معدوم شے کی معدوم شے کے ساتھ بیع جائز نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

معدوم شے کی معدوم شے کے ساتھ بیع اور مال کو قبضے میں لینے سے پہلے اس کی بیع جائز نہیں
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهي عن بيع الكالي بالكالي
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کے بدلے ادھار کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔“
[ضعيف: إرواء الغليل: 1382 ، دار قطني: 71/3 ، حاكم: 57/2 ، بيهقي: 290/5 ، اس كي سند ميں موسي بن عبيده راوي ضعيف هے۔ ميزان الاعتدال: 213/4 ، المغنى: 685/2 ، التاريخ الكبير: 191/7 ، التاريخ الصغير: 87/2 ، الجرح والتعديل: 151/8 ، الكاشف: 164/3]
➋ امام شافعیؒ نے ان لفظوں میں ایک روایت بیان کی ہے:
نهي عن الدين بالدين
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کی قرض کے ساتھ بیع سے منع فرمایا ہے ۔“
[كما فى تلخيص الحبير: 26/3 ، امام شافعيؒ مزيد فرماتے هيں كه اهل حديث اس روايت كو کمزور قرار ديتے هيں ۔]
➌ طبرانی کی ایک روایت میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهي عن بيع كالي بكالئ و دين بدين
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کے بدلے ادھار کی بیع سے اور قرض کے بدلے قرض کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔“
[نصب الراية: 40/4 ، اس كي سند ميں بهي گذشته بيان كرده موسي بن عبيده راوي ضعيف هے۔]
(احمدؒ) اس مسئلے میں کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے لیکن (یہ بات ہے کہ ) قرض کے بدلے قرض کے عدم جواز پر لوگوں کا اجماع ہے۔
[نيل الأوطار: 527/3 ، الروضة الندية: 208/2]
اسی طرح ہر معدوم شے کے بدلے معدوم شے کی بیع جائز نہیں۔
[تلخيص الحبير: 62/3]
اس کی مزید تائید اُن احادیث سے ہوتی ہے جن میں ”حبل الحبلة“ اور ”ملاقيح و مضامين“ کی بیع سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ان میں بھی عدم جواز کا سبب بیع کا معدوم ہونا ہی ہے ۔
[الروضة الندية: 208/2]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستو فيه
”جب تم غلہ خرید لو تو اسے قبضہ میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرو ۔“
[مسلم: 1528 ، كتاب البيوع: باب بطلان بيع المبيع قبل القبض ، أحمد: 392/3 ، بيهقي: 312/5]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
نهي رسول الله أن يشترى الطعام ثم يباع حتى يستوفي
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ خرید کر مکمل حاصل کر لینے سے پہلے اسے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔“
[مسلم: 1528 أيضا ، أحمد: 337/2]
➌ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
حتي يكتاله
”حتی کہ اسے ماپ لے (پھر فروخت کرے) ۔“
[مسلم: 1528 أيضا]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ”لوگ بازار کے بلند مقام میں غلہ خریدتے ہیں اور اسی جگہ فروخت کر دیتے ہیں:
فنهـا هـم رسـول اللـه عـن بيعه فى مكانه حتى ينقلوه
”پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا ہے کہ غلہ وہیں فروخت نہ کریں بلکہ وہاں سے (کہیں اور ) منتقل کرنے کے بعد فروخت کریں۔“
[مؤطا: 641/2 ، مسلم: 1527 ، أحمد: 56/1 ، ابو داود: 3494 ، نسائي: 287/7]
➎ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”میرا خیال ہے کہ ہر چیز (حکم میں ) غلے کی مانند ہی ہے۔“
[بخاري: 2135 ، مسلم: 1525 ، ابو داود: 3497 ، ترمذي: 1291 ، ابن ماجة: 2227 ، أحمد: 221/1 ، بيهقي: 312/5 ، حميدي: 236/1]
➏ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى أن تباع السلع حيث تبتاع حتى يحوزها التجــار إلى رحا لهم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سودے کو اُسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا جاتا ہو حتی کہ اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں (تو فروخت کر سکتے ہیں ) ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2988 ، كتاب البيوع: باب فى بيع الطعام قبل أن يستوفى ، ابو داود: 3499 ، حاكم: 40/2 ، دارقطني: 13/3]
➐ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ :
إذا اشتريت شيئا فلا تبعه حتى تقبضه
”جب تم کوئی چیز خرید و تو اسے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرو ۔“
[أحمد: 403/3 ، طبراني كبير: 3107 ، نسائي: 286/7]
اس مسئلے میں فقہا نے اختلاف کیا ہے۔
(مالکؒ) طعام (یعنی غلے ) کے علاوہ تمام تصرفات میں قبضے سے پہلے بیع جائز ہے۔
(احمدؒ) اگر فروخت کنندہ چیز ماپی یا تولی جا سکتی ہو تو قبضے سے پہلے اس کی بیع جائز نہیں بصورت دیگر جائز ہے۔
(شافعیؒ ، زفرؒ ، محمدؒ ) طعام ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز کچھ بھی قبضے سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں۔
(ابو حنیفہؒ ، ابو یوسفؒ) غیر منقولہ اشیا کی بیع قبضے سے پہلے جائز ہے جبکہ منقولہ کی نہیں۔
(راجح) امام شافعیؒ کا موقف راجح ہے کیونکہ گذشتہ صیح احادیث اسی کو ثابت کرتی ہیں ۔
◈ امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ واضح نص (یعنی حدیث زید بن ثابت اور حدیث حکیم بن حزام ) کا علم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو قیاس کی ضرورت پیش آئی ہو گی ۔
[نيل الأوطار: 532/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے