مرد کا پانی اور عورت کا بیضہ لے کر ملاپ کرانا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

مصنوعی طریقے سے بچہ پیدا کرنے کے متعلق اسلام کی کیا رائے ہے؟

جواب:

اس موضوع پر بہت بحث کی گئی ہے ، جبکہ حق بات یہ ہے کہ بلاشبہ لازمی اور ضروری ہے کہ اس قسم کے طریقوں کا سہارا نہ لیا جائے ، کیونکہ اس موضوع پر مختلف اقوال میں سے جس قول کو ہم احسن تصور کر سکتے ہیں وہ یہ کہ خاوند کے مادہ منویہ کو لے کر اس کی بیوی کے رحم میں داخل کیا جائے ۔
اب ہم اس کی کم سے کم واقع ہونے والی صورت کو بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ خاوند خود ہی ڈاکٹر ہو اور وہ چاہتا ہو کہ وہ عورت کا بیضہ لے کر اپنے پانی (مادہ منویہ ) کے ساتھ ملاپ کرائے ، اور یہ عمل کوئی اجنبی مرد سر انجام نہ دے ، تو یہ جائز ہے ، جب طبیب (اس کا خاوند) سمجھتا ہو کہ عورت اس (کے جماع) سے حاملہ نہ ہو گی یا اس سے حاملہ تو ہو سکتی ہے لیکن وہ بیمار یا کمزور ہو جائے گی تو اس حالت میں مذکور عمل جائز ہے ۔
لیکن اگر مذکورہ عمل کرنے میں کوئی اجنبی مرد شامل ہو اور وہ مرد کا پانی (مادہ منویہ ) اور عورت کا بیضہ لے کر ان کا ملاپ کرائے تو اس میں شریعت اسلامیہ کی کم از کم یہ مخالفت تو پائی ہی جائے گی کہ یقیناً میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اپنا ستر کھولنا پڑے گا اور یہ حرام ہے ۔ پھر مذکورہ عمل میں بہت بڑا خطرہ یہ ہے کہ منی کے منی سے اور بیضہ کے بیضے سے تبدیل ہو جانے کا احتمال موجود ہے ، لہٰذا اس کا سد باب کرنے کے لیے اس دروازے کو بند کرنا واجب ہے ، کیونکہ اس میں کہیں نہ کہیں ستر کو کھولنا پڑتا ہے اور یہ حرام ہے ۔ اتنی بھی کوئی بڑی ضرورت اور مجبوری نہیں ہے کہ اس طرح کے حرام کام کا ارتکاب کیا جائے ، ہاں پہلی صورت جو ہم نے بیان کی ہے وہ جائز ہے ، لیکن وہ ویسے ہی بہت نادر ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: