آداب تعزیت:
تعزیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی فوت شدہ عزیز یا عزیز کے ورثاء کے غم میں شریک ہو کر تسلی اور دلاسہ دیتے ہوئے انہیں صبر کی تلقین کرنا۔ اسلام میں یہ بہت مستحسن و پسندیدہ عمل ہے، مگر جب یہی چیز شرعی حدود سے تجاوز کر جائے اور بجائے صبر و استقامت کی تلقین کے بے صبری اور جہالت کا مظاہرہ کیا جائے تو یہی عمل انتہائی قابل نفرت اور باعث عذاب بن جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
ليس منا من لطم الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية.
[صحيح بخاري: كتاب الجنائز: باب: 35 ، حديث رقم: 1294 ، صحيح مسلم: كتاب الايمان: باب: 44 ، حديث رقم: 285 ، 165 ، 103 ، سنن الترمذي: كتاب الجنائز: حديث: 999]
”جس کسی نے بوقت مصیبت اپنا چہرہ پیٹا ، گریبان چاک کیا اور جہالت والی باتیں کیں وہ ہم میں سے نہیں۔ “
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعزیت کا انداز:
سیدنا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا موت اور زندگی کے درمیان ہے، لٰہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے جا کر میرا یہ پیغام دو۔
ان لله ما اخذ وله ما اعطى وكل شيء عنده باجل مسمى، فمرها فلتصبر ولتحتسب
”یقیناََ اللہ ہی کا ہے جو اس نے لیا ہے اور جو اس نے دیا ہے اور ہر چیز کا اس کے حضور وقت مقرر ہے ، لٰہذا تمہیں صبر کرتے ہوئے ثواب کی نیت رکھنی چاہئے ۔ “
دل دہلا دینے والا واقعہ:
جو شخص اپنوں کی وفات پر صبر کرتا ہے تو اللہ اُسے بدلے میں جنت سے نوازے گا لیکن جو شخص صبر کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ آہ و بکا اور اللہ سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے تو اس کا انجام بھی عبرت ناک ہوتا ہے۔
جام پور ضلع راجن پور میں مجھے میرے دوست نے بتایا ایک آدمی موچی کا پیشہ اختیار کیے ہوئے تھا۔ اُن کا خاندان ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا لیکن اچانک اُن کا نوجوان شادی شدہ بیٹا حادثے کا شکار ہو کر چل بسا۔ پھر کچھ ہی مہینوں کے بعد اُن کی نوجوان بہو بھی بھیانک بیماری کا شکار ہو کر چل بسی۔ پھر اُسی سال اُن کا پوتا بھی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اب ان تینوں کا صدمہ وہ موچی برداشت نہ کر سکا اور اُس کا صبر کا پیمانہ شیطانی چکروں میں آکر چھلکنے لگا۔ ایک دن موچی جوتی سی رہا تھا۔ ایک آدمی تعزیت کرنے آیا اُس نے کہا اللہ کی مرضی تھی۔ یہ فقرہ سن کر موچی طیش میں آیا اور کہا اللہ میرا اور نقصان کیا کرسکتا تھا۔ یعنی اللہ نے میرے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے نہ میری غربت کا ترس کھایا ہے اور میرے ہنستے بستے گھر کو اجاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کیا اللہ کو صرف میرا ہی گھر نظر آتا تھا نقصان کرنے کی خاطر باقی لوگوں کا گھر اللہ کو نظر نہیں آتا تھا۔ جیسے ہی اُس موچی نے اللہ کے بارے میں نازیبا گفتگو کی تو جس نوکیلی آر سے وہ جوتی سی رہا تھا وہی آر فوراً اُسی کے ہاتھوں کے ذریعے اُس کی آنکھوں میں پیوست ہو گئی۔ یعنی ہمیشہ کے لیے اُس کی دنیا کو رب نے اپنے غیض و غضب سے اندھیر نگری بنا دیا۔ واقعی صبر کا پھل میٹھا ہے۔
پھر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دے کر دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب رضی اللہ عنہم کی معیت میں تشریف لائے اور اپنے نواسے کو دنیا سے جاتے ہوئے دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آنسو اللہ کی رحمت کا باعث ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نرم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے۔“
[صحيح بخاري: كتاب الجنائز: باب 32: حديث رقم: 1284 ، صحيح مسلم: كتاب الجنائز: حديث: 2135 / 11 / 923 ، ابن ماجة: الجنائز: حديث: 1588]
مصیبت کے وقت دعاء:
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی بھی مسلمان پر جب کوئی تکلیف اور مصیبت آئے تو جب وہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اس کے حضور یہ کلمات کہتا ہے۔ اللہ تعالٰی اس کے لیے اس مصیبت کا نعم البدل عطا فرما دیتا ہے۔“
إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم اجرني فى مصيبتي، واخلف لي خيرا منها،
[صحيح مسلم: كتاب الجنائز: باب ما يقال عند المصيبة: حديث رقم: 2126 / 3 / 918]
”بلا شبہ ہم سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں اور یقیناً ہمیں اس کے حضور پیش ہونا ہے، یا اللہ مجھے اس دکھ کے بدلے میں اجر و ثواب سے نوازنا اور اس کا بہترین بدلہ بھی عطا فرمانا ۔“
سوگ کی مدت:
عن ام حبيبة رضي الله عنها ، وقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تحد فوق ثلاث، إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا
[صحيح مسلم: كتاب الطلاق: حديث رقم: 3729 / 59 / 1486]
”ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
جو عورت اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہے اسے کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے کی اجازت نہیں ، سوائے اپنے خاوند کے، اس کی موت پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کر ے گی۔ “
یعنی جب کسی خاتون کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ جائز نہیں تو کسی مرد کے لیے بھی تین دنوں سے زیادہ سوگوار ماحول پیدا کر کے بیٹھے رہنا قطعاً درست نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں خواتین کے ذکر کی حکمت صاف ظاہر ہے کہ عام طور پر مردوں کی بہ نسبت ان کے دل زیادہ حساس ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں بطور خاص تاکید کی گئی ہے۔
ضروری وضاحت:
سیدنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوگ کی آخری مدت صرف 3 دن بتائی ہے زیادہ نہیں۔ اب کچھ لوگ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم کا سوگ اُن کی شہادت کے صدیوں بعد ہر سال یکم تا 10 محرم کو گریباں چاک کر کے، منہ پر تھپڑ ، سینہ کوبی ، زنجیروں اور چھریوں کے جسم پر وار کر کر کے لہو لہان ہو کر سوگ کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا کے سامنے اگر ایسا سوگ جائز ہوتا تو سوچئے امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تابعین عظام رحمہ اللہ ، تبع تابعین، چاروں امام حتٰی کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے ضرور منایا ہوتا۔ لیکن انہوں نے بھی مسنون طریقے میں اُس کا ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے یہ طریقہ نہ ہی اختیار کیا اور نہ ہی اس کی روش کی بنیاد رکھی۔
بیوہ کی عدت:
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر: 234 اور مذکورہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے، لیکن حاملہ ہونے کی صورت میں سورۃ الطلاق کی آیت نمبر: 4 کی رو سے اس کی عدت وضع حمل تک ہو گی اور بیوہ اپنی عدت کا تمام عرصہ خاوند کے سوگ میں سادگی کے ساتھ گزارے گی۔ یہ عدت چاند کے مہینوں کے اعتبار سے ہو گی۔