میں دو ذبیح کی اولاد ہوں ─ روایت کی حقیقت اور محدثین کی تحقیق
مرتب کردہ: ابو عبدالعزیز محمد یوسف مدنی

نبی کریم ﷺ کی طرف بعض روایات منسوب کی جاتی ہیں جنہیں عوام کے اندر بہت شہرت مل جاتی ہے، حالانکہ ان کی اصل سند اور محدثین کی تحقیق کے مطابق وہ ثابت نہیں ہوتیں۔ انہی میں سے ایک روایت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میں دو ذبیح کی اولاد ہوں”۔ اس مضمون کا مقصد اس روایت کی تحقیق کو محدثین کے اقوال کی روشنی میں بیان کرنا ہے۔

✦ روایت کا ذکر

➊ کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"میں دو ذبیح کی اولاد ہوں: ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے میرے والد عبداللہ”۔

📚 حوالہ: الرحیق المختوم (ص81)

✦ تحقیق و تجزیہ

✔️ یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بے اصل ہے۔

▣ محدثین کی تحقیق

• علامہ البانی رحمہ اللہ:
السلسلة الضعیفة (331) میں فرمایا: "اس لفظ کے ساتھ اس کی کوئی اصل نہیں”۔
• زیلعی اور ابن حجر:
تخریج الکشاف میں لکھا کہ: "ہمیں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نہیں ملی”۔
• امام حاکم:
مستدرک (2/559) میں معلقاً ذکر کیا اور کہا کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں، اور اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان "میں دو ذبیح کا بیٹا ہوں” بتایا۔ لیکن اس کی سند پیش نہیں کرسکے۔

▣ ایک ضعیف روایت کا ذکر

امام حاکم نے (2/551) میں عبداللہ بن محمد العتبی، عن عبداللہ بن سعید، عن الصنابحی کے طریق سے ایک واقعہ نقل کیا:

صنابحی کہتے ہیں کہ ہم معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے، وہاں اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ کچھ نے کہا ذبیح اسماعیل ہیں اور کچھ نے کہا اسحاق۔ معاویہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا: "اے دو ذبیح کے بیٹے!” تو آپ ﷺ مسکرائے اور انکار نہ کیا۔

✧ اس میں دوسرا ذبیح حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کو قرار دیا گیا کیونکہ عبدالمطلب نے اپنی نذر پوری کرنے کے لیے ان کو ذبح کرنا چاہا تھا مگر آخرکار فدیہ میں سو اونٹ ذبح کیے گئے۔

▣ محدثین کا حکم

• امام ذہبی: اس روایت کو "واہی” (انتہائی کمزور) کہا۔
• حافظ ابن کثیر: اسے "غریب” اور سخت ضعیف قرار دیا (تفسیر 4/18)۔
• زرقانی: "شرح المواہب” میں حسن کہا لیکن ان کا حکم دوسری روایت (الذبیح اسحاق) پر تھا، اس پر بھی اہلِ علم نے نقد کیا۔
• سیوطی اور ذہبی: دونوں نے اس روایت کو ضعیف مانا۔

✦ نتیجہ

① روایت "میں دو ذبیح کی اولاد ہوں” کے الفاظ کے ساتھ بے اصل ہے۔
② بعض طرق میں اس کا ذکر ہوا ہے لیکن سب ضعیف یا واہی اسناد ہیں۔
③ محدثینِ کرام (البانی، ذہبی، ابن کثیر) نے متفقہ طور پر اس کو ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے۔
④ اس لئے اس روایت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں۔

✅ البتہ یہ بات تاریخی طور پر درست ہے کہ حضرت عبداللہ کو قربان کرنے کا ارادہ ہوا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی ذبیح تھے، لیکن اسے حدیث کی حیثیت سے بیان کرنا درست نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے