إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ، وَنَسْتَعِيتُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ:
❀ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿٨٣﴾
(الانبياء : 83)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور (یاد کریں) ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
حدیث ۱
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ صلى الله عليه وسلم قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِن الضَّعِيفَ ، وَفِي كُل خَيْرٌ أَخْرِضْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَلَا تَعْجَرْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَّرَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عمَلَ الشَّيْطَان.
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
طاقتور مومن، کمزور مومن کی بجائے اللہ تعالی کے ہاں زیادہ پسندیدہ اور بہتر ہے جبکہ دونوں میں ہی بھلائی ہے۔ جو چیز تجھے فائدہ دیتی ہے اس کی حرص رکھ، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر اور عاجز ہو کر نہ بیٹھ جا۔ اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہہ، اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ایسے ہوتا بلکہ یہ کہہ، جو اللہ نے چاہا وہ ہو گیا۔ پس بے شک (کلمہ گو) ’’اگر شیطانی اعمال کو شروع کرتا ہے۔“
صحیح مسلم، كتاب القدر، رقم : 6774.
❀غموں اور دکھوں کا انوکھا علاج
قَالَ اللهُ تَعَالَى:انَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا ‘‘
(الاحزاب : 56)
حدیث ۲
وَعَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أَبي بنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا ذَهَبَ تُلْنَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللهَ اذْكُرُوا اللهَ جَاءَتْ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ ، قَالَ أَبَيُّ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلْ لَكَ مِنْ صَلَاتِي؟ فَقَالَ: مَا شِئْتَ . قَالَ: قُلْتُ: الربع؟ قَالَ: مَا شِئْتَ . فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: النِّصْفَ قَالَ: مَا شِئْتَ . فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَالثَّلْتَيْنِ؟ قَالَ: مَا شِئْتَ . فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: أجْعَلُ لَكَ صَلاتِى كُلَهَا؟ قَالَ: إِذَا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُلَكَ ذنبک
’’اور حضرت طفیل اپنے باپ ابی بن کعبؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ پچھلی رات کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :
اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو الراجفة (صور پھونکے جانا) آچکی ہے اور اس کے پیچھے پیچھے الرادفة (دوسری مرتبہ صور پھونکا جانا) ہے، موت سروں پر آچکی ہے، موت آچکی ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں تو آپ پر کثرت سے درود پڑھتا ہوں، مجھے بتائیے میں آپ پر کس قدر درود پڑھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو جتنا چاہے، وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا (دن کا) چوتھا حصہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو جتنا چاہے لیکن اگر تو اس سے بھی زیادہ پڑھے تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا، کیا آدھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو جتنا چاہے، لیکن اگر تو اس سے بھی زیادہ پڑھے تو تیرے لیے بہتر ہے۔ وہ کہتے میں نے عرض کیا۔ کیا دو تہائی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری مرضی لیکن اگر تو اس سے بھی زیادہ پڑھے تو تیرے لیے بہتر ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا، کیا ہر وقت آپ پر درود پڑھتا رہا کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تو تیرے تمام غم دور اور تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘
سنن ترمذی، ابواب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم : 2457، سلسلة الصحيحة، رقم : 956۔
❀انبیاء کرامؑ پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں
قالَ اللهُ تَعَالَى: أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ ﴿٢١٤﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’(پھر) کیا تمھارا خیال ہے کہ تم یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے؟ حالانکہ ابھی تک تمھیں ان لوگوں کے مانند (مشکلیں) پیش نہیں آئیں جو تم سے پہلے گزرے، ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ رسول اور وہ لوگ جو ان پر ایمان لائے تھے، کہنے لگے: اللہ کی مدد کب (آئے گی؟) آگاہ رہو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
(البقرة : ۲۱۴)
حدیث ۳
وَعَنْ سَعْدِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءٌ؟ قَالَ: الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبٍ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبَا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبٍ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرَكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ۔
’’اور حضرت سعدؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کون سے لوگ زیادہ آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : انبیاء اور پھر بہترین لوگ پھر اس کے بعد بہترین لوگ۔ انسان اپنے دین کی بقدر آزمایا جائے گا۔ اگر اس کا دین مضبوط ہو تو اس کی آزمائش بہت سخت ہوتی ہے۔ اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اپنے دین کے لحاظ سے ہی اسے آزمایا جائے گا۔ انسان پر مصائب نازل ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
سنن ترمذی، رقم :۲۳۹۸۔
❀اللہ تعالی کا بندے کے ساتھ بھلائی کرنے کا ایک انداز
قالَ اللهُ تَعَالَى: وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور (یاد کریں) مچھلی والے (یونس) کو، جب وہ (اپنی قوم سے) ناراض ہو کر چلا گیا تھا اور اس نے سمجھا تھا کہ ہم اس پر ہر گز تنگی نہیں کریں گے، پھر اس نے (ہمیں) اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بلاشبہ میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔“
(الانبياء : 87)
حدیث ۴
وَعَنْ سَعْدِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : دَعْوَةً ذِي التَّوْنَ إِذَا دَعَا رَبَّهُ وَهُوَ فِي بَطَنِ الْحُوتِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ إِلَى كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْيٍّ إِلَّا اسْتَجَابَ لَه.
اور حضرت سعدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’یونسؓ کی دعا جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظلمين تھی۔ جب بھی کوئی مسلمان اپنے رب سے کسی حاجت کے لیے یہ دعا کرے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔“
مسند احمد : 170/1، سنن ترمذی، رقم :۳۵۰۵۔
❀تھکاوٹ پر گناہ معاف ہوتے ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨٦﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’میں تو اپنی پریشانی اور غم کا شکوہ اللہ ہی سے کرتا ہوں، اور میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
(يوسف : 86)
حدیث ۵
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلا وَصَبٍ وَلَا هُمْ وَلَا حُزْن، وَلا أَذًى، ولا غم حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ.
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ ، مرض، پریشانی ، غم اور تکلیف پہنچتی ہے، حتی کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ (اس کے بدلے) اس کے گناہ معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
صحیح بخاری، المرضى، رقم :۵۶۴۲.
❀تنگدستی سے نکلنے کا انوکھا طریقہ
قالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’چنانچہ ہم نے اس کی دعا قبول کی ، اور ہم نے اسے غم سے نجات دی، اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیتے ہیں۔“
(الانبياء : 88)
حدیث ۶
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ، وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بين عينيْهِ وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قدرہ لہ
’’اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو آخرت کی فکر ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل قناعت کی دولت سے بھر دیتے ہیں اور اس کی سوچوں کو مجتمع کر دیتے ہیں، دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جو دنیا کو اہمیت دیتا ہے اللہ تعالیٰ تنگدستی اس کے مقدر میں لکھ دیتا ہے جب کہ دنیا اس کے پاس فقط اتنی ہی آتی ہے جتنی اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔‘‘
سنن ترمذی، ابواب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم : 2465، مسلسلة الصحيحة، رقم : 949، 950.
❀مومن مرنے کے بعد اللہ کی رحمت میں آرام پاتا ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴿٢٢﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ”کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔‘‘
(الحديد : 22)
حدیث ۷
وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ بن رِبْعِيُّ الْأَنْصَارِي وَ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ : مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةِ، فَقَالَ: مُسْتَرِيحُ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ ، قَالَ: الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ والْبَلادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ.
’’اور حضرت ابو قتادہ بن ربعی انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آرام پانے والا یا آرام دینے والا ۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: آرام پانے والا یا آرام دینے والا اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایماندار بندہ تو مر کر دنیا کی تکالیف، مصیبتوں اور غموں سے نجات پا کر اللہ تعالیٰ کی رحمت میں آرام پاتا ہے اور بے ایمان اور بدکار کے مرنے سے دوسرے لوگ، شہر، درخت اور چوپائے آرام پاتے ہیں۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الرفاق ، رقم : 6512
❀دنیا کے غموں میں گرفتار بندے کی آزادی کا بیان
قال الله تَعَالَى: لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴿١٨٦﴾
’’اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”البتہ تمھیں تمھارے مالوں اور تمھاری جانوں کے بارے میں ضرور آزمایا جائے گا اور تم ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنھوں نے شرک کیا، ضرور تکلیف دینے والی باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور پرہیز گاری اختیار کرو تو بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔‘‘
(آل عمران : 186)
حدیث ۸
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا حُضِرَ الْمُؤْمِنُ، أَنتَهُ ملائِكَةُ الرَّحْمَةِ بِحَرِيرَةِ بَيْضَاءَ، فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِبًا عَنْكِ إِلَى رَوْحِ اللَّهِ وَرَيْحَانِ وَرَبِّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَتَخْرُجُ كَأَطيب ربح الْمِسْكِ، حَتَّى أَنَّهُ لَيْنَا وِلَهُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ، فَيَقُولُونَ: مَا أَطْيَبَ هَذِهِ الرِّيحَ الَّتِي جَالَتْكُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَيَأْتُونَ بِهِ أَزْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِغَائِبِهِ يَقْدَمُ عَلَيْهِ، فَيَسْأَلُونَهُ: مَاذَا فَعَلَ فُلانٌ؟ مَاذَا فَعَلَ فُلانٌ؟ فَيَقُولُونَ: دَعُوهُ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمَ الدُّنْيَا، فَإِذَا قَالَ: أَمَا أَتَاكُمْ؟ قَالُوا: ذَهَبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ: وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا اخْتُضِرَ، أَتَتْهُ مَلائِكَةُ الْعَذَابِ بِمِسْحٍ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْحُوطًا عَلَيْكِ إِلَى عَذَابِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَتَخْرُجُ كَأَنتنِ رِيحَ جِيفَةٍ، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ الْأَرْضِ، فَيَقُولُونَ: مَا أَنْتَنَ هَذِهِ الرِّيحَ حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ أَزْوَاحَ الْكُفَّارِ .
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے پاس رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں (تا کہ اس میں اس کی روح کو لپیٹ سکیں) اور کہتے ہیں (اے بہترین روح) اپنے رب کی نعمتوں کی طرف ہنسی خوشی چل، تو اللہ سے راضی ہے اور اللہ تعالی تجھ سے راضی ہے، تیرا رب تجھ پر ناراض نہیں ہے، یہ روح مشک کی بہترین خوشبو سے معطر نکلتی ہے، فرشتے اس کو ہاتھوں ہاتھ اٹھاتے آسمان کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ آسمان والے کہتے ہیں زمین سے تم بڑی بہترین خوشبو اپنے ساتھ لائے ہو۔ وہ اسے مؤمنوں کی روحوں میں شامل کر دیتے ہیں، وہ انہیں دیکھ کر اتنا خوش ہوتی ہے جس طرح تمہارا کوئی گم شده فرد تمہیں مل جائے تو تم خوش ہوتے ہو۔ وہ اس سے سوال کرتے ہیں کہ فلاں کا کیا بنا، فلاں کا کیا بنا؟ اور پھر ( روحیں) کہتی ہیں اس کو چھوڑو، وہ بے چارا تو دنیا کے غموں میں گرفتار تھا۔ یہ (تعجب سے) کہتی ہے کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا؟ وہ (روحیں) کہتی ہیں (اس کا مطلب ہوا) وہ اپنے ٹھکانے ھادیہ (دوزخ کی وادی) میں چلا گیا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے پاس عذاب کے فرشتے گندے بالوں سے تیار شدہ (ٹاٹ) کا ٹکڑا لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں: اے بد بخت روح! اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف چل ، اللہ تجھ سے ناراض ہے۔ اس کی بدبو مردار کی طرح شدید ہوتی ہے۔ اہل آسمان کہتے ہیں زمین سے تم کس قدر گندی بدبو لے کر آئے ہو؟ حتی کہ اسے کفار کی روحوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔‘‘
سنن نسائی، کتاب الجنائز، رقم : 1833، سلسلة الصحيحة، رقم : 1309
❀دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے
قالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” اور ہم تمھیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کر کے ضرور آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔‘‘
(البقرة : 155)
حدیث ۹
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ.
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔“
صحيح مسلم، کتاب الزهد والرقائق، رقم : 7417
❀مشکلات اور تنگی میں صبر کرنے کا ثواب
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ﴿٣١﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور ہم ضرور ہی تمھیں آزمائیں گے، یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمھارے حالات جانچ لیں۔‘‘
(محمد : 31)
حدیث ۱۰
وَعَنْ صُهَيْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : عَجَبَا الأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لَاحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاء صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا له.
اور حضرت صہیبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’اللہ تعالی مومن کے ہر معاملہ میں تعجب کرتے ہیں، یقینا اس کا ہر کام بھلائی ہی بھلائی ہے۔ (نعمت) مؤمن کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے اور اگر اسے کوئی تنگی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔“
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم: ۷۵۰۰
❀جو تکلیف آتی ہے اللہ کی طرف سے آتی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الم﴿١﴾ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴿٣﴾
(العنكبووت : ۱تا۳)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’الم ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انھیں آزمایا نہیں جائے گا۔ اور البتہ تحقیق ہم نے ان لوگوں کو آزمایا ہے جو ان سے پہلے تھے، چنانچہ اللہ ان لوگوں کو ضرور ظاہر کرے گا جنھوں نے سچ بولا ، اور وہ ضرور ظاہر کرے گا ان کو جو جھوٹے ہیں۔‘‘
حدیث ۱۱
وَعَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِي قَالَ: أَتَيْتُ أَبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدْرِ ، فَحَدَّثَنِي بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِم لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ جَبَلٍ أَحَدٍ ذَهَبًا أَوْ مِثْلُ جَبَل أُحدِ تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قُبِلَ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِتَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إنْ مُتْ عَلَى غَيْر هَذَا دَخَلْتَالنار
’’اور حضرت ابن دیلمی فرماتے ہیں میں ابی بن کعبؓ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ تقدیر کے بارے کچھ چیزیں مجھے شبہ میں ڈالتی ہیں تو انہوں نے مجھے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر اللہ تعالی آسمان و زمین کی ساری مخلوقات کو عذاب میں مبتلا کر دے تو وہ ایسا کر کے ظالم نہیں کہلائے گا اور اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے تمام اعمال سے بہتر ہوگی، اور اگر تیرے پاس احد کے برابر یا (ایک روایت کے مطابق) احد پہاڑ کے برابر سونا ہو پھر تم اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے اللہ اس کو تب تک قبول نہیں کرے گا جب تک تو تقدیر پر ایمان نہیں لاتا۔ پس تو جان لے کہ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے وہ تم سے چوک نہیں سکتی تھی اور جو تم سے چوک گئی وہ تمہیں پہنچی نہیں سکتی ہے۔ اگر تم اس عقیدہ تقدیر پر ایمان لائے بغیر مر گئے تو تم آگ میں داخل ہو گے۔“
سنن ابن ماجه، رقم : 77، سنن ابی داؤد، رقم : ۴۶۹۹
❀اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر یقین
قَالَ اللهُ تَعَالَى : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ﴿٤٩﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔‘‘
(القمر:۴۹)
حدیث ۱۲
وَعَنْ أَبِي حَفْصَةَ قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ: يَا بَنَى إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الْإِيمَان حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِنَكَ ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ.
’’اور ابو حفصہ سے مروی ہے کہ حضرت عبادہ بن صامتؓ نے اپنے بیٹے سے کہا : اے میرے بیٹے ! تم حقیقت ایمان کے ذائقہ کو ہرگز چکھ نہیں سکتے یہاں تک کہ تم جان لو (اور جان کر مان لو) کہ بلاشبہ جو مصیبت تمہیں پہنچی وہ تم سے چوکنے والی نہ تھی اور جو تم سے چوک گئی وہ تمہیں پہنچ نہیں سکتی۔“
سنن ابی داؤد، رقم : 4700 ، المشكاة رقم 94
❀بیماری اور تکلیف کا ثواب
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٥﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٦﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے یقیناً ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔‘‘
(الانشراح:۵،۶)
حديث ۱۳
وَعَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ يُوعَكُ وَعَكًا شَدِيدًا فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ لَتُوْعَكُ وَعْدًا شَدِيدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: أَجَلْ إِنِّي أَوْعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ. فَقُلْتُ: ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : أَجَلْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى مَرَضٌ فَمَا سِوَاهُ إِلَّا حَطَ اللَّهُ لَهُ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُط الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا.
’’اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو بخار آیا ہوا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ سے آپ ﷺ کا جسم چھوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کو تو بڑا تیز بخار ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار چڑھتا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ اس لیے ہوگا کہ آپ ﷺ کو دگنا اجر ملتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ: ہاں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ کسی بھی مسلمان کو مرض کی تکلیف یا کوئی اور تکلیف ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح گراتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب المرضى، رقم :۵۶۶۰
❀بخار سے خطائیں معاف ہونے کا بیان
حدیث ۱۴
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ عَلَى أَمْ السَّائِبِ، أَوْ أَمَ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: مَا لَكِ يَا أَمَّ السَّائِبِ أَوْ يَا أَمَّ الْمُسَيَّبِ، تُرَقْرَفِينَ قَالَتْ: الْحُمى، لا بَارَكَ اللهُ فِيهَا ، فَقَالَ: لا تَسبي الحمى، فَإِنَّهَا تُذهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ ، كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ.
’’اور حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ام سائب یا ام مسیب کے پاس گئے اور کہا: اے ام سائب ! یا اے ام مسیب ! تم کانپ رہی ہو! کیا بات ہے؟ اس نے کہا: مجھے بخار ہے، اللہ تعالیٰ اس کو برکت نہ دے! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بخار کو گالیاں مت دو، بلاشبہ یہ اولاد آدم کی خطائیں اس طرح صاف کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل دور کر دیتی ہے۔“
صحیح مسلم :کتاب البر والصلة، رقم : ۶۵۷۱.
❀آزمائش گناہ معاف ہونے کا سبب
قَالَ اللهُ تَعَالَى: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
(التوبة :۴۰)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’غم نہ کر، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“
حديث ۱۵
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : مَا يَزَالُ البَلاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى الله وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مومن مرد و عورت اپنے نفس، اولاد اور مال کی آزمائش میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔‘‘
سنن ترمذی، رقم : 2399 سلسلة الصحيحة، رقم: 2280 .
❀اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائش کی حکمت
قالَ اللهُ تَعَالَى: مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿١١﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
(التغابن :۱۱)
حدیث ۱۶
وَعَنْ أَنَسِؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرِّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .
’’اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو جلد ہی دنیا میں عذاب دے دیتا ہے۔ اور جب وہ کسی بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہ کی وجہ سے اس عذاب کو روک دیتا ہے، حتی کہ قیامت کے دن وہ اس کو اس کے گناہ کا بدلہ دے گا۔“
سنن ترمذی، رقم : 2396 سلسلة الصحيحة، رقم : 1220
❀مؤمن اور منافق یا کافر کی مثال
قَالَ الله تَعَالَى: وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٦٦﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور احد کے دن جب دونوں لشکر باہم ٹکرائے تو تمھیں جو (نقصان) پہنچا وہ اللہ کے حکم سے تھا، اور اس لیے تھا کہ اللہ جان لے کہ مومن کون ہیں۔
(آل عمران : ۱۶۶)
حدیث ۱۷
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : مَثَلُ الْمُؤْمِن كَمَثَلِ الزَّرْعَ لَا تَزَالُ الرِّيحُ تُمِيلُهُ، وَلَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ يُصِيبُهُ البَلاءُ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ شَجَرَةِ الْأَرْزِ، لَا تَهْتَزُّ حَتَّى تَسْتَخصد
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کی مثال اس (نرم و نازک) کھیتی کی مثال ہے جس کو ہوا جھکاتی اور مائل کرتی رہتی ہے، اسی طرح مومن کو آزمائش آتی رہتی ہے (اور اس کو اللہ کے سامنے جھکاتی رہتی ہے) اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی مثال ہے جو اس وقت تک نہیں ملتا اور نہ جھکتا ہے جب تک اس کے کٹنے کا وقت نہیں آ جاتا ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقين، رقم : 2809
❀جتنی بڑی آزمائش اتنی بڑی جزا
قَالَ الله تَعَالَى:وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿١٢٧﴾ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ﴿١٢٨﴾
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ” اور (اے نبی !) آپ صبر کریں، اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان (کفار) پر غم نہ کھائیں اور نہ آپ اس پر تنگی میں مبتلا ہوں جو وہ مکر (سازشیں) کرتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ ان کے ساتھ ہے جنھوں نے پرہیز گاری کی اور وہ احسان کرتے ہوں۔“
(النحل :۱۲۷،۱۲۸)
حدیث ۱۸
وَعَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَم الْبَلَاءِ وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمَا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَط.
’’اور حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ بڑی جزاء بڑی آزمائش کے ساتھ ہے اور یقیناً جب اللہ تعالی کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو وہ اس کو آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں، جو شخص (آزمائش پر) راضی رہا تو اس کے لیے (اللہ کی) رضا اور خوشنودی ہے اور جو آزمائش پر ناراض ہوا تو اس کے لیے (اللہ کی) ناراضگی اور غصہ ہے۔‘‘
سنن ترمذی، رقم :۲۳۹۶، سنن ابن ماجه، رقم :۴۰۳۱
❀مصائب میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿٧٦﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: پس ان کی بات مجھے غم زدہ نہ کرے، بے شک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔
(يس: ۷۶)
حدیث ۱۹
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الصَّعِيفِ، وَفِي كُل خَيْرٌ، أَخْرِضْ عَلَى مَا يَنفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا ، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ، وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَان.
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پس طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ پسند ہے، ویسے ہر ایک مومن میں بھلائی ہے، اس چیز کی حرص کر جو تمہیں نفع پہنچائے اور اللہ سے مدد طلب کر اور عاجز نہ آ اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو مت کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسے ہو جاتا بلکہ کہہ: اللہ نے مقدر کیا اور اس نے جو چاہا کیا، پس بے شک کلمہ ’’گو‘‘ (کاش) شیطان کے عمل کو کھول دیتا ہے۔‘‘
صحیح مسلم، رقم : 6774 ، سنن ابن ماجه ، رقم : 79 .
❀آنکھوں کے متعلق آزمائش میں مبتلا بندے کا اجر
قال الله تَعَالَى: وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’اور ہم تمھیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کر کے ضرور آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔“
(البقرة : ۱۵۵)
حديث ۲۰
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِى بِحَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الْجَنَّةَ.
’’اور حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جب میں اپنے بندے کو اس کی دو پیاری چیزوں (آنکھوں) کے متعلق آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں اس کو ان چیزوں کے بدلے جنت عطا کروں گا۔“
صحيح البخاري رقم : 5653 ، سنن الترمذی، رقم : 2405.
❀مصیبت میں انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنے کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾
(البقرة : ۱۵۶)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
حدیث ۲۱
وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللهُ لِمَلَائِكَتِهِ: فَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي فَيَقُولُونَ: نعم، فَيَقُولُ: قَبَضْتُم ثَمَرَة فُؤَادِهِ، فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِى فَيَقُولُونَ: حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ فَيَقُولُ اللهُ ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ.
’’اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب کسی شخص کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتے ہیں: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی تو فرشتے جواب دیتے ہیں: ہاں، اللہ تعالی پھر پوچھتے ہیں: تم نے اس کے دل کا پھل توڑ لیا، فرشتے جواب دیتے ہیں: ہاں، اللہ تعالی پھر سوال کرتے ہیں: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، تیرے اس بندے نے تیری تعریف کی اور انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اسی کا نام ’’بيت الحمد“ رکھو۔“
سنن الترمذي ، رقم : 1021، سلسلة الصحيحة، رقم :1408.
❀مصائب سے نکلنے کے لیے اعمال صالحہ کا وسیلہ دے کر دعا
قالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٣٥﴾
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، اور اس کا قرب تلاش کرو، اور اس کے راستے میں جہاد کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
(المائدة :۳۵)
حدیث ۲۲
وَعَن ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: بَيْنَمَا ثَلاثَةُ نَفَر مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يَمْشُونَ إِذْ أَصَابَهُمْ مَطَرْ فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فَانْطَبَقَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ إِنَّهُ وَاللَّهِ يَا هَؤُلَاءِ لَا يُنجِيكُمْ إِلَّا الصِّدْقُ ، فَلَيَدْعُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِمَا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ صَدَقَ فِيهِ فَقَالَ وَاحِدٌ مِنْهُمُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَجِيرٌ عَمِلَ لِي عَلَى فَرَقٍ مِنْ أَرُزُ فَذَهَبَ وَتَرَكَهُ وَأَنِّي عَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ فَصَارَ مِنْ أَمْرِهِ أَنِّي اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرَاء وَأَنَّهُ أَتَانِي يَطْلُبُ أَجْرَهُ فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدُ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ فَسُفْهَا فَقَالَ لِي: إِنَّمَا لِي عِنْدَكَ فَرَقٌ مِنْ أَرُزُ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدُ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ فَإِنَّهَا مِنْ ذَلِكَ الْفَرَقِ، فَسَاقَهَا فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ . فَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ گيران فَكُنتُ أَتِيهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ بِلبن غنم لِي ، فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِمَا لَيْلَةً فَجِئْتُ وَقَدْ رَقَدَا وَأَهْلِي وَعِبَالِي يَتَضَاعَونَ مِنَ الْجُوع، فكُنتُ لَا أَسْقِيهِمْ حَتَّى يَشْرَبَ أَبْوَايَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِفَلَهُمَا وَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا فَيَسْتَكِنَّا لِشَرْبَتِهِمَا، فَلَمْ أَزَلْ أَنتَظِرُ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِن كُنتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ حَتَّى نَظَرُوا إِلَى السَّمَاءِ. فَقَالَ الآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي ابْنَةُ عَمْ مِنْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى وَأَنِّي رَاوَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَأَبَتْ إِلَّا أَنْ آتِيهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ ، فَطَلَبْتُهَا حَتَّى قَدَرْتُ فَأَتَيْتُهَا بِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهَا فَأَمْكَتَتَنِي مِنْ نَفْسِهَا ، فَلَمَّا فَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا ، فَقَالَتِ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْضُ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ الْمِائَةَ دِينَارٍ، فَإِن كُنتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عنَّا، فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَخَرَجُوا.
’’اور حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم سے پہلے دور کی بات ہے کہ تین آدمی سفر پر روانہ ہوئے، اچانک چلتے چلتے ان کو بارش نے آلیا جس کی وجہ سے وہ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ، وہ غار میں داخل ہوئے تو (ایک بھاری پتھر کے ذریعہ) غار کا منہ بند ہو گیا۔ وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے: اللہ کی قسم ! تمہیں اس مصیبت سے تمہارا وہ عمل ہی نجات دلا سکتا ہے جو تم نے صدق دل سے کیا ہو، لہذا تم میں سے ہر شخص اپنے اس عمل کو سامنے رکھ کر دعا کرے جو اس نے صدق دل سے کیا ہو۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ ! بلاشبہ تو جانتا ہے کہ میرے پاس ایک مزدور تھا جس نے میرے ہاں کام کیا (کسی وجہ سے ناراض ہو کر) وہ اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے وہ اجرت کے پیسے کاشت کر دیئے جس کی آمدنی سے میں نے ایک گائے خرید لی اور پھر وہ ایک دفعہ مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے کے لیے آیا تو میں نے کہا: اس گائے کی طرف جاؤ اور اسے کھول کر لے جاؤ، اس نے مجھے کہا: تمہارے پاس میرے صرف چاول ہیں، پھر میں نے کہا: اس گائے کو پکڑ کر لے جاؤ، یہ میں نے اس سے کمائی ہے لہذا وہ گائے لے کر چلتا بنا، پس اے اللہ ! اگر میں نے تیرے ڈر سے یہ کام کیا تھا تو تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دے۔ چنانچہ پھر تھوڑا سا سرک گیا۔ پھر دوسرے نے کہا: اے اللہ ! بے شک تو جانتا ہی ہے کہ میرے والدین انتہائی بوڑھے تھے، پس میں ہر رات ان کو اپنی بکری کا دودھ دھو کر پلاتا تھا، ایک رات مجھے ان کو دودھ پیش کرنے میں دیر ہوگئی ، جب میں ان کے پاس دودھ لے کر آیا تو وہ سو چکے تھے جبکہ میرے اہل و عیال بھوک سے بلکتے رہے لیکن میں ان کو دودھ نہیں پلاتا تھا، جب تک کہ میرے والدین نہ پی لیتے اور میں نے ان کو بیدار کرنا بھی پسند نہ کیا اور میں نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ ان کو اس طرح چھوڑ دوں کہ کہیں وہ دودھ پینے کی وجہ سے کمزور نہ ہو جائیں، لہذا میں طلوع فجر تک ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا، پس اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے ڈر سے کیا تھا تو تو ہم سے اس پتھر کو دور کر دے، لہذا وہ پتھر ان سے اتنا دور گیا کہ ان کو آسمان نظر آنے لگا، پھر تیسرے نے کہا : اے اللہ ! تو تو جانتا ہی ہے میری ایک چچا کی بیٹی تھی جو مجھے تمام لوگوں سے بڑھ کر پیاری لگتی تھی ، میں نے اس کو پھسلا کر برائی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کیا ، الا یہ کہ میں اس کو ایک سو دینار عطا کروں، پس میں نے وہ مطلوبہ دینار جمع کیے اور اس کے پاس لے کر آگیا اور اس کو پیش کر دیے، پس اس نے مجھے اپنے جسم پر قدرت دے دی، جب میں اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور ناحق مہر کو مت توڑ، پس میں کھڑا ہوا اور سو دینار چھوڑ دیا (اور اس کو بھی زنا کیے بغیر چھوڑ دیا) پس اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہم سے اس پتھر کو دور کر دے، چنانچہ اللہ نے ان سے وہ پتھر ہٹا دیا اور وہ غار سے باہر نکل آئے۔‘‘
صحيح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم :۳۴۶۵
❀خوشحالی میں بھی اللہ تعالیٰ سے جان پہچان رکھو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ” انھوں نے اللہ کی قدر (اس طرح) نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔‘‘
(الانعام :۹۱)
حدیث ۲۳
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ وَلَا أَحْفَظْ حَدِيثَ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ أَنَّهُ قَالَ: كُنتُ رَدِيفَ رَسُولِ اللهِ ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ أَوْ يَا غُلَيْمٌ أَلا أُعلمكَ كَلِمَاتٍ يَنفَعُكَ اللَّهُ بِهِنَّ فَقُلْتُ: بَلَى ، فَقَالَ: احْفَظ اللهَ يَحْفَظْكَ ، اِحْفَظ اللهَ تَجِدْهُ آمَامَكَ ، تَعْرِفْ إِلَيْهِ فِي لرَّخَاءِ، يَعْرِفُكَ فِى الشِدَّةَ، وَإِذَا سَأَلْتَ، فَاسْأَلِ اللَّهَ ، وَإِذَا اسْتَعَنتَ، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ ، قَدْ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ، فَلَوْ أَنَّ الْخَلْقَ كُلَّهُمْ جَمِيعًا أَرَادُوا أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبُهُ اللَّهُ عَلَيْكَ ، لَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ، وَإِنْ أَرَادُوا أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبُهُ اللَّهُ عَلَيْكَ ، لَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ، وَاعْلَمُ أَنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا نَكَرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَإِنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ ، وَإِنَّ الْفَرْجَ مَعَ الكررْبِ، وَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.
’’اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے۔ اور مجھے کچھ حصہ یاد نہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا۔ اور آپ نے مجھے ارشاد فرمایا:اے بچے! کیا میں تمھیں کچھ نفع مند کلمات نہ سکھلا دوں؟ میں نے عرض کیا، کیوں نہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی حفاظت کر وہ تیری حفاظت کرے گا، اللہ کی حفاظت کر اسے اپنے سامنے پائے گا، تو اسے آسائش میں یاد رکھ وہ تجھے تنگی میں یاد رکھے گا۔ اور جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر، اور جب مدد مانگے تو بھی اللہ سے مدد مانگ۔ یقینا قلم خشک ہو گیا ہے۔ پس اگر ساری مخلوق اکٹھی ہو کر تجھے نفع دینا چاہے جو نفع اللہ نے تیرے مقدر میں نہیں لکھا تو اس کی طاقت نہیں رکھتے اور سارے مل کر تیرا نقصان کرنا چاہیں جو اللہ نے تیرے مقدر میں نہیں لکھا تو بھی تیرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ۔ اور جان لے جس کو ہم پسند نہیں کرتے اس میں بہت خیر ہے اور مدد صبر کے ساتھ ہے اور کشادگی تنگی کے بعد آتی ہے اور آسانی تنگی کے ساتھ ہے۔‘‘
مسند احمد : ۳۰/۱، رقم : ۲۰۰۳
❀رنج و غم میں مبتلا شخص کی دعائیں
قَالَ الله تَعَالَى: أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٦٢﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’(کیا یہ بہت بہتر ہیں) یا وہ (اللہ) جو مجبور ولاچار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے، اور وہ اس کی تکلیف دور کر دیتا ہے، اور وہ تمھیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔“
(النمل :۶۲)
حديث ۲۴
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَا قَالَ عَبْدٌ قَط إِذَا أَصَابَهُ هُمْ وَحَزَنْ أَللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ وَفِي قَبْضَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ، عَدْلٌ فِي قضَاهُ كَ ، أَسْتَلكَ بِكُلِّ إِسْمٍ هُوَ لَكَ ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَلْهَمْتَ عِبَادَكَ ، أَوْ إِسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي مَكْنُونَ الْغَيْبِ عِنْدِكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي ، وَنُورَ صَدْرِي وَجَلَاءَ حُزْنِي وَذِهَابَ هَمِّي . إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ . همهُ ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَ حُزْنِهِ فَرَحًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! يَنْبَغِي لَنَا أَنْ تَتَعَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ قَالَ: أَجَلْ ، يَنبَغِي لِمَنْ سَمِعَهُنَّ أَنْ يَتَعَلَّمَهُنَّ.
’’اور سید نا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص کسی رنج و غم میں مبتلا ہو وہ یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالی اس کے غم کو خوشی میں بدل دے گا: اے اللہ ! میں تیرا بندہ ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھے پر تیرا حکم ہی چلتا ہے، تیرا ہر فیصلہ میرے حق میں انصاف کا ہی ہوتا ہے، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں جو تیرے ہی ساتھ خاص ہے اور تو نے خود اسے اپنے لیے خاص کیا ہے، یا تو نے اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا پھر تو نے ابھی تک اسے علم غیب میں ہی محفوظ رکھا ہوا ہے جو تیرے پاس ہے، (میں سوال یہ کرتا ہوں کہ) تو قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار، آنکھوں کی ٹھنڈک، غموں کا مداوا اور پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ بنا دے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ ! کیا ہم لوگوں کو یہ دعا نہ سکھائیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیوں نہیں، جو بھی اس دعا کو سنے، اسے چاہیے کہ وہ آگے سکھائے ۔“
مسند احمد، رقم : 3712، 4318، سلسلة الصحيحة، رقم : 199
حديث ۲۵
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الْكَرْبِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْحَكِيمُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الكريم.
’’اور سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی ﷺ کو کوئی کام سخت پریشانی میں مبتلا کر دیتا تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا بر دبار اور بہت عظمت والا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ آسمانوں، زمین اور عرش کریم کا رب ہے۔‘‘
صحيح بخاری، کتاب الدعوات، رقم : 6346، صحیح مسلم، رقم : 6961
حديث ۲۶
وَعَنْ أَنَسِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ يَقُولُ: أَللَّهُمَّ أَعُوذُبِكَ مِنَ الهم وَالْحُزْن، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُيْنِ وَضَلَع الدين وغلبة الرجال.
’’اور سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ غم وحزن سے پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا پڑھتے تھے: اے اللہ ! میں غم وحزن ، کمزوری اور سستی ، بخیلی اور بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الدعوات، رقم : 6369
❀حفاظت کے لیے آیت الکرسی کا ورد
حدیث ۲۷
وَعَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: وَكَلَنِي رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بحفظ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتِ فَجَعَلَ يَحْلُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ وَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِنِّي مُحْتَاج وَعَلَى عِبَالٌ ، وَلِى حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ: النَّبِيُّ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِبَالًا فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَّبَكَ وَسَيَعُودُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ إِنَّهُ سَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجُ ، وَعَلَى عِبَالُ لَا أَعُودُ، فَرَحمتهُ فَخَلَّيْتُ سَبيلَهُ فَأَصْبحْتُ ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ مَا فَعَلَ أَمِيرُكَ . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ شَكَا حَاجَةٌ شَدِيدَةً وَعِبَالًا فَرَحِمَتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ. قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ فَجَعَلَ يَحْنُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ، وَهَذَا آخِرُ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَنَّكَ تَزْعُمُ لا تَعُودُ ثُمَّ تَعُودُ. قَالَ: دَعْنِي أَعَلِمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللهُ بِهَا قُلْتُ مَا هُوَ؟ قَالَ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيَ ﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾(البقرة:۲۵۵) حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ ، يَنْفَعُنِي اللهُ بِهَا فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ . قَالَ: مَا هِيَ قُلْتُ قَالَ: لِى إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةً الْكُرْسِي مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ وَاللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظُ وَلَا يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الْخَيْرِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنذُ ثَلاثِ لَيَالِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: لَا ، قَالَ: ذَاكَ شَيْطَانٌ.
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھر بھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم ﷺ نے مجھ سے پوچھا، اے ابو ہریرہ ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا، یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے ابھی وہ پھر آئے گا۔ رسول کریم ﷺ کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھے کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آکے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر کروں گا۔ لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہیں آؤں گا، مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا، اے ابو ہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ پھر میں اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا، وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی ﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا ۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آسکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریمﷺ نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع ﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔“
صحیح بخاری، كتاب الوكالة، رقم : 2311.
❀ہر آفت و پریشانی سے بچنے کے لیے معوذ تین
حدیث ۲۸
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبَيبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجْنَا فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ وَظُلْمَةِ شَدِيدَةٍ نَطْلبُ رَسُولَ اللَّهِ يُصَلِّي لَنَا ، قَالَ: فَأَدْرَكْتُهُ فَقَالَ: قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ: قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: قُلْ فَقُلْتُ: مَا أَقُولُ؟ قَالَ: قُلْ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَودَتَيْنِ حِينَ تُمْسِى وَتُصْبِحُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شئی
’’اور حضرت عبداللہ بن خصیبؓ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! میں کیا پڑھوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر صبح و شام تین تین مرتبہ ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ (سوره اخلاص) ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ (سوره الفلق) اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ (سورۃ الناس) پڑھو تو یہ تمہیں ہر (آفت و پریشانی والی) چیز سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
سنن الترمذی، رقم: ۳۸۲۸، سنن أبی داؤد، رقم :۵۰۸۲
❀سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات ہر مصیبت سے بچنے کے لیے کافی
حدیث ۲۹
وَعَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِى اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : مَنْ قَرَأَ بالآيتين مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ.
’’اور حضرت ابو مسعودؓ سے مروی ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے رات کو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کو (ہر قسم کی آفت و مصیبت سے بچانے کے لیے) کافی ہیں۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، رقم :۵۰۰۹
❀مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر یہ دعا پڑھو
حدیث ۳۰
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَنْ رَأَى مُبْتَلَى فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلا ، لَمْ يُصِبْهُ ذَلِكَ البَلاءُ.
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر یہ پڑھا: (سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایا ہے جس میں تمہیں مبتلا کیا ہے اور جس نے مجھے بہت سی دیگر مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے ) تو وہ (مذکورہ دعا پڑھنے والا) کبھی اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہو گا۔“
سنن الترمذی، رقم : 3432، سلسلة الصحيحة، رقم : 2737.
❀تمام مخلوق کے شر سے پناہ مانگنے کی دعا
حدیث ۳۱
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يمْسِى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ يَضُرَّهُ حُمَةٌ تِلْكَ اللَّيْلَةَ.
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے شام کے وقت تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ الثَّامَاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (میں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعہ تمام مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں) تو اسے اس رات ڈنگ مارنے والے جانور کا زہر نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘
سنن الترمذى، باب في الإستعاذة، رقم :۳۶۰۴
❀ناگہانی آفات سے بچنے کی دعا
حدیث ۳۲
وَعَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ عَفَّانَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: مَنْ قَالَ بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَمْ تُصِبْهُ فَجَأَة بَلَاءِ حَتَّى يُصْبِحَ، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُصْبِحُ ثَلَاثُ مَرَّاتٍ لَمْ تُصِبَهُ فَجَأَةٌ بَلَاءِ حَتَّى يُمْسِى.
’’اور حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے (شام کے وقت) تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (اللہ کے نام کے ساتھ جس کے نام کی برکت سے زمین و آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی) تو اسے صبح تک کوئی بلائے ناگہانی نہیں پہنچے گی اور جس نے صبح کے وقت تین مرتبہ یہ کلمات کہے تو شام تک اس کو کوئی اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی ۔“
سنن أبی داؤد، رقم: ۸۰۸۸ سنن ترمذی، رقم : ۳۳۹۷
❀زوال نعمت سے پناہ کی دعا
حدیث ۳۳
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَولِ عَافِيَتِكَ وَفُجَانَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ.
’’اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا درج ذیل ہے: اے اللہ! میں تیری نعمت کے زوال، تیری عافیت سے محرومی، تیرے اچانک عذاب اور تیرے ہر قسم کے غصے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
صحیح مسلم، کتاب الرقاق، رقم : ۶۹۴۳.
❀دنیا اور آخرت میں اللہ سے عافیت کا سوال کرتے رہو
حدیث ۳۴
وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: لَمْ يَكُن رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَدَعُ هَؤُلاءِ الدَّعَوَاتِ حِينَ يُمْسِى وَحِينَ يُصْبِحُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَة فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ، اللهم إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَة فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي ، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَنِي. وَقَالَ عُثْمَانُ عَوْرَاتِي، وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِى، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أَغْتَالَ مِنْ تحتی
’’اور حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمرؓ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کلمات کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے: اور اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ یا اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین، دنیا، گھر والوں اور اپنے مال میں معافی اور درگزر کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! میرے عیب ڈھانپ لے اور مجھے خوف سے محفوظ رکھ اور میرے سامنے اور پیچھے، دائیں اور بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما اور میں تیری عظمت کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ نیچے سے ہلاک کیا جاؤں۔‘‘
سنن ابو داؤد، باب ما يقول إذا أصبح ، رقم : ۵۰۷۴ سنن ابن ماجة، رقم :۵۰۷۴
❀دعا مصیبت کو ٹالتی ہے
حدیث ۳۵
وَعَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْعُو بِدُعَاءِ إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ، أَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوْءِ مِثْلَهُ، مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمِ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِم.
’’اور حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد یہ فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی شخص دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو وہی چیز عطا کر دیتا ہے جو اس نے مانگی ہوتی ہے یا اس دعا کے برابر اس سے کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ مانگے ۔“
سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم : ۳۳۸۱
❀جسم میں درد ہو تو یہ دعا پڑھیں
حدیث ۳۶
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيِّ: أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ وَجَعًا، يَجِدُهُ فِي جَسَدِهِ مُنْذُ أَسْلَمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ : ضَعْ يَدَكَ عَلَى الَّذِي تَأَلَّمَ مِنْ جَسَدِكَ، وَقُلْ بِاسْمِ اللَّهِ، ثَلاثًا ، وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأَحَاذِرُ.
’’اور حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنا ہاتھ جسم کے اس حصے پر رکھو جہاں تم درد محسوس کرتے ہو، پھر تین مرتبہ بسم اللہ (اللہ کے نام کی برکت سے) پڑھ اور پھر سات مرتبہ پڑھو : أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأَحَاذِرُ میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور قدرت کی پناہ پکڑتا ہوں اس چیز کے شر سے جو میں پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم :۵۷۳۷
❀غموں کے گھیرے سے نکلنے کے لیے دعا
حديث ۳۷
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمِ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو أُمَامَةَ فَقَالَ: يَا أَبَا أُمَامَةَ، مَا لِي أَرَاكَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فِي غَيْرِ وقتِ الصَّلَاةِ؟ قَالَ: هُمُوم تَزمَتْنِي وَدُيُون يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: أَفَلَا أُعْلِمُكَ كَلامًا إِذَا أَنْتَ قُلْتَهُ أَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَمَّكَ، وَقَضَى عَنْكَ دَيْنَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: قُلْ: إِذَا أَصْبَحْتَ وَإِذَا أَمْسَيْتَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الهَم وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأَعُوذُبِكَ مِنَ الجُبْن وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُبِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدِّينِ وَقَهرِ الرجال.
’’اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو وہاں پر ابو امامہ نامی ایک انصاری صحابی تھا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو امامہ! میں تم کو نماز کے وقت کے علاوہ مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں (کیا بات ہے؟)۔ ابو امامہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے غموں نے گھیر رکھا ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایک کلام نہ سکھاؤں کہ جب تم اس کو پڑھو تو اللہ تعالیٰ تمہارا غم دور کر دے گا اور تمہارا قرض اتار دے گا۔ کہتے ہیں، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! کیوں نہیں! (ضرور بتائیے) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: صبح و شام پڑھو: اے اللہ! بلاشبہ میں غم وحزن سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور کمزوری و سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی اور بخیلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ابو امامہؓ کہتے ہیں: میں نے مذکورہ دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے میرا غم بھی دور کر دیا اور میرا قرض بھی اتار دیا۔‘‘
سنن أبی داؤد ، باب في الإستعارة، رقم : ۱۵۵۵
❀فقر و فاقہ سے بچنے کی دعا
حديث ۳۸
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْمُرُنَا إِذَا أخَذَ أَحَدُنَا مَضْجَعَهُ أَنْ يَقُولُ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِينَ وَرَبَّنَا وَرَبَّ كُلَّ شَيْءٍ وَفَالِقَ الْحَبَ وَالنَّوَى وَمُنْزِلَ الشَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلَّ ذِي شَرِّ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ ، أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَالظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَالْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ، اقْضِ عَنِى الدِّينَ وَأَغْنِنِي مِنْ الْفَقْرِ.
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم فرماتے کہ ہم میں سے کوئی بھی بستر پہ لیٹے تو یہ دعا پڑھے: اے آسمانوں اور زمین کے رب! اور ہر چیز کے رب! دانے اور کھلی کو پھاڑنے والے! تورات، انجیل اور قرآن کو نازل کرنے والے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، ہر اس شریر کے شر سے جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تو ہی اول ہے پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور تو ہی آخر ہے پس تیرے بعد کوئی چیز نہیں اور تو ہی ظاہر ہے پس تجھے سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تو ہی باطن ہے تجھ سے نیچے کوئی چیز نہیں، مجھ سے قرض دور فرما اور فقر و فاقہ سے میری کفایت فرما۔‘‘
سنن الترمذي، أبواب الدعوات، رقم : ۳۴۰۰
حديث ۳۹
وَعَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ : اللَّهُمْ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
’’اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کثرت سے دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ ! ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔“
صحیح بخاری، کتاب الدعوات، رقم : ۶۳۸۹، صحیح مسلم، رقم :۲۶۹۶
❀مصیبت زدہ تسلی دینے کا ثواب
حديث ۴۰
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَزِى أَخْطَأَهُ بِمُصِيبَةٍ إِلَّا كَسَاءُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مِنْ حُلَلِ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’اور حضرت عمرو بن حزمؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے، اللہ تعالی اسے قیامت کے دن عزت افزائی کا خلعت عطا فرمائے گا۔“
سنن ابن ماجه، كتاب الجنائز، رقم : ۱۶۰۱ سلسلة الصحيحة، رقم : ۱۹۵
وَصَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَى خَيْرٍ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ