نابالغ بچہ کی امامت میں نماز صحیح احادیث کے مطابق درست ہے
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

سوال:

اگر کوئی نابالغ بچہ حافظِ قرآن ہو اور حاضرین میں اس سے زیادہ قرآن جاننے والا بالغ نہ ہو، تو کیا وہ امامت کر سکتا ہے؟

جواب:

اہلِ حدیث اور جمہور محدثین کے نزدیک ایسا نابالغ بچہ، اگر صحیح العقیدہ ہو، تو وہ فرض نماز اور تراویح کی امامت کر سکتا ہے۔

✦ دلیل نمبر 1: حدیثِ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ

حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عمرو بن سلمة، قال: قال لي: ابو قلابة الا تلقاه فتساله، قال: فلقيته، فسالته، فقال:” كنا بماء ممر الناس، وكان يمر بنا الركبان، فنسالهم: ما للناس، ما للناس، ما هذا الرجل؟ فيقولون: يزعم ان الله ارسله اوحى إليه، او اوحى الله بكذا، فكنت احفظ ذلك الكلام وكانما يقر في صدري، وكانت العرب تلوم بإسلامهم الفتح، فيقولون: اتركوه وقومه، فإنه إن ظهر عليهم فهو نبي صادق، فلما كانت وقعة اهل الفتح بادر كل قوم بإسلامهم، وبدر ابي قومي بإسلامهم، فلما قدم، قال: جئتكم والله من عند النبي صلى الله عليه وسلم حقا، فقال:” صلوا صلاة كذا في حين كذا، وصلوا صلاة كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة، فليؤذن احدكم وليؤمكم اكثركم قرآنا”، فنظروا فلم يكن احد اكثر قرآنا مني لما كنت اتلقى من الركبان، فقدموني بين ايديهم وانا ابن ست او سبع سنين، وكانت علي بردة كنت إذا سجدت تقلصت عني، فقالت امراة من الحي: الا تغطوا عنا است قارئكم؟ فاشتروا، فقطعوا لي قميصا فما فرحت بشيء فرحي بذلك القميص”.

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے ‘ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا ‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ (یہ اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں اللہ کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا انہیں نہیں ملا۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا تو اوپر ہو جاتی (اور پیچھے کی جگہ) کھل جاتی۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چوتڑ تو پہلے چھپا دو۔ آخر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔

📚 صحیح بخاری: 4302، فتح الباری 8/22

✅ یہ حدیث نہ صرف صحیح بخاری میں ہے بلکہ امام بخاری نے اس پر کوئی تنقید نہیں کی، بلکہ ’’باب امامت الصبی القاری‘‘ کی تحت ذکر کی۔

🔸 ایک اشکال: عمرو بن سلمہ کی چادر سے شرمگاہ ظاہر ہوتی تھی؟

اس اعتراض کے درج ذیل جوابات دیے گئے ہیں: اولاً، یہ کیفیت اضطراری تھی، یعنی چادر چھوٹی ہونے کی وجہ سے شرمگاہ کا ظاہر ہونا غیر اختیاری تھا، عمداً ایسا نہیں کیا گیا۔ ثانیاً، جب بعد میں چادر مکمل مہیا ہوئی تو یہ مسئلہ بھی ختم ہو گیا۔ ثالثاً، نماز کے دوران شرمگاہ کا عمداً ظاہر کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور رابعاً، اگر کوئی تقلیدی فقیہ اس فعل کے جواز کی کوئی صورت نکال بھی لے، تو واضح رہے کہ یہ عمل درج ذیل حدیث کی روشنی میں منسوخ ہے:
((نهى رسول الله ﷺ عن اشتمال الصماء …))
📚 صحیح بخاری: 367

📌 خلاصہ:

➤ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ایک صحابی کے فعل اور نبی ﷺ کی ہدایت دونوں کو ظاہر کرتی ہے، جس میں قرآن دانی کو امامت کے لیے معیار قرار دیا گیا، نہ کہ بلوغت کو۔

✦ دلیل نمبر 2: سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کی روایت

حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ابو عوانة ، عن قتادة ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إذا كانوا ثلاثة، فليؤمهم احدهم، واحقهم بالإمامة، اقرؤهم ".

ابوعوانہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نے ابونضرہ سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب (نماز پڑھنے والے) تین ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرائے اور ان میں سے امامت کا زیادہ حقدار وہ ہے جو ان میں سے زیادہ (قرآن) پڑھا ہو۔

📚 صحیح مسلم، ترقیم عبدالباقی: 672 ترقیم شاملہ: — 1529

🔹 صاف ظاہر ہے کہ قرآن کا سب سے بڑا قاری—even if a child—امامت کا زیادہ مستحق ہے۔

✦ اقوال دیگر ائمہ سلف اور محدثین

  1. امام شافعی رحمہ اللہ:

❝ اگر نابالغ قاری جو نماز جانتا ہو، بالغوں کو نماز پڑھا دے تو جائز ہے، لیکن بالغ کی امامت بہتر ہے ❞
📚 الام، ج1 ص166، باب: إمامة الصبي لم يبلغ

  1. امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ:

❝ باب إباحة إمامة غير المدرِك البالغين إذا كان غير المدرِك أكثر جمعًا للقرآن من البالغين ❞

📚 صحیح ابن خزیمہ، ج3 ص6، قبل ح 1512

  1. امام بیہقی رحمہ اللہ:

❝ باب إمامة الصبي الذي لم يبلغ ❞

📚 السنن الكبرى 3/91، معرفۃ السنن والآثار 2/373

  1. اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ:

➤ نابالغ قاری کو امام بنایا
📚 الاوسط لابن المنذر 4/151، حدیث 1935، سندہ صحیح

  1. امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ:

❝ اگر بچہ نو یا دس سال کا ہو تو اس کی امامت جائز ہے ❞
📚 مسائل الإمام أحمد و إسحاق (روایۃ الکوسج) 1/151، فقرہ 243

  1. امام ابن المنذر رحمہ اللہ:

❝ نابالغ کی امامت جائز ہے، اگر وہ نماز جانتا ہے اور اس کے قیام کی صلاحیت رکھتا ہے ❞
📚 الاوسط 4/152

  1. امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ (محدث قیام اللیل کے مصنف):

➤ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

❝ فلم يزل إمامَ قومِه في الصلاةِ وعلى جنائزِهم ❞

📚 مختصر قیام اللیل ص 221، وسندہ صحیح

📌 اس اثر سے ظاہر ہے کہ سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نماز اور جنازوں میں بھی امام بنائے گئے تھے، اور سلف صالحین نے اسے تسلیم کیا۔

🔸 عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو منسوخ کہنا یا "ابتداء اسلام” تک محدود کرنا باطل و مردود ہے، کیونکہ:

✅ دیگر صحابہ (جیسے اشعث بن قیس)، تابعین (عاصم الاحول)، اور محدثین (بیہقی، ابن خزیمہ، شافعی، ابن المنذر، ابن نصر المروزی) نے اس پر اعتماد کیا۔

✅ کسی نے اسے منسوخ یا غیر مؤثر قرار نہیں دیا۔

📌 خلاصہ:

➤ اقوالِ محدثین اور آثارِ تابعین و صحابہ سے واضح ہوتا ہے کہ باصلاحیت حافظ نابالغ بچے کی امامت کا جواز تسلیم شدہ ہے، اور اسے اسلام کے ابتدائی دور کا مخصوص حکم کہنا بغیر دلیل دعویٰ ہے۔

اعتراضاتِ اہل تقلید اور ان کے ضعیف دلائل کا خلاصہ

❖ بعض اہلِ تقلید جیسے نعیم الدین دیوبندی عرف انوار خورشید نے دعویٰ کیا:
🔸 "نابالغ کی امامت جائز نہیں”
📚 حدیث اور اہل حدیث، ص 490

📌 ان کے دلائل میں جو روایات پیش کی گئی ہیں، ان میں سے اکثر:

  • یا تو بے سند ہیں

  • یا جھوٹے و متروک راویوں سے مروی ہیں

  • یا مدلس راویوں کی عن عن والی روایات ہیں

  • یا ضعیف و من گھڑت اقوال پر مبنی ہیں

✦ مثال نمبر 1: روایتِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ

❝ لا يؤم الغلامُ حتى تجبَ عليه الحدودُ ❞
📚 نیل الاوطار 3/165 بحوالہ سنن الاثرم، اعلاء السنن 4/298 ح 1267

حقیقت: یہ روایت بے سند ہے اور حجت نہیں۔

✅ خود سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
❝ امام بخاری نے اگر کسی اثر کی سند نقل نہ کی ہو تو وہ حجت نہیں ❞
📚 احسن الکلام، ج1 ص327 / طبع دوم ص403

✦ مثال نمبر 2: روایتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ

❝ لا يُؤمُّ الغلامُ حتى يبلغَ ❞
📚 نیل الاوطار 2/424 بحوالہ اثرم، اعلاء السنن 4/299 ح 1268

حقیقت: یہ روایت بھی بے سند ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں یہی اثر ابراہیم بن محمد الاسلمی (کذاب متروک) کے ذریعے مروی ہے
📚 مصنف عبدالرزاق 2/398 ح3847

🔸 لہٰذا سند کے اعتبار سے موضوع و مردود ہے۔

✦ مثال نمبر 3: عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ممانعت

❝ نَهانا أميرُ المؤمنين عمرُ أنْ يُؤمَّنا الغلامُ ❞

📚 ابن ابی داود بحوالہ کنز العمال 8/263 ح 22837، اعلاء السنن 4/299

حقیقت:
یہ روایت کتاب المصاحف (ابن ابی داود) میں نہشل بن سعید کے ذریعے مروی ہے
📚 المصاحف، ج2 ص651 ح772

🔸 اور نہشل بن سعید کذاب و متروک تھا
📚 تقریب التہذیب (7198)

⛔ لہٰذا یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔

✦ مثال نمبر 4: قولِ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ

❝ لا یؤم الصبی ❞
📚 المدونہ 1/86، اعلاء السنن 4/300 ح1271

نقدِ سند:

  1. ابن وہب: مدلس
    📚 طبقات ابن سعد 7/518

  2. ابن جریج: مدلس
    📚 طبقات المدلسین لابن حجر 3/83

  3. روایت عن عن سے ہے

  4. "المدونہ” خود بے سند اور غیر معتبر کتاب ہے
    📚 القول المتین فی الجہر بالتأمین، ص87

✦ مثال نمبر 5: قولِ ابراہیم نخعی

❝ کانوا يكرهون أن يُؤمَّ الغلامُ قبلَ أنْ يحتلمَ ❞
📚 المدونۃ الکبری 1/85، اعلاء السنن 4/299 ح1270

نقدِ سند:

  1. ابن وہب: مدلس

  2. علی بن زیاد: غیر متعین

  3. سفیان ثوری و مغیرہ بن مقسم: دونوں مدلس ہیں
    📚 تقریب التہذیب (6851)

✦ مثال نمبر 6: قولِ ابراہیم نخعی (مصنف عبدالرزاق)

❝ لا يُؤمُّ الغلامُ حتى يحتلمَ ❞

📚 مصنف عبدالرزاق 2/398 ح3846

نقدِ سند:

  1. عبدالرزاق بن ہمام: مدلس
    📚 الضعفاء للعقیلی 3/110

  2. سفیان ثوری: مدلس

  3. مغیرہ بن مقسم: مدلس
    📚 الفتح المبین، ص45

✦ اہم تنبیہ:

اہل حدیث محققین نے اپنی دلیل میں ایسی روایات کو ترک کر دیا ہے جن میں مدلس راویوں نے عن سے روایت کی، مثلاً:

➤ روایت 1:

❝ لا بأس بإمامة الغلامِ في رمضانَ ❞

📚 مصنف ابن ابی شیبہ 1/349 ح3503
⛔ راوی: ہشیم بن بشیر، یونس بن عبید، حسن بصری – سب مدلس ہیں

➤ روایت 2:

❝ لا بأس بإمامةِ الغلامِ ❞
📚 مصنف ابن ابی شیبہ 1/349 ح3504
⛔ راوی: ہشام بن حسان – مدلس

✦ مثال نمبر 7: قولِ عطاء بن ابی رباح

❝ لا یؤمُّ الغلامُ ❞
📚 مصنف عبدالرزاق 2/398 ح3845

نقدِ سند:
عبدالرزاق نے سماع کی تصریح نہیں کی، اس لیے روایت ضعیف ہے۔

✦ مثال نمبر 8: قولِ شعبی

❝ لا یؤمُّ الغلامُ حتی یبلغَ ❞
📚 مصنف ابن ابی شیبہ 1/349 ح3505

نقدِ سند:
راوی "عبدالعزیز” غیر متعین ہے؛ اگر وہ عبدالعزیز بن عبید اللہ ہے تو ضعیف ہے
📚 تقریب التہذیب (4111)

✦ مثال نمبر 9: قولِ مجاہد رحمہ اللہ

❝ لا یؤمُّ الغلامُ حتی یبلغَ ❞
📚 مصنف ابن ابی شیبہ 1/349 ح3506

نقدِ سند:
راوی "رواد بن الجراح ابو عصام” پر جمہور محدثین نے سخت جرح کی ہے
📚 تقریب التہذیب (1958)
⛔ حافظ ابن حجر کے نزدیک: "متروک”

✦ مثال نمبر 10: قولِ عمر بن عبدالعزیز (از عبدالرزاق)

📚 مصنف عبدالرزاق 2/398 ح3848

❝ نابالغ بچے کو امامت کے لیے آگے نہ کیا جائے ❞

نقدِ سند:
عبدالرزاق مدلس ہے اور روایت عن عن سے ہے، لہٰذا سند ضعیف ہے۔

✦ مثال نمبر 11: روایتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ (صفِ اوّل کی ممانعت)

📚 سنن دارقطنی 1/281 ح1076، اعلاء السنن 4/300 ح1272

❝ لا يتقدمنّ أحدٌ من الأعرابِ، ولا العجمِ، ولا الصبيانِ في الصفِّ الأولِ ❞

نقدِ سند:

  1. لیث بن ابی سلیم: مدلس و ضعیف
    📚 مجمع الزوائد 1/83، زوائد ابن ماجہ (230)

  2. عبید اللہ بن سعید: غیر معروف

  3. عباس بن سلیم: مجہول
    📚 لسان المیزان 3/302

⛔ یہ روایت مردود و باطل ہے۔

✦ ملا علی قاری کا اعتراض

📚 مرقاۃ شرح مشکوٰۃ 3/89 بحوالہ فتویٰ دارالعلوم کبیر والا

انہوں نے تعجب ظاہر کیا کہ:

❝ بعض لوگ حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے فعل کو حجت مانتے ہیں، حالانکہ نبی ﷺ سے براہِ راست اجازت ثابت نہیں۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر، عمر، ابن مسعود، ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابہ کے اقوال کو حجت نہیں مانتے۔ ❞

✅ جواب:

  1. ان تمام صحابہ کرام سے یہ ممانعت باسندِ صحیح ثابت نہیں ہے۔

  2. حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا عمل خود نبی کریم ﷺ کے فرمان پر مبنی تھا
     ❝ فلیؤمّکم أقرؤکم ❞ صحیح بخاری: 4302

  3. باقی اقوال یا تو ضعیف، بے سند یا مدلس راویوں سے مروی ہیں۔

✅ اہلِ حدیث کا موقف:

اہلِ حدیث نے درج ذیل دلائل کی بنیاد پر نابالغ قاری کی امامت کو جائز قرار دیا ہے:

🔸 سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث (بخاری)
🔸 سیدنا ابو سعید اور ابو مسعود رضی اللہ عنہم کی احادیث (مسلم)
🔸 اقوالِ ائمہ: شافعی، ابن خزیمہ، اسحاق بن راہویہ، ابن المنذر، بیہقی وغیرہم

🔸 ان دلائل میں کہیں بھی منسوخیت، کراہت یا حرمت کا کوئی اشارہ نہیں۔

📌 خلاصہ التحقیق:

✅ اگر کوئی صحیح العقیدہ نابالغ حافظ قرآن بچوں یا بڑوں سے زیادہ قرآن جانتا ہے اور نماز کے مسائل کا فہم رکھتا ہے، تو اس کی امامت جائز ہے۔
❌ اس کی ممانعت، منسوخیت یا کراہت پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔

📚 والحمد للہ رب العالمین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1