹھنے اور لومڑ کی طرح اردگرد مڑ کر دیکھنے سے منع فرمایا۔
● رکوع اور سجدے میں حتی الوسع دعا کیا کرو
حدیث 7:
﴿وعن ابن عباسؓ قال: كشف رسول الله ﷺ الستارة، والناس صفوف خلف أبى بكر فقال: أيها الناس إنه لم يبق من مبشرات النبوة إلا الرؤيا الصالحة ، يراها المسلم أو ترى له ، ألا وإنى نهيت أن أقرأ القرآن راكعا أو ساجدا ، فأما الركوع فعظموا فيه الرب عزوجل ، وأما السجود فاجتهدوا فى الدعاء فقمن أن يستجاب لكم .﴾
صحيح مسلم ، کتاب الصلاة، رقم : 1074 .
اور حضرت ابن عباسؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دروازے کا پردہ اٹھایا اور لوگ ابوبکر کے پیچھے صفوں میں کھڑے تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! نبوت کی بشارتوں سے اب صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں، جو خود مسلمان دیکھے گا، یا اس کے بارے میں دوسرے کو دکھایا جائے گا، خبر دار مجھے رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآن پڑھنے سے روک دیا گیا ہے، رہا رکوع تو اس میں اپنے رب کی عظمت و کبریائی بیان کرو اور رہا سجدہ تو اس میں خوب دعا کیا کرو، وہ مقام قبولیت کے لائق تر ہے۔
● دعا میں انہماک پیدا کرو
حدیث 8:
﴿وعن أبى هريرةؓ ، عن النبى ﷺ قال: أتحبون أيها الناس أن تجتهدوا فى الدعاء؟ قولوا: اللهم أعنا على شكرك وذكرك وحسن عبادتك .﴾
مسند احمد : 299/2۔ احمد شاکر نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اے لوگو! کیا تم چاہتے ہو کہ دعا میں انہماک پیدا کرو؟ تو کہا کرو:
اے اللہ ! اپنا شکر کرنے، اپنا ذکر کرنے اور اپنی اچھی عبادت کرنے پر ہماری مدد فرما۔
● اللہ ہی سے مدد مانگو اور اسی پر بھروسہ کرو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴾
﴿التوبة : 129﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
پھر بھی اگر وہ پھریں تو کہہ دیجیے:
مجھے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔
حدیث 9:
﴿وعن أبى سعيدؓ قال: قال رسول الله ﷺ: كيف أنعم وصاحب القرن قد التقم القرن، واستمع الإذن ، متى يؤمر بالنفخ فينفخ ؟ فكأن ذلك ثقل على أصحاب النبى ﷺ فقال لهم: قولوا: حسبنا الله ونعم الوكيل ، على الله توكلنا .﴾
سنن الترمذی، ابواب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم : 2431، سلسلة الصحيحة، رقم : 2079.
اور حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں کیسے سکون سے رہ سکتا ہوں جبکہ صور پھونکنے والا فرشتہ اللہ کے حکم کا منتظر ہے اور اس نے اپنا منہ صور پر رکھا ہوا ہے کہ کب اسے حکم دیا جائے اور وہ صور پھونک دے؟ یہ بات صحابہ کرام پر بڑی گراں گزری تو آپ ﷺ ہم نے ان سے کہا:
تم یہ کہا کرو:
ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے، ہم اللہ ہی پر تو کل کرتے ہیں۔
● چھوٹا عمل کرو بڑا اجر پاؤ
حدیث 10:
﴿وعن أم هانيؓ قالت: أتيت إلى رسول الله ﷺ فقلت: يا رسول الله، دلني على عمل فإني قد كبرت وضعفت وبدنت ، فقال: كبرى الله مائة مرة ، واحمدى الله مائة مرة ، واحمدي الله مائة مرة، خير من مائة فرس ملجم مسرج فى سبيل الله ، وخير من مائة بدنة ، وخير من مائة رقبة .﴾
سنن ابن ماجة ، كتاب الأدب، رقم : 3810 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 3810.
اور حضرت ام ہانیؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! مجھے کوئی آسان سا عمل بتادیں کیونکہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں اور کمزور ہوں اور میرا بدن بھی بھاری ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
سو دفعہ اَللَّهُ أَكْبَرُ، سو دفعہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ، سو دفعہ سُبْحَانَ اللهِ کہا کر۔ یہ عمل اللہ کے راستے میں سو گھوڑے لگام اور زین سمیت وقف کرنے سے بہتر ہے اور سو اونٹ قربان کرنے سے بہتر ہے اور سو غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے۔
● اپنی زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رکھو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴾
﴿العنكبوت : 45﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور بلا شبہ اللہ کا ذکر تو سب سے بڑی چیز ہے، اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
حدیث 11:
﴿وعن عبد الله بن بسرؓ أن رجلا قال: يا رسول الله ، إن شرائع الإسلام قد كثرت على فأخبرني بشيء أتشبت به ، قال: لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله﴾
سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم : 3375 ، سنن ابن ماجة، رقم : 3793- محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اور حضرت عبد اللہ بن بسرؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا:
یارسول اللہ ! میرے اوپر اسلام کی نفلی عبادتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں، لہٰذا مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس پر ہمیشگی اختیار کروں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہنی چاہیے۔
● موت کو یا درکھو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾
﴿آل عمران : 185﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ہر کوئی موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔‘‘
حدیث 12:
﴿وعن الطفيل بن أبى بن كعب عن أبيهؓ قال: كان رسول الله ﷺ إذا ذهب ثلنا الليل قام فقال: يا أيها الناس اذكروا الله اذكروا الله، جاءت الراجفة، تتبعها الرادفة جاء الموت بما فيه ، جاء الموت بما فيه .﴾
سنن الترمذی، ابواب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم : 2457، سلسلة الصحيحة، رقم : 954 .
اور حضرت طفیل اپنے والد ابی بن کعبؓ سے بیان کرتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ ﷺ اٹھ جاتے اور کہتے :
اے لوگو! اللہ کا ذکر کرو، اللہ کا ذکر کرو، قیامت عنقریب قائم ہونے والی ہے، جو بھی زمین میں ہے وہ مرنے والا ہے، جو بھی زمین میں ہے وہ مرنے والا ہے۔
● صدقہ پاکیزہ مال کا کرو
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُم إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾
﴿البقرة : 172﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں رزق کے طور پر دی ہیں اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘
حدیث 13:
﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا ، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين فقال: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ﴾
﴿المؤمنون : 51﴾
وَقَالَ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾
﴿البقرة : 172﴾
﴿ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء: يا رب يا رب، ومطعمه حرام ، ومشربه حرام ، وملبسه حرام، وغذي بالحرام ، فأنى يستجاب لذلك؟﴾
صحیح مسلم، کتاب الزكاة، رقم : 2346.
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو، یقیناً جو تم کرتے ہو، میں اسے خوب جاننے والا ہوں ۔‘‘
اور فرمایا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں اور اللہ کا شکر کرو، اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو ۔‘‘
پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال، اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا ہے (کہتا ہے) اے میرے رب ! اے میرے رب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور وہ حرام ہی سے پرورش کیا گیا ہے۔ پس کیسے اس کی دعا قبول کی جائے ؟
● مومن آدمی سے دوستی رکھو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ﴾
﴿الزخرف : 67﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ ۔‘‘
حدیث 14:
﴿وعن أبى سعيد عن النبى ﷺ قال: لا تصاحب إلا الله مؤمنا، ولا يأكل طعامك إلا تقي .﴾
سنن أبى داؤد، كتاب الأدب، رقم : 4832، سنن ترمذی، رقم : 2519- محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تو صرف مومن کو ساتھی بنا اور تیرا کھانا صرف نیک لوگ کھائیں۔
● غصہ ختم کرنے کی وصیت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾
﴿آل عمران : 134﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (مومن) غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہیں۔ اور اللہ نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
حدیث 15:
﴿وعن أبى هريرة أن رجلا قال للنبي : أوصني قال: والله لا تغضب فردد مرارا، قال: لا تغضب .﴾
صحیح بخاری ، كتاب الأدب، رقم : 6116 .
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت کریں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
غصہ نہ کرو، پھر اس نے بار بار پوچھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
غصہ نہ کیا کرو۔
● زبان کی حفاظت کرو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
﴿النور : 24﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پیران کے خلاف، ان اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔‘‘
حدیث 16:
﴿وعن عقبة بن عامرؓ قال: قلت: يا رسول الله ما الله النجاة؟ قال : أمسك عليك لسانك ، وليسعك بيتك ، وابك على خطيئتك .﴾
سنن الترمذی ، ابواب الزهد، رقم : 2406 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 888 .
اور حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا:
یا رسول اللہ ! نجات کس چیز میں ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھ اور اپنے لیے اپنے گھر کو کافی سمجھ اور اپنی غلطیوں (گناہوں) پر رویا کر۔
● فضول کاموں کو چھوڑو
حدیث 17:
﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه .﴾
سنن الترمذي، أبواب الزهد، رقم : 2317 ، سنن ابن ماجة، رقم : 3976- محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
آدمی کے اسلام کی خوبی ہے کہ ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے کام کی نہیں ہیں ۔
● نکاح کی ترغیب
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾
﴿النساء : 3﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پس ان عورتوں میں سے جو تمھیں اچھی لگیں نکاح کرو۔‘‘
حدیث 18:
﴿وعن عبد الله بن مسعودؓ قال: كنا مع النبى ﷺ شبابا لا نجد شيئا، فقال لنا رسول الله : يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج ، فإنه أغض للبصر ، وأحصن للفرج ، ومن لم يستطع فعليه بالصوم ، فإنه له وجاء .﴾
صحيح البخارى، كتاب النكاح رقم : 5066 ، صحیح مسلم، رقم : 3400 .
اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی ۔ نبی اکرم ﷺ نے ہم سے ارشاد فرمایا:
نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہوا سے نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔
● کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اہل بیت کا احترام کرو
حدیث 19:
﴿وعن زيد بن أرقمؓ قال: قام رسول الله ﷺ يوما فينا خطيبا بماء يدعى خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنى عليه، ووعظ ، وذكر ، ثم قال: أما بعد ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يوشك أن يأتى رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما: كتاب الله ، فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به . فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال: وأهل بيتى أذكركم الله فى أهل بيتي ، أذكركم الله فى أهل بيتي، أذكركم الله فى اهل بيتى .﴾
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6225.
اور حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن خم نامی ہمیں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور وعظ ونصیحت فرمائی، پھر ارشاد فرمایا:
حمد وثناء کے بعد، اے لوگو! سنو! میں بس ایک انسان ہوں، قریب ہے کہ اللہ کا ایلچی (موت کا فرشتہ) میرے پاس آ جائے اور میں اس کو لبیک کہوں، میں تم میں دو بڑی رحم اور عظمت والی چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں پہلی اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور روشنی ہے، سو اللہ کی کتاب کی پابندی کرنا اور اس کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ تو آپ نے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے پر آمادہ کیا اور اس کی ترغیب دلائی، پھر فرمایا:
اور میرا خاندان میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں تو حصین نے ان سے پوچھا، آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ اے زید! کیا آپ کی بیویاں، آپ کے اہل بیت میں داخل نہیں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، آپ کی بیویاں، آپ کا اہل بیت ہیں، لیکن ( یہاں ) آپ کے اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں، جو آپ کے بعد صدقہ سے محروم ہو گئے ہیں، حصین نے پوچھا، وہ کون ہیں؟ جواب دیا ، وہ حضرت علی کی اولاد، عقیل کی اولاد، جعفر کی اولاد اور عباس کی اولاد ہیں، حصین نے پوچھا، یہ سب صدقہ سے محروم ہیں؟ جواب دیا، ہاں۔
● اتباع سنت کی وصیت
حدیث 20:
﴿وعن عبد الرحمن بن عمرو السلمي وحجر بن حجر قالا: أتينا العرباض بن سارية ، وهو ممن نزل فيه: وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ﴾
﴿التوبة : 92﴾
﴿فسلمنا ، وقلنا: أتيناك زائرين وعائدين ومقتبسين ، فقال العرباض: صلى بنا رسول الله ﷺ ذات يوم ، ثم أقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال قائل: يا رسول الله ، كأن هذه موعظة مودع! فماذا تعهد إلينا ؟ فقال: أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة، وإن عبدا حبشيا، فإنه من يعش منكم بعدى فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين ، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجد ، وإياكم ومحدثات الأمور؛ فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة .﴾
سنن أبى داؤد، كتاب السنة، رقم : 4607 ، سنن ابن ماجة ، رقم : 42، سنن ترمذی، رقم : 3676۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت عبد الرحمٰن بن عمر و السلمی اور حضرت حجر بن حجر فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عرباض بن ساریہؓ کے پاس آئے اور عرباضؓ ان صحابہ میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی :
﴿وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ﴾
﴿التوبة : 92﴾
سلام کے بعد ہم نے کہا:
ہم آپ کی زیارت کرنے ، حال پوچھنے اور دین کے بارے میں کچھ حاصل کرنے آئے ہیں۔ حضرت عرباضؓ نے جواب دیا:
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ ﷺ نے ہمیں نصیحت آموز وعظ کیا، جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور دل (اللہ کے خوف سے) ڈرنے لگے۔ ایک آدمی نے کہا:
اے اللہ کے رسول ! یہ تو ایسی باتیں ہیں جنہیں کوئی الوداع کرتے وقت کہتا ہے، پس آپ ہم سے کیا عہد و پیمان لیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اطاعت وفرمانبرداری کی وصیت کرتا ہوں، اگر چہ (تمہارا امیر ) کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ پس میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس (اس وقت) تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اسے مضبوطی سے تھام لینا اور اپنی ڈاڑھوں سے پکڑ لینا اور نئے نئے کاموں سے پر ہیز کرنا، اس لیے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
● ایک عظیم الشان وصیت
حدیث 21:
﴿وعن أبى ذرؓ ، قال: أمرني خليلي ﷺ بسبع : أمرني بحب المساكين والدنو منهم ، وامرنى ان انظر إلى من هو دونى ولا أنظر إلى من هو فوقى ، وأمرنى ان اصل الرحم وان ادبرت ، وأمرنى أن لا أسأل أحدا شيئا ، وأمرني أن أقول بالحق وإن كان مرا ، وامرنى أن لا أخاف فى الله لومة لائم ، وامرني أن أكثر من قول لا حول ولا قوة إلا بالله فانهن من كنز تحت العرش .﴾
مسند أحمد : 159/5 – شیخ حمزہ زین نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔
’’اور حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:
میرے خلیل نے مجھے سات چیزوں کا حکم دیا، آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں مسکینوں سے محبت کروں اور ان کے قریب ہوا کرو، آپ ﷺ مجھے حکم دیا کہ میں اپنے سے کم تر افراد کی طرف دیکھوں اور اپنے سے اوپر والے کی طرف نہ دیکھوں، آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں صلہ رحمی کروں، اگر چہ وہ پیٹھ پھیر رہی ہو، آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ کسی سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ حق کہوں، اگر چہ وہ کڑوا ہو، آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں اور آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں کثرت سے ’’لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ‘‘ کا ذکر کروں، کیونکہ یہ عرش کے نیچے موجود ایک خزانے میں سے ہیں۔
● اللہ سے ڈرنے اور حسن اخلاق کی وصیت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾
﴿البقرة : 83﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔‘‘
حدیث 22:
﴿وعن أبى ذرؓ قال: قال لي رسول الله : اتق الله حيثما كنت، وأتبع السيئة الحسنة تمحها ، وخالق الناس بخلق حسن﴾
سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، رقم : 1987 ، المشكاة، رقم : 5083 – محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
اور حضرت ابو ذرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تو جہاں بھی رہے اللہ سے ڈر، برائی کے پیچھے نیکی کو لگا، یہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔
● سچائی کی ترغیب
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا﴾
﴿النساء : 69﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے، تو وہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، (یعنی) انبیاء، صدیقین، شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ ، اور یہ لوگ اچھے رفیق ہوں گے۔
حدیث 23:
﴿وعن عبد الله بن مسعودؓ قال: قال رسول الله ﷺ: عليكم بالصدق، فإن الصدق يهدي إلى البر ، وإن البر يهدى إلى الجنة ، وما يزال الرجل يصدق، ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا ، وإياكم والكذب ، فإن الكذب يهدى إلى الفجور ، وإن الفجور يهدى إلى النار ، وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا .﴾
صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة، رقم : 6639.
اور حضرت عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ سچائی نیکی و وفاداری کے راستے پر ڈال دیتی ہے اور نیک کرداری جنت تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی ہی کو اختیار کر لیتا ہے، حتی کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور تم جھوٹ بولنے سے بچتے رہے، کیونکہ جھوٹ بدکاری کے راستے پر ڈال دیتا ہے اور بدکرداری دوزخ تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کو اختیار کر لیتا ہے، حتی کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
● مصیبت کے وقت صبر کرو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾﴾
﴿البقرة : 155 تا 157﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور ہم تمھیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کر کے ضرور آزمائیں گے۔اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کی طرف بخشش اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
حدیث 24:
﴿وعن عائشةؓ قالت: فتح رسول الله بابا بينه وبين الناس ، أو كشف سترا فإذا الناس يصلون وراء أبى بكر فحمد الله على ما رأى من حسن حالهم رجاء أن يخلفه الله فيهم بالذى رآهم فقال: يا أيها الناس ، أيما أحد من الناس أو من المؤمنين أصيب بمصيبة فليتعز بمصيبته بى عن المصيبة التى تصيبه بغيرى ، فإن أحدا من أمتي لن يصاب بمصيبة بعدى أشد عليه من مصيبتي .﴾
سنن ابن ماجه کتاب الجنائز، رقم : 1599 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1106 .
اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ (مرض الموت میں) رسول اللہ ﷺ نے اپنے اور لوگوں کے درمیان حائل ایک دروازہ کھولا یا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ لوگ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے ہیں ۔ آپ ﷺ نے ان کا عمدہ حال دیکھ کر اللہ کی حمد بیان کی اور امید ظاہر کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ان میں اسی حالت پر برقرار رکھیں۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! لوگوں میں سے یا مومنوں میں سے جس آدمی کو کوئی تکلیف پہنچے وہ میری تکلیف کو یاد کر کے صبر کرے، میرے بعد میری امت میں سے کسی کو بھی میرے جیسی سخت مصیبت نہیں آئے گی۔
● حقیقی غنا طلب کرو
حدیث 25:
﴿وعن أبى هريرةؓ ، أن رسول الله ﷺ قال: يا أيها الناس ، إن الغنى ليس عن كثرة العرض ، ولكن الغنى غنى النفس ، وإن الله عزوجل يوفي عبده ما كتب له من الرزق فأجملوا فى الطلب، خذوا ما حل ، ودعوا ما حرم .﴾
مسند ابو یعلی، رقم : 6583۔ محقق نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! زیادہ مال و متاع والا شخص غنی نہیں ہوتا، بلکہ غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہوتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے لیے جو رزق لکھا ہے وہ پورے کا پورا اسے دے گا، پس تم میانہ روی اور اچھے طریقے کے ساتھ اسے طلب کرو، جو حلال ہے اسے لے لو اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو۔
● جولوگوں کے پاس ہے، اس کی طرف مت دیکھو
حدیث 26:
﴿وعن سعد بن أبى وقاصؓ قال: جاء رجل إلى النبى ﷺ فقال: يا رسول الله أوصني وأوجز، فقال له النبى ﷺ عليك بالإياس مما فى أيدي الناس﴾
مستدرك حاكم : 362/4- حاکم نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو اس نے کہا:
یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کوئی مختصر وصیت کریں۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا:
تو اس چیز سے لاتعلق ہو جا جو لوگوں کے پاس ہے۔
● دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو
حدیث 27:
﴿وعن سهل بن سعد الساعديؓ قال: أتى النبى ﷺ رجل ، فقال: يا رسول الله ! دلنى على عمل إذا أنا عملته أحبني الله وأحبني الناس فقال رسول الله ﷺ: أزهد فى الدنيا يحبك الله ، وازهد فيما فى أيدى الناس يحبوك .﴾
سنن ابن ماجة، كتاب الذهد، رقم : 4102 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 944.
اور حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جب میں اس پر عمل پیرا ہو جاؤں تو اللہ مجھ سے محبت کرنے لگ جائے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کرنے لگیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دنیا سے بے رغبت ہو جا تو اللہ تجھ سے محبت کرنے لگیں گے اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے، اس سے منہ موڑ لے تو لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔
● سادگی اختیار کرو
حدیث 28:
﴿وعن معاذ بن جبل ، أن رسول الله ﷺ لما بعث به إلى اليمن قال: إياك والتنعم ، فإن عباد الله ليسوا بالمتنعمين﴾
مسند احمد : 244/5۔ شیخ حمزہ زین نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان کو یمن کی طرف روانہ کیا تو ارشاد فرمایا:
بہت زیادہ عیش و عشرت کی زندگی سے بچنا، کیونکہ اللہ کے بندے (دنیاوی) ناز و نعمت والے نہیں ہوتے ۔
● مانت لٹا ؤ خیانت نہ کرو
حدیث 29:
﴿وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله : أد الأمانة إلى من انتمنك ، ولا تخن من خانك .﴾
سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، رقم : 3535 – محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو تجھے امانت دے اس کی امانت کو اسی طرح لوٹاؤ، اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر ۔
● دنیا میں اجنبی اور مسافر کی طرح رہو
حدیث 30:
﴿وعن عبد الله بن عمرؓ قال: أخذ رسول الله ﷺ بمنكبي فقال: كن فى الدنيا كأنك غريب ، أو عابر سبيل .﴾
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم : 6416.
اور حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے کندھے کو پکڑا اور ارشاد فرمایا:
دنیا میں ایک اجنبی اور راہ چلتے ہوئے مسافر کی طرح رہو۔
● طلبائے علم سے حسن سلوک سے پیش آؤ
حدیث 31:
﴿وعن أبى سعيد الخدريؓ عن رسول الله ﷺ قال: سيأتيكم أقوام يطلبون العلم ، فإذا رأيتموهم فقولوا لهم: مرحبا مرحبا بوصية رسول الله ﷺ واقنوهم قلت للحكم ما اقنوهم؟ قال: علموهم .﴾
سنن ابن ماجه ، المقدمة، رقم : 247 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 280.
اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عنقریب تمہارے پاس لوگ آئیں گے جو علم حاصل کرنا چاہیں گے۔ جب تم ان کو دیکھو تو انہیں خوش آمدید کہو، اور رسول اللہ ﷺ کی وصیت کی وجہ سے ان کو قابل ذخیرہ چیز دے دو۔ راوی کہتے ہیں: میں نے حکم سے پوچھا کہ ان کو کون سی چیز دیں تو فرمایا: علم ۔
● پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ﴾
﴿ابراهیم : 34﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو انھیں شمار نہ کر سکو گے۔ بے شک انسان بڑا ظالم، نہایت ناشکرا ہے۔‘‘
حدیث 32:
﴿وعن عبد الله بن عباسؓ قال: قال رسول الله ﷺ لرجل وهو يعظه: اغتنم خمسا قبل خمس؛ شبابك قبل هرمك ، وصحتك قبل سقمك ، وغناك قبل فقرك ، وفراغك قبل شغلك ، وحياتك قبل موتك .﴾
مستدرك الحاكم : 341/4۔ حاکم نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، فقیری سے پہلے آسودہ حالی کو مشغولیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو ۔
● ان کلمات کو مضبوطی سے پکڑ لو
حدیث 33:
﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: من يأخذ عني هؤلاء الكلمات فيعمل بهن، أو يعلم من يعمل بهن؟ فقال أبو هريرة: فقلت: أنا يا رسول الله ، فأخذ بيدى فعد خمسا وقال: اتق المحارم تكن أعبد الناس ، وارض بما قسم الله لك تكن أغنى الناس ، وأحسن إلى جارك تكن مؤمنا ، وأحب للناس ما تحب لنفسك تكن مسلما، ولا تكثر الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب .﴾
سنن الترمذى، ابواب الزهد، رقم : 2305 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 930.
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کون مجھ سے یہ کلمات لے گا اور ان پر عمل کرے گا یا آگے اس کو سکھائے گا جو ان پر عمل کرنے والا ہو؟ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ! میں تیار ہوں۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ چیزوں کو شمار کیا اور ارشاد فرمایا:
حرام چیزوں سے بچ ، تو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں جو لکھا ہے اس پر راضی ہو جا تو لوگوں میں سب سے زیادہ غنی ہو جائے گا۔ اپنے ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ تو مومن بن جائے گا تو لوگوں کے لیے بھی وہی پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے تو مسلمان بن جائے گا اور زیادہ ہنسا نہ کر اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔
● غلو سے بچو
حدیث 34:
﴿وعن عبد الله ابن عباسؓ ، عن النبى ﷺ أنه قال: يا أيها الناس إياكم والغلو فى الدين ؛ فإنه أهلك من كان قبلكم الغلو فى الدين .﴾
سنن ابن ماجه ، كتاب المناسك، رقم : 3029 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1283۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! دین میں غلو اختیار کرنے سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
● سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا﴾
﴿النساء : 10﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد دہکتی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘
حدیث 35:
﴿وعن أبى هريرةؓ عن النبى ﷺ قال: اجتنبوا السبع الموبقات ، قالوا: يا رسول الله وما هن؟ قال: الشرك بالله . والسحر ، وقتل النفس التى حرم الله إلا بالحق ، وأكل الربا وأكل مال اليتيم ، والتولى يوم الزحف ، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات .﴾
صحیح بخاری، کتاب الوصايا ، رقم : 2766 ، صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم :262۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں، بچتے رہو۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھایا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، جادو کرنا، کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا ، لڑائی میں سے بھاگ جانا، پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔
● کبیرہ گناہوں سے بچو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرَى اِثْمًا عَظِيمًا﴾
﴿النساء : 48﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ (یہ گناہ) نہیں بخشا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اس نے جھوٹ گھڑا اور بڑے گناہ کا کام کیا۔‘‘
حدیث 36:
﴿وعن أبى الدرداءؓ قال: أوصاني خليلي ﷺ: أن لا : تشرك بالله شيئا وإن قطعت وحرقت، ولا تترك صلاة مكتوبة متعمدا ، فمن تركها متعمدا فقد برئت منه الدمة ، ولا تشرب الخمر فإنها مفتاح كل شر .﴾
سنن ابن ماجه كتاب الفتن، رقم : 4034 ، المشكاة ، رقم : 57 – محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابوالدرداءؓ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے دلی دوست حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی :
تو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، اگر چہ تجھے کاٹ دیا جائے یا جلا دیا جائے اور فرضی نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑنا، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر فرضی نماز چھوڑی اس سے (اللہ کی حفاظت کا) ذمہ ختم ہو جاتا ہے اور شراب نہ پینا اس لیے کہ وہ ہر برائی کی چابی ہے۔
● بغض مت رکھو
حدیث 37:
﴿وعن أبى هريرة أن النبى ﷺ قال: إياكم وسوء ذات البين فإنها الحالقة .﴾
سنن الترمذى، ابواب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم : 2508، المشكاة، رقم :5041 – محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایک دوسرے سے دشمنی اور بغض رکھنے سے بچو اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں باہمی قطع تعلقی کر دیتی ہیں یا اجر و ثواب مٹا دیتی ہیں۔
● مظلوم کی بددعا سے بچو
حدیث 38:
﴿وعن أنس بن مالكؓ يقول: قال رسول الله ﷺ: إياكم ودعوة المظلوم ، وإن كان كافرا ، فإنه ليس لها حجاب دون الله .﴾
صحيح الجامع الصغير ، رقم : 2682 .
اور حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مظلوم کی بددعا سے بچو اگر چہ وہ کا فر ہی ہو، اس لیے کہ مظلوم کی پکار اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
● راستے کے آداب کا لحاظ رکھو
حدیث 39:
﴿وعن جابر بن عبد اللهؓ قال: قال رسول الله ﷺ: إياكم والتعريس على جواد الطريق، والصلاة عليها، فإنها مأوى الحيات والسباع ، وقضاء الحاجة عليها فإنها من الملاعن .﴾
سنن ابن ماجة المقدمة، رقم : 329 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2433.
اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
راستے کے درمیان رات کے وقت پڑاؤ ڈالنے اور نماز پڑھنے سے بچو اس لیے کہ وہ سانپوں اور درندوں کا ٹھکانہ ہے اور راستے میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے بچو کیونکہ یہ لعنت کا سبب بنتا ہے۔
● بدگمانی سے بچو
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ﴾
الحجرات : 12﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جب کہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے نا پسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت تو بہ قبول کرنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
حدیث 40:
﴿وَعَنْ أبى هريرةؓ عن النبى ﷺ قال: إياكم والظن ، فإن رضى الله الظن أكذب الحديث، ولا تجسسوا ولا تحسسوا، ولا تباغضوا ، وكونوا إخوانا.﴾
صحیح بخاری، کتاب النکاح رقم : 5143 ، صحیح مسلم، كتاب البر والصلة رقم : 6536.
اور حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور لوگوں کے رازوں کی کھود کرید نہ کیا کرو اور نہ (لوگوں کی نجی گفتگوؤں کو) کان لگا کرسنو ، آپس میں دشمنی نہ پیدا کرو بلکہ بھائی بھائی بن کر رہو۔
● جھوٹی حدیث بنانے کا انجام
حدیث 41:
﴿وعن أبى قتادةؓ ، قال : سمعت رسول الله ﷺ يقول على هذا المنبر: إياكم وكثرة الحديث عني ، فمن قال على فليقل حقا أو صدقا، ومن تقول على ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار .﴾
سنن ابن ماجة المقدمة، رقم : 35 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1753 .
اور حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
میری طرف سے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے بچو۔ جو کوئی میری طرف سے کوئی بات کرے، پس وہ حق اور سچ بات کرے اور جس نے میری طرف سے کوئی ایسی بات کی جو میں نے نہ کہی تھی تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھنا چاہیے۔
وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلى خَيْرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِيْنَ