قرآن کریم کی روشنی میں
قرآن مجید میں روزے کے احکام بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ
(سورۃ البقرہ: 187)
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ کھانے اور پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اس میں ناک میں دوا ڈالنے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں
1. ناک میں پانی ڈالنے کی احتیاط
حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
وَبَالِغْ فِي الْإِسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا
(سنن أبو داود: 142، ترمذی: 788، ابن ماجہ: 407)
یعنی: "وضو میں ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو، سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو۔”
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ناک کے ذریعے کوئی چیز جسم میں داخل ہونے کا امکان ہو تو احتیاط برتنا ضروری ہے۔
2. جسم میں داخل ہونے والی چیز سے روزہ ٹوٹنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إنما الفطر مما دخل وليس مما خرج
(سنن الدارقطني: 2/185، رقم: 2196)
یعنی: "روزہ انہی چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو جسم میں داخل ہوں، نہ کہ ان چیزوں سے جو جسم سے خارج ہوں۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اگر کوئی چیز ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہو جائے، تو روزہ متاثر ہو سکتا ہے۔
اجماعِ صحابہ و تابعین
صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے میں ناک میں دوائی ڈالنے کے مسئلے پر زیادہ بحث نہیں ہوئی، تاہم وضو میں ناک میں پانی ڈالنے کے حوالے سے احتیاطی رویہ اپنانے پر زور دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ناک کے ذریعے کسی چیز کے اندر جانے کے امکان کو حساس معاملہ سمجھتے تھے۔
چاروں ائمہ کرام کے اقوال
1. امام ابوحنیفہؒ
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اگر کوئی چیز ناک کے ذریعے حلق تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
علامہ ابن عابدینؒ فرماتے ہیں:
وَيُفَطِّرُ بِكُلِّ مَا وَصَلَ جَوْفَهُ، سَوَاءٌ كَانَ مِنْ مَنْفَذٍ طَبِيعِيٍّ أَوْ غَيْرِهِ
(رد المحتار، 2/98)
یعنی: "جو بھی چیز جسم کے اندر پہنچ جائے، وہ روزہ توڑ دیتی ہے، خواہ وہ قدرتی راستے (منہ، ناک) سے ہو یا کسی اور راستے سے۔”
2. امام مالکؒ
امام مالکؒ کے نزدیک اگر کوئی چیز ناک کے ذریعے معدہ تک پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔
امام ابن رشدؒ لکھتے ہیں:
إذا وصل الدواء إلى الحلق أفطر الصائم عند مالك
(بداية المجتهد، 1/382)
یعنی: "اگر دوائی حلق تک پہنچ جائے تو امام مالکؒ کے نزدیک روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔”
3. امام شافعیؒ
امام شافعیؒ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی چیز ناک کے ذریعے معدہ تک پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
إذا أدخل الصائم الدواء في أنفه فوصل إلى حلقه بطل صومه عند الشافعي
(المجموع، 6/317)
4. امام احمد بن حنبلؒ
امام احمدؒ کے نزدیک بھی اگر ناک کے ذریعے کوئی چیز اندر چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
وإن أوصل الماء إلى حلقه من أنفه أفطر
(المغني، 3/126)
نتیجہ اور شرعی حکم
ناک میں دوائی ڈالنے کے متعلق فقہاء کی رائے درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کی جا سکتی ہے:
✿ اگر دوائی ناک میں ڈالنے سے حلق تک پہنچ جائے، تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
✿ اگر دوائی ناک کی اندرونی سطح پر ہی رہے اور حلق میں داخل نہ ہو، تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
✿ احتیاطی تدبیر کے طور پر روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنے سے گریز کرنا بہتر ہے۔
✿ اگر بیماری کی شدت کے سبب دوائی لینا ناگزیر ہو، تو شام کے وقت یا سحری سے پہلے دوا کا استعمال کیا جائے۔
✿ اگر بیماری ایسی ہو کہ بغیر دوا کے گزارا نہ ہو، تو شریعت میں دو حل موجود ہیں:
➊ بعد میں قضا روزہ رکھنا (جب بیماری ختم ہو جائے)
➋ اگر صحت یابی کی امید نہ ہو، تو فدیہ دینا
یہ مکمل اور تحقیقی جواب قرآن، حدیث، اجماعِ صحابہ و تابعین، اور چاروں ائمہ کے اقوال کی روشنی میں مستند طور پر پیش کیا گیا ہے۔