مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ
ایک عورت نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے نماز پڑھی جائے اور روزے رکھے جائیں
جہاں تک میت کی طرف سے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کی وصیت کرنے کا تعلق ہے تو اس پر عمل نہ کیا جائے کیونکہ روزہ اور نماز بدنی اعمال ہیں جن میں نیابت نہیں ہوتی لیکن اگر اس پر نذر کے روزے ہوں تو پھر انہیں اس کی طرف سے رکھا جائے کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”جو اس حالت میں مر جائے کہ اس کے ذمے نذر کا روزہ ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے اسے رکھے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 1952 صحيح مسلم 1147/153]
لہٰذا نذر کا روزہ میت کی طرف سے رکھا جائے اور اس کا ولی اسے اس کی طرف سے رکھے لیکن جو نماز اور روزہ اصل شریعت کی وجہ سے لاگو ہوتا ہے اس میں نیابت نہیں ہوتی کیونکہ یہ بدنی عمل ہے اور انسان سے مطلو ب ہے کہ وہ خود اسے ادا کرے۔
[الفوزان: المنتقى: 105]