بَابٌ حُرْمَةِ مَكَة: مکہ کی حرمت کا بیان
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: [ ص: 443] عَنْ { أَبِي شُرَيْحٍ – خُوَيْلِدِ بْنِ عَمْرٍو – الْخُزَاعِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ – وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إلَى مَكَّةَ – ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أَنْ أُحَدِّثَكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ . فَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ . وَوَعَاهُ قَلْبِي . وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ ، حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ: أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ . ثُمَّ قَالَ: إنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ تَعَالَى ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ . فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاَللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ: أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا ، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولُوا: إنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ . وَإِنَّمَا أُذِنَ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ . وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ . فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ . فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ : مَا قَالَ لَكَ؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا ، وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ } .
سیدنا ابو شریح خویلد بن عمر و الخزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے (مدینے کے گونرر ) عمرو بن سعید بن عاص جو کہ مکہ میں (سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے ) فوجیں بھیج رہے تھے، سے کہا: اے امیر ا مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بیان کروں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن صبح کو فرمایا ، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد کر لیا اور میری آنکھوں نے اسے دیکھا جس وقت آپ نے وہ بات تکلم فرمائی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرام ٹھہرایا ہے اور لوگوں نے اسے حرام نہیں کیا، چنانچہ کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ وہ اس میں خون بہائے اور نہ ہی اس کے کسی درخت کو کاٹے ، سواگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کی بنا پر (خون بہانا ) جائز سمجھے تو (اسے) کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسول کو اجازت دی تھی لیکن تمہیں اس نے اجازت نہیں دی اور مجھے بھی دن کی (صرف) ایک گھڑی (کے لیے ) اجازت دی گئی تھی اور پھر اس کی حرمت آج کے دن ویسے ہی لوٹ آئی جیسے کل تھی ، تو جو شخص حاضر ہے اسے غیر حاضر کو بتا دینا چاہیے ۔ ابوشریح سے پوچھا گیا کہ پھر عمرو بن سعید نے آپ کو کیا جواب دیا؟ انھوں نے کہا: (اس نے یہ جواب دیا کہ اے ابو شریح! میں اس حدیث کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، بلاشبہ حرم نافرمان کو پناہ نہیں دیتا ، نہ خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ ہی خیانت کر کے بھاگنے والے کو۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب لا يعضد شجر الحرم ، ح: 1832 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب تحريم مكة وصيدها ….. ، ح: 1354]
شرح المفردات:
أمس: گزشتہ دن سابقه دن
فارا: فرار ہونے والا ، بھاگنے والا / واحد مذکر ، اسم فاعل، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ
الخَرَبَة: اس کے متعدد معانی کیے گئے ہیں، مثلاً: خیانت، چوری ، تہمت وغیرہ۔
شرح الحدیث
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ الساعۃ سے مراد فتح مکہ کا دن ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 198/1] مسند احمد میں اس کے وقت کی تعیین کا بھی ذکر ہے کہ یہ گھڑی طلوع آفتاب سے لے کر عصر تک تھی ۔ [مسند احمد: 179/2] عمرو بن سعید بن عاص ، یزید کی طرف سے مدینے کے گونرر تھے اور اپنے تئیں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی سمجھتے تھے اور اس تاویل سے انھوں نے مکہ پر فوج کشی کا جواز نکالاء حالانکہ ان کا یہ خیال بالکل غلط تھا۔
راوى الحديث :
ابوشریح رضی اللہ عنہ مشہور صحابی تھے۔ قبیلہ بنو خزاعہ سے تعلق تھا۔ فتح مکہ سے قبل مسلمان ہوئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں احادیث روایت کیں اور 68 ہجری میں مدینہ طیبہ میں انتقال ہوا۔
الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ – { لَا هِجْرَةَ ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ . وَإِذَا اُسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا ، وَقَالَ: يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ : إنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ . فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ . وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي ، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ . لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ ، وَلَا يَلْتَقِطُ لُقْطَتَهُ إلَّا مَنْ عَرَّفَهَا . وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ . فَقَالَ الْعَبَّاسُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إلَّا الْإِذْخِرَ . فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَبُيُوتِهِمْ . فَقَالَ: إلَّا الْإِذْخِرَ } .
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مکہ) فتح (ہونے ) کے بعد کوئی ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور (ہجرت کی ) نیت رہے گی اور جب تم سے نکلنے کا مطالبہ کیا جائے تو تم (جہاد کے لیے ) نکلو اور فتح مکہ کے دن فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اسی دن حرام کر دیا تھا جس دن آسمان وزمین کو پیدا فرمایا، چنانچہ وہ اللہ کے حرام قرار دینے سے لے کر قیامت کے دن تک حرام ہی ہے ، مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی اس میں قتال کرنا جائز نہیں تھا اور نہ ہی میرے لیے حلال ہے سوائے دن کی ایک گھڑی میں سو وہ اللہ تعالٰی کے حرام کرنے سے لے کر قیامت تک حرام ہی رہے گا۔ نہ اس کے درخت کے پتے کاٹے جائیں، نہ اس کے شکار کو مار بھگایا جائے ، نہ اس کی گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے مگر جو اسے پہچان لے اور نہ ہی اس کی سبز گھاس کاٹی جائے ، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول !سوائے اذخر بوٹی کے؟ کہ وہ لوہاروں کے اور گھروں میں کام آتی ہے (یعنی اس کی رخصت دے دیجیے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوائے اذخر بوٹی کے۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب ما يحل القتال بمكة ، ح: 1834 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب تحريم مكة وصيدها — ، ح: 1353 .]
شرح المفردات:
إذَا اسْتُفِرتُم: جب تمہیں قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلنے کو کہا جائے ۔ جمع مذکر حاضر ، فعل ماضی مجہول، باب استفعال۔
لَا يُعْضَدُ شَوكه: درخت کے پتے اور کانٹے دونوں ہی مراد ہیں ۔
لَا يُعْضَدُ: واحد مذکر غائب فعل ماضی منفی مجهول، باب نَصَرَ يَنصُر
لَا يُنَفِّرُ صَيْدُه: یعنی نہ تو شکار اس کی جگہ سے اُڑایا جائے اور نہ ہی اسے خوف زدہ کیا جائے ۔
لَا يُنَفّرُ: واحد مذکر غائب فعل ماضی منفی مجہول، باب تفعیل ۔
لَا يُخْتَلَى خَلَاهُ: الخَلا سے مراد گھاس اور اختلاء سے مراد اسے کاٹنا
لا يختلى : واحد مذکر غائب فعل ماضی منفی مجہول، باب افتعال ۔
الإذخر: یہ بہت پیاری خوشبو والی بوٹی ہوتی ہے۔
لقينهم: یعنی لوہار اس سے آگ جلاتے ہیں۔
شرح الحديث:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام خطابی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اسلام کے اولیں عہد میں اسلام قبول کرنے والوں پر ہجرت فرض تھی، کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور اس وجہ سے وہ اپنا دفاع نہیں کر پاتے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح فرما دیا اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو ہجرت الی المدینہ کا فرض ساقط ہو گیا، لیکن جہاد کا فرض بدستور باقی رہا ۔ [فتح الباري لابن حجر: 38/6] لیکن اسے عموم پرمحمول کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ جہاں کہیں بھی مسلمان کفر کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے لیے ہجرت کا حکم بدستور باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا، وہ اپنی جان اور دین کو بچانے کے لیے بلاد کفر سے اسلامی ممالک کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں۔
بَابُ مَا يَجُوزُ فَتْله: ان جانوروں کا بیان جنھیں حرم میں مارنا جائز ہے۔
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ ، يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ : الْغُرَابُ ، وَالْحِدَأَةُ ، وَالْعَقْرَبُ ، وَالْفَأْرَةُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ } وَلِمُسْلِمٍ { يُقْتَلُ خَمْسٌ فَوَاسِقُ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ }
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ جانور ایسے ہیں جوسب کے سب فاسق ہیں، وہ حرم میں بھی قتل کر دیے جائیں گے: کوا، چیل، بچھو ، چوہیا اور ہڑکایا ہوا کتا۔
مسلم میں ہے: پانچ فواسق جانور حل وحرم میں قتل کر دیے جائیں۔
[صحيح البخارى، كتاب الاحصار وجزاء الصيد باب ما يقتل المحرم من الدواب ، ح: 1732 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب ، ح: 1198]
شرح المفردات:
فاسق: یہاں فاسق سے مراد نقصان کرنے والا اور گزند پہنچانے والا ہے۔ واحد مذکر ، اسم فاعل، باب نَصَرَ يَنْصُرُ
الْكَلْبُ الْعَقُورُ: پڑکایا ہوا، زہریلا ، جس سے لوگوں کو خوف آئے ، جو لوگوں کو کاٹتا پھرے
الْعَفُورُ: صفت مشبه، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ شرح الحديث . ان جانوروں کو فواسق اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ ایذا پہنچانے ، خرابی پیدا کرنے اور نقصان کرنے میں دیگر جانوروں سے بڑھ کر ہیں۔
غراب کا لفظ غرب سے ہے، جس کا معنی وطن سے دور ہونا ہے۔ اسے غراب اس لیے کہا جاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب طوفان میں اس کی خبر لینا چاہی تو اسے گم پایا، کیونکہ یہ وطن چھوڑ کر جا چکا تھا۔ [ارشاد الساري للقسطلاني: 302/3] اور حدیث میں جو کوا مراد ہے وہ الغراب الأبقع ہے، یعنی کوے کی وہ قسم جو دھبے دار ہوتا ہے ۔ [حياة الحيوان الكبرى للاميرى: 631/2]
چیل کو بھی نقصان پہنچانے کی وجہ سے فاسق کہا گیا ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ میں گوشت لیے کھڑے تھے کہ اچانک ایک چیل جھپٹی اور آپ سے گوشت چھین کر لے گئی اور کھاتے ہوئے ایک ہڈی اس کے حلق میں پھنس گئی اور وہ مرگئی۔ [تاريخ دمشق لابن عساكر: 350/20]
بچھو کی بابت سیدہ عائشہ رضی رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں بچھو نے ڈس لیا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم نے فرمایا: لَعَنَ اللحُ الْعَقْرَبَ ، مَا تَدَعُ مُصَلِّيَا وَلَا غَيْرَهُ، أَقْتُلُوهَا فِي الْحِلَّ وَالْحَرَمِ . اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت فرمائے (کیونکہ) یہ نہ نمازی کو چھوڑتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو، اسے حل وحرم میں مار دیا کرو۔ [سنن ابن ماجه: 224/6]
چوہیا کو فويسقہ کہا جاتا ہے، کیونکہ جانوروں میں اس سے زیادہ فسادی جانور کوئی نہیں ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ ایک چوہیا نے چراغ کی بتی پکڑی اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس چٹائی پرلا گرایا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، تو اس نے وہ چٹائی جلا دی ۔ [سنن ابي داؤد: 5247]
ہڑکائے ہوئے کتے کے حکم کی توضیح کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ کسی ایسے کتے کو مارنا جائز نہیں ہے جس سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ [المجموع شرح المهذب للنووى الله: 285/7]
بَابُ دُخُولِ مَكَةَ وَغَيْرِه
مکہ وغیرہ میں داخلے کا بیان
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ ، وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ . فَقَالَ: ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ: اُقْتُلُوهُ } .
انس بن مالک رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پہ خود تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: ابن خطل کعبے کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (وہیں ) قتل کر دو۔
[صحيح البخارى، كتاب الاحصار وجزاء الصيد، باب دخول الحرم ومكة بغير احرام ، ح: 1749 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب جواز دخول مكة بغير احرام ، ح: 1357]
شرح المفردات:
المغفرُ: جنگ میں سر پہ پہنا جانے والا لوہے کا خود جوسر کو دشمن کے وار سے بچاتا ہے۔
استار: یہ ستر کی جمع ہے، پردے
شرح الحديث:
ابن خطل کو قتل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کام کی ہجو میں اشعار لکھا کرتا تھا، پھر وہ اشعار اپنی دولونڈیوں کو دیتا، جو انھیں گانے کے انداز میں پڑھا کرتی تھیں، اسی عمل شنیع کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم فرمایا۔ [تفسير البغوي: 540/4] یہ حدیث گستاخ رسول کے واجب القتل ہونے پر دلیل ہے۔
الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ مِنْ كَدَاءٍ ، مِنْ الثَّنِيَّةِ الْعُلْيَا الَّتِي بِالْبَطْحَاءِ ، وَخَرَجَ مِنْ الثَّنِيَّةِ السُّفْلَى } .
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تنبیہ علیا یعنی مقام کداء کی طرف سے داخل ہوتے ، جو بطحاء میں ہے اور تنبیہ سفلی یعنی نچلی وادی کی جانب سے نکلتے۔
[صحيح البخاري ، كتاب الحج، باب من أين يخرج من مكة ، ح: 1500 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب استحباب دخول مكة من الثنية والخروج — ، ح: 1257]
شرح المفردات:
كداء: یہ مکہ کے بالائی علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے، جسے آج کل ریع الحجون کہا جاتا ہے۔
الثنيَّةِ السُّفلى: دو پہاڑوں کا درمیانی راستہ یعنی وادی۔
شرح الحدیث:
امام سہیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے لیے بلندی کی طرف سے اس لیے داخل رحمة الله ہوئے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب: ﴿فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ﴾ [14-إبراهيم: 37]
فرمایا تھا تو وہ بلند مقام پر کھڑے تھے ، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ [الروض الأنف للسهيلي: 126/4]
الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَبِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ ، فَأَغْلَقُوا عَلَيْهِمْ الْبَابَ فَلَمَّا فَتَحُوا: كُنْتُ أَوَّلَ مَنْ وَلَجَ . فَلَقِيتُ بِلَالًا ، فَسَأَلَتْهُ: هَلْ صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ ، بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ } .
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو انھوں نے دروازہ بند کر لیا، پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے داخل ہونے والا میں تھا، چنانچہ میں بلال رضی اللہ عنہ سے ملا تو ان سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا فرمائی تھی؟ انھوں نے کہا: ہاں، داہنے دوستونوں کے درمیان۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب اغلاق البيت ، ح: 1597 – صحيح مسلم ، كتاب الحج ، باب استحباب دخول الكعبة للحاج وغيره ، ح 1329 .]
شرح المفردات:
ولج: داخل ہوا۔ واحد مذکر غائب فعل ماضی معلوم، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ
العمُودَينِ: عَمُودُ کا تثنیہ، دوستون ۔
شرح الحديث :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کے اندر بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اس صورت میں نمازی کا رُخ جس طرف بھی ہو درست ہے۔ البتہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ ترجمۃ الباب باب اغلاق البيت سے یہ بات احاطہ علم میں آتی ہے کہ بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی صورت میں اس کا دروازہ بند کرنا ضروری ہے، کیونکہ اگر نمازی کا رُخ دروازے ہی کی جانب ہو اور دروازہ بند نہ ہو تو اس کا رُخ غیر قبلہ کی جانب ہوگا۔
الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: { عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ جَاءَ إلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ ، فَقَبَّلَهُ . وَقَالَ: إنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّك حَجَرٌ ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ } .
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: یقیناً میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، تو نہ تو فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
[صحيح البخاري، كتاب الحج، باب ما ذكر فى الحجر الأسود ، ح: 1597 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف ، ح: 1270 .
]
شرح الحديث:
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی میں اسے بوسہ دے رہا ہوں، کیونکہ عہد جاہلیت میں لوگ بطور تعظیم بھی پتھروں کو چوما کرتے تھے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے یہ بتلانا چاہا کہ میں سنت سمجھ کر یہ کر رہا ہوں نہ کہ عہد جاہلیت کا جاہلی کام دہرا رہا ہوں۔ [كشف اللثام للسفاريني: 243/4]
الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَكَّةَ . فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ قَوْمٌ وَهَنَتْهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ . فَأَمَرَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ ، وَأَنْ يَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ ، وَلَمْ يَمْنَعْهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا: إلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ }
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام مکہ تشریف لائے تو مشرکین (آپس میں) کہنے لگے کہ تمھارے پاس وہ لوگ آئے ہیں جنھیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے، تو نبی ملت اسلام نے انھیں (یعنی صحابہ کو ) حکم فرمایا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں رکنوں کے درمیان عام چال میں چلیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر صرف آسانی کرنے کی غرض سے یہ حکم نہیں فرمایا کہ تمام چکروں میں رمل کرو۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب كيف كان بدء الرمل ، ح: 1565 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب استحباب الرمل فى الطواف والعمرة ، ح: 1266]
شرح المفردات:
وَهَنَتْهُمُ: انھیں کمزورو ناتواں اور بے ہمت کر دیا ہے۔
وهن: واحد مذکر غائب فعل ماضی معلوم ، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ
يَقْرِبُ: عہد اسلام سے قبل مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا۔
الرمل: سینہ نکال کر اور کندھے ہلا ہلا کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے تیز چال چلنا۔ اس سے کفار کو اپنی طاقت اور قوت دکھلانا مقصود تھا۔
الركنين: ان سے مراد دونوں یمانی رکن ہیں۔
الإبْقَاءُ عَلَيْهِمُ: آسانی و نرمی ، شفقت و محبت .
ابقاء: مصدر، باب افعال ۔
شرح الحديث:
رمل کرنے کے حکم کی توجیہ حدیث میں ہی مذکور ہے کہ مشرکین نے یہ سمجھا کہ مسلمان مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آنے کی وجہ سے کمزور ہو چکے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ لگوانے کے لیے رمل کا حکم فرمایا، تا کہ ان کا یہ خیال زعم باطل ثابت ہو ۔ بعد میں یہ عمل سنت کے طور پر جاری رہا اور اب بھی اس سنت پر عمل کیا جاتا ہے ۔
الْحَدِيثُ السَّادِسُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَقْدَمُ مَكَّةَ إذَا اسْتَلَمَ الرُّكْنَ الْأَسْوَدَ – أَوَّلَ مَا يَطُوفُ – يَخُبُّ ثَلَاثَةَ أَشْوَاطٍ } .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف شروع کرتے وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے اور پہلے تین چکروں میں رمل فرماتے ۔
[صحيح البخاري ، كتاب الـحـج ، بــاب اسـلام الـحـجـر الأسـود حين يقدم مكة أول مايطوف ويرمل ثلاثاً، ح: 1603 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب استحباب الرمل فى الطواف والعمرة ، ح: 1261 .]
شرح المفردات :
يَحُبُّ: یہ رمل کا مترادف ہے۔ واحد مذکر غائب فعل مضارع معلوم، باب نَصَرَ يَنْصُرُ
شرح الحديث:
اس حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمل فرمایا کرتے تھے ۔ گویا رمل کا قولی وعملی ہر دو طرح سے حکم دیا گیا ہے۔
الْحَدِيثُ السَّابِعُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى بَعِيرٍ ، يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ }
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر ) طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام کرتے تھے۔
[صحيح البخاري، كتاب الحج ، استلام الركن بالمحجن ، ح: 1530 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب جواز الطواف على بعير وغيره واستلام الحجر بمحجن ونحوه للراكب ، ح: 1272 .]
شرح المفردات:
المِحْجَنُ : ایسی چھڑی جس کا سرا مڑا ہوا ہو ۔
شرح الحديث:
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہو کر طواف اس لیے کیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوں کو حج کا طریق کار بتلا سکیں۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی امام لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے کسی بلند جگہ پر بیٹھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [الفروع لابن المفلح: 369/3]
الْحَدِيثُ الثَّامِنُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: { لَمْ أَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُ مِنْ الْبَيْتِ إلَّا الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ } .
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے دونوں یمانی رکنوں کے بیت اللہ کے کسی حصے کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب الرمل فى الحج والعمرة ، ح: 1529 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب استحباب استلام الركنين اليمانيين فى الطواف دون الركنين الآخرين ، ح: 1267 .]
شرح المفردات:
الركنين اليمانيين: ان سے مراد ایک رکن یمانی اور دوسرا رکن شرقی ہے جس میں حجر اسود نصب ہے۔
شرح الحديث:
ایک روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ: أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ لَا يَدَعُ أَنْ يَسْتَلِمَ الْحَجْرَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِي فِي كُلِّ طَوَافِه . نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر طواف میں حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ [مسند احمد: 17/2، سنن ابي داؤد: 1876]
بَابُ التَّمَتع: حج تمتع کا بیان
حج کی تین اقسام ہیں:
(1) حج افراد (2) حج تمتع (3) حج قران
حج افراد: میقات سے صرف حج ہی کا احرام باندھنا اورا کیلے حج ہی کی ادائیگی کرنا۔
حج تمتع: حج کے ایام میں پہلے عمرے کا احرام باندھنا، اس کی ادائیگی کر لینے کے بعد احرام کھول دینا۔ اور پھر یوم ترویہ یعنی 8 ذوالحجہ کوحرم ہی سے حج کا احرام باندھنا۔
حج قران: میقات سے حج و عمرہ کا اکٹھا احرام باندھنا، یا پہلے صرف عمرہ کا احرام باندھنا اور پھر حج کو بھی اس میں شریک کر لینا۔ اس صورت میں عمرے کے افعال حج میں ہی شامل ہو جاتے ہیں ، یعنی الگ سے ادا نہیں کرنا پڑتے۔
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ أَبِي جَمْرَةَ نَصْرِ بْنِ عِمْرَانَ الضُّبَعِيِّ – قَالَ { سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ الْمُتْعَةِ؟ فَأَمَرَنِي بِهَا ، وَسَأَلَتْهُ عَنْ الْهَدْيِ؟ فَقَالَ: فِيهِ جَزُورٌ ، أَوْ بَقَرَةٌ ، أَوْ شَاةٌ ، أَوْ شِرْكٌ فِي دَمٍ قَالَ: وَكَانَ نَاسٌ كَرِهُوهَا ، فَنِمْتُ . فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ: كَأَنَّ إنْسَانًا يُنَادِي: حَجٌّ مَبْرُورٌ ، وَمُتْعَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ . فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثَتْهُ . فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ } .
ابو جمره نصر بن عمران ضبعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کی بابت پوچھا تو انھوں نے مجھے اس
(230) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب فمن تمتع بالعمرة الى الحج ، ح: 1603 – صحيح مسلم، کتاب الحج، باب جواز العمرة في أشهر الحج ، ح: 1242 .