معوذتین کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ تحریر شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب سورتوں اور آیات کے فضائل سے ماخوذ ہے۔

معوذتین کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں

معوذتین قرآن کی آخری سورتیں ہیں، دونوں کی آیات گیارہ ہیں۔ سورت فلق میں چار بار لفظ ”شر“ آیا ہے، اس لیے کہ ہر ”شر“ دوسرے سے مختلف ہے۔

➊ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنزلت على آيات لم ير مثلهن قط المعوذتين.
صحیح مسلم: 814
مجھ پر بے مثال آیات نازل ہوئیں۔ وہ معوذتین ہیں۔

➋ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقرأ بالمعوذات دبر كل صلاة.
عمل اليوم والليلة لابن السنّي: 123 وسنده صحيح، مسند الإمام أحمد 155/4، وسنده صحيح، وأخرجه أبو داود : 1523، والنسائي : 1327، وأحمد: 201/4، وسنده حسن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر نماز کے بعد سورت فلق اور سورت ناس پڑھنے کا حکم دیا۔
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ 755 اور امام ابن حبان رحمہ اللہ 2004 نے صحیح کہا ہے۔
اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ اگلی نماز کی ادائیگی تک شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔

➌ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنت أقود برسول الله صلى الله عليه وسلم ناقته فى السفر، فقال لي: يا عقبة، ألا أعلمك خير سورتين قرئنا؟ فعلمني قل أعوذ برب الفلق، وقل أعوذ برب الناس، قال: فلم يرني سررت بهما جدا، فلما نزل لصلاة الصبح صلى بهما صلاة الصبح للناس، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلاة التفت إلي، فقال: يا عقبة، كيف رأيت؟
سنن أبي داود : 1482، سنن النسائي : 5438، وسنده حسن
میں دوران سفر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اونٹنی کی مہار تھامے آگے آگے چلا کرتا تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: عقبہ ! آپ کو دو بہترین سورتیں نہ سکھلاؤں، آپ صلى الله عليه وسلم نے سورت فلق اور سورت ناس سکھائیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے دیکھا کہ میں نے یہ سورتیں سیکھ کر کوئی زیادہ خوشی محسوس نہیں کی۔ نماز فجر کے لیے تشریف لائے ، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے یہی دو سورتیں تلاوت فرمائیں۔ نماز سے فارغ ہوئے، تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: عقبہ ! کیسا لگا؟
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ 535 نے صحیح کہا ہے۔

➍ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا أعلمك من خير سورة يقرؤها الناس؟ قلت : بلى ، فقرأ على : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ وقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ثم انتهى إلى الناس، وقد أقيمت الصلاة فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقرأ بهما ، ثم قال لي : اقرأهما كلما نمت وقمت .
فضائل القرآن لابن الضّريس : 289، عمل اليوم والليلة للنسائي : 889، وسنده حسن
آپ کو سب سے عظمت والی سورتیں نہ سکھاؤں؟ جنھیں لوگ تلاوت کرتے ہیں، عرض کیا : جی ضرور ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس معوذتین کی مکمل تلاوت فرمائی، پھر جب نماز کھڑی ہوئی ، تو نماز میں بھی انھی دونوں سورتوں کی قرآت کی اور فرمایا : عقبہ ! ان سورتوں کو سوتے جاگتے پڑھا کریں۔

➎ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
بينا أقود برسول الله صلى الله عليه وسلم فى نقب من تلك النقاب إذ قال : ألا تركب يا عقبة؟ فأجللت رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أركب مركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال : ألا تركب يا عقبة؟ فأشفقت أن يكون معصية، فنزل وركبت هنيهة، ونزلت ، وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال : ألا أعلمك سورتين من خير سورتين قرأ بهما الناس ؟ فأقرأني قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، فأقيمت الصلاة، فتقدم فقرأ بهما، ثم مر بي ، فقال : كيف رأيت يا عقبة بن عامر ؟ اقرأ بهما كلما نمت وقمت.
(مسند الإمام أحمد : 144/4 ، سنن النسائي : 5434، مسند أبي يعلى : 1736 ، مُشكل الآثار للطحاوي : 124، وسنده حسن)
ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے آگے آگے چل رہا تھا، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عقبہ ! آپ سوار کیوں نہیں ہوتے؟ ذہن میں آپ کی رفعت شان کا خیال آیا کہ میں آپ کی سواری پر کیوں کر سوار ہو سکتا ہوں؟ تھوڑی دیر گزری تھی کہ پھر فرمایا : عقبہ ! سوار کیوں نہیں ہوتے؟ اب نافرمانی کا اندیشہ لاحق ہوا، چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے نیچے اترے اور میں سوار ہو گیا۔ تھوڑی مسافت طے کرنے کے بعد نیچے اتر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے، فرمایا : عقبہ ! آپ کو دو عظیم الشان سورتیں نہ سکھاؤں، جنھیں لوگ (بہ کثرت) تلاوت کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فلق اور سورت ناس پڑھائیں۔ اسی اثنا نماز کھڑی ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور انھی دو سورتوں کی تلاوت فرمائی۔ بعد میں میرے پاس سے گزرے، تو فرمایا : عقبہ! کیسا لگا؟ سوتے جاگتے یہ سورتیں پڑھتے رہا کریں۔
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ 534 نے صحیح کہا ہے۔

➏ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أهديت للنبي صلى الله عليه وسلم بغلة شهباء فركبها، وأخذ عقبة يقودها به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعقبة : اقرأ، قال : وما أقرأ يا رسول الله؟ قال : اقرأ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎﴿1﴾‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ فأعادها على حتى قرأتها، فعرف أني لم أفرح بها جدا، قال : لعلك تهاونت بها ، فما قمت يعني بمثلها .
مسند الإمام أحمد : 149/4 ، سنن النسائي : 5433، المعجم الكبير للطبراني : 337/17 ، مشكل الآثار للطحاوي : 126، وسنده صحيح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفید خچر ہدیہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے، سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے آگے آگے چل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: پڑھیے! عرض کیا: کیا؟ فرمایا: پڑھیں: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ1مِن شَرِّ مَا خَلَقَ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہرایا، میں نے پڑھ لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوا کہ مجھے اس سے کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوئی، تو فرمایا : لگتا ہے، آپ نے اس کی قدر و منزلت کو جانا ہی نہیں، حالانکہ میں نے قیام میں اس کی مثل کوئی سورت نہیں
پڑھی۔

➐ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
تبعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو راكب، فجعلت يدي على قدمه، فقلت : يا رسول الله، أقرثني إما من سورة هود، وإما من سورة يوسف، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا عقبة بن عامر ، إنك لن تقرأ سورة أحب إلى الله، ولا أبلغ عنده من أن تقرأ : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، فإن استطعت أن لا تفوتك فى صلاة، فافعل.
فضائل القرآن لأبي عبيد ص 271، مسند الإمام أحمد: 155/4 ، سنن النسائي : 223/8،122/2، وسنده صحيح
ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا، آپ سوار تھے۔ میں نے آپ کے قدم پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے سورت ہود اور سورت یوسف پڑھا دیں، فرمایا : عقبہ ! آپ سورت فلق سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب اور بلیغ سورت نہیں پڑھ سکیں گے، اگر آپ کے لیے ممکن ہو ہو تو نماز میں اس سورت کا اہتمام کر لیا کریں۔
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ 798 ، 1842 نے صحیح اور امام حاکم رحمہ اللہ 560/2 نے صحیح الاسناد کہا ہے۔

➑ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر والناس يعتقبون، وفي الظهر قلة، فحانت نزلة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونزلتي ، فلحقني من بعدي، فضرب منكبي، فقال: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، فقلت: أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، فقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم وقرأتها معه، ثم قال: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، فقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم وقرأتها معه، قال: إذا أنت صليت فاقرأ بهما.
مسند الإمام أحمد : 24/5، 79، وسنده صحيح
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے، چونکہ سواری کے جانور کم تھے۔ لوگ باری باری سوار ہوتے۔ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے اترنے کی باری آئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے میرے قریب آئے اور میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ سورۃ الفلق:1 پڑھیں، میں نے پڑھ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت مکمل پڑھی۔ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ لی، اسی طرح ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ سورۃ الناس:1 پڑھنے کے لیے فرمایا اور پوری سورت پڑھی میں نے بھی پڑھ لی، پھر فرمایا : نماز میں بھی یہ سورتیں پڑھ لیا کریں ۔
حافظ ہیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجاله رجال الصحيح .
مجمع الزوائد :148/7
اس کے راوی صحیح بخاری کے ہیں ۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ الدر المنثور : 684/8

➒ سیدنا عبد اللہ بن حبیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى طريق مكة، فأصبت خلوة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدنوت منه، فقال: قل، فقلت: ما أقول؟، قال: قل، قلت : ما أقول؟، قال: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ حتى ختمها، ثم قال: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ حتى ختمها، ثم قال: ما تعوذ الناس بأفضل منهما.
سنن النسائي: 5431 ، معجم الصحابة لأبي القاسم البغوي: 1877 ، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني: 496، وسنده صحيح
میں مکہ مکرمہ کے راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت نصیب ہوئی اور آپ کے قریب ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : پڑھیں، عرض کیا : کیا؟ فرمایا : پڑھیں! مکرر عرض کیا : کیا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فلق اور سورت ناس پوری پڑھیں اور فرمایا : لوگ جن چیزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں، اُن میں سب سے افضل یہ دو سورتیں ہیں۔

➓ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا أوى إلى فراشه كل ليلة جمع كفيه، ثم نفث فيهما فقرأ فيهما قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، ثم يمسح بهما ما استطاع من جسده، يبدأ بهما على رأسه ووجهه وما أقبل من جسده يفعل ذلك ثلاث مرات.
صحيح البخاري : 5017
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات سونے کے لیے بستر پر تشریف لے جاتے ، تو دونوں ہتھیلیاں اکٹھی کر کے ان میں پھونکتے ، ان میں سورت اخلاص، سورت فلق اور سورت ناس پڑھتے ۔ پھر جہاں تک ممکن ہوتا، اپنے جسم مبارک پر دونوں ہتھیلیاں پھیرتے۔ پہلے سر پر ہاتھ پھیرتے ، پھر چہرہ مبارک اور سامنے بدن پر پھیرتے۔ یہ عمل تین مرتبہ فرماتے ۔

⓫ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اشتكى يقرأ على نفسه بالمعوذات وينقت، فلما اشتد وجعه كنت أقرأ عليه وأمسح بيده رجاء بركتها .
صحيح البخاري : 5016، صحيح مسلم : 2192
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوتے ، تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی، تو میں معوذات پڑھ کر آپ پر پھونکتی اور برکت کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر پھیرتی ۔

⓬ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعوذ من عين الجان، ثم أعين الإنس، فلما نزلت المعوذتان، أخذهما وترك ما سوى ذلك.
سنن النسائي : 5496، سنن ابن ماجه : 3511، سنن الترمذي : 2058، وسنده حسن
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جنات اور انسانوں کی نظر (بد) سے پناہ طلب کرتے تھے، جب معوذتین نازل ہوئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی تمام دعائیں چھوڑ دیں اور معوذتین کا معمول بنا لیا۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن غریب کہا ہے۔

⓭ سیدنا عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
خرجنا فى ليلة مطر، وظلمة شديدة، نطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي لنا، فأدركناه، فقال: أصليتم؟ فلم أقل شيئا، فقال: قل، فلم أقل شيئا، ثم قال: قل، فلم أقل شيئا، ثم قال: قل، فقلت: يا رسول الله ما أقول؟ قال: قل قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ والمعوذتين حين تمسي، وحين تصبح، ثلاث مرات تكفيك من كل شيء .
سنن أبي داود : 5082، سنن الترمذي : 3575، سنن النسائي : 5430، وسنده حسن
ایک دفعہ شدید بارش اور تاریک رات میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے نکلے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھائیں۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر لیا۔ فرمایا : آپ نے نماز پڑھ لی ہے؟ میں نے کوئی جواب نہ دیا، فرمایا: کچھ بولیے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ فرمایا : کچھ بولیے! میں نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا، تیسری بار ارشاد فرمایا : کچھ تو بولیے! عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا کہوں؟ فرمایا : صبح وشام تین مرتبہ سورت اخلاص، سورت فلق اور سورت ناس پڑھ لیا کریں، یہ آپ کو ہر مصیبت اور تکلیف سے بچنے کے لیے کافی ہوں گی۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح کہا ہے۔

⓮ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ 774ھ سورت ناس کا مفہوم بیان کرتے ہیں :
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات، ربوبیت، شہنشاہی اور الوہیت کا تذکرہ ہے۔ وہ ہر شے کا رب، مالک اور اللہ ہے۔ تمام اشیا اس کی مخلوق ہیں، اس کی ملکیت ہیں اور اسی کی بندگی میں مشغول۔ لہذا وہ حکم دیتا ہے کہ جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہے، وہ اس پاک و برتر صفات والی ذات کی پناہ میں آجائے۔ شیطان جو انسان پر مقرر ہے، اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے۔ شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے۔ برائیوں اور بدکاریوں کو خوب مزین کر کے لوگوں پر پیش کرتا ہے۔ راہ راست سے ہٹانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے، جسے اللہ بچائے۔
تفسير ابن كثير : 589/6، بتحقيق عبدالرزاق المهدي

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے