نافرمان اولاد کو وراثت سے محروم کرنا حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک آدمی بوجہ نافرمانی اپنے بیٹے کو اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائداد سے محروم کرتے ہوئے اپنی جائداد و دیگر اولاد میں تقسیم کر دیتا ہے اور نافرمان بیٹے سے لا تعلقی کا اظہار کرتا ہے، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

جواب :

انسان کی جائداد جو وفات کے بعد تقسیم کی جاتی ہے، اسے وراثت و ترکہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جو وہ اپنی زندگی میں تقسیم کرتا ہے، اسے ہبہ کہا جاتا ہے۔ وراثت سے محرومی نافرمانی کی بنا پر نہیں ہو سکتی۔ وراثت سے محرومی یا تو باپ اور بیٹے کے ادیان مختلف ہونے سے ہے، جیسے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دو مختلف دینوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ “
(مسند احمد 2/178 ح 6664، ابو داؤد کتاب الفرائض، باب هل یرث المسلم الكافر ح 2911)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل(120/6-121) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يرث المسلم الكافر ولا يرث الكافر المسلم
(بخاری کتاب الفرائض، باب لا یرث المسلم الكافر الخ ح 6764، مسلم کتاب الفرائض، باب لا یرث المسلم الكافر الخ ح 1614)
اسی طرح قاتل مقتول کا وارث نہیں بنے گا، عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قاتل کسی بھی چیز کا وارث نہیں بنے گا۔ “
(ابو داؤد کتاب الدیات، باب دیات الأعضاء ح 4564، نسائی 42/8)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو قوی قرار دیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1681) میں صحیح قرار دیا ہے۔
نافرمان اولاد کو وراثت سے محروم کرنے کی کوئی بھی دلیل راقم کے علم میں نہیں۔ یہ بات بالکل صحیح و درست ہے کہ اولاد کو اپنے والدین کی خدمت کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور نافرمان اولاد کو وعظ و نصیحت اور مختلف مناسب طریقوں سے سمجھانا چاہیے، تا کہ اولاد نافرمانی سے باز رہے اور جو شخص مال اپنی اولاد میں خود تقسیم کرے اس میں انصاف لازم ہے۔ اگر ایک یا دو بیٹوں کو کچھ مال دیا ہے تو باقی اولاد کو بھی اس طرح دے، وگرنہ دوسروں سے بھی واپس لے لے۔ جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انھیں ایک غلام دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اس کی مثل اپنی ساری اولاد کو دیا ہے؟ “انہوں نے کہا: ”نہیں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو واپس لے لو۔“
(بخاری کتاب الھبة وفضلھا والتحریض علیھا، باب الھبة للولد ح 2586، مسلم ح 1623)
صحیح مسلم (1623/13) میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل سے کام لو۔ “ تو میرے باپ نے اس صدقہ سے رجوع کر لیا۔ اسی طرح صحیح بخاری (2578) میں صدقہ کے بجائے عطیہ کا ذکر ہے۔ نیز مسند احمد (468/4) میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ، بلاشبہ تیری اولاد کا تیرے اوپر حق ہے کہ تو ان کے درمیان عدل سے کام لے۔“
اسی طرح مسند احمد (275/4، 278)، ابو داؤد (3544) اور نسائی (3717) میں یوں الفاظ ہیں کہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے بیٹوں کے درمیان عدل سے کام لو۔“
صحیح مسلم (1644/19) میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہا: ”میرے بیٹے کو ایک غلام دو اور میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لو“ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ”بے شک فلاں کی بیٹی نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام دے دوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس لڑکے کے اور بھائی ہیں؟“ تو انہوں نے کہا: ”ہاں!“ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے جو اس کو دیا ہے اس کی مثل ان سب کو دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: ”نہیں!“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ درست نہیں ہے اور میں صرف حق بات ہی پر گواہی دیتا ہوں۔“
مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہو گیا ہے کہ والد اپنی زندگی میں جو عطیات و ہدایا اپنی اولاد کو دے گا وہ سب میں برابر عدل و انصاف سے تقسیم کرے گا، بعض اولاد کو محروم رکھنا اور بعض کو دینا ظلم ہے۔ ایسے قضیے اور معاملے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت و گواہی نہیں دی۔ لہذا یہ شرعی احکامات مد نظر رکھنے چاہئیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں اپنی اولاد کی تربیت ابتدائی سے صحیح مسلک پر کرنی چاہیے، تا کہ وہ بڑے ہو کر والدین کے فرماں بردار بن سکیں اور والدین کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے