ماخوذ : احکام و مسائل – جہاد و امارت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 461
سوال
ایک حدیث میں ہے کہ جو مشرک کے ساتھ جمع ہوا اور اس کے ساتھ سکونت اختیار کی، وہ اسی کے مثل ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی مسلمان ایسے علاقے میں رہائش اختیار کرے جہاں مشرکین و کفار کی اکثریت ہو اور وہاں مسلمانوں کی طرف سے مسلسل حملے بھی ہو رہے ہوں، تو ایسی صورت میں وہ شخص اس حدیث کا مصداق بن سکتا ہے جس میں فرمایا گیا:
من جامع المشرك وسكن معه، فإنه مثله”..سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مشرک کا ساتھ دیا اور اس کے ساتھ رہا، وہ اسی کی طرح ہو گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1264]
البتہ اگر اس مسلمان کو امیر المومنین کی طرف سے کسی مخصوص مقصد کے تحت وہاں رہنے کی اجازت ملی ہو، تو وہ اس حکم میں شامل نہیں ہوگا۔
نیز، اگر وہ مسلمان وہاں مستضعفین (کمزور و مجبور افراد) میں شمار ہوتا ہے، یعنی وہ کسی مجبوری یا بے بسی کی حالت میں ہے، تو بھی وہ اس وعید میں شامل نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
2 Responses
السالم علیکم
یہ مسئلہ میری کزن کا ہے اس کے شوہر لندن میں ہیں اور اپنی فیملی کو بھی بلانا چاہتے ہیں۔میری کزن ان لوگوں کے رہن سہن کو اور وہاں موجود فحاشی کو برا بھلا کہتی رہتی ہے۔اکثر اس کے شوہر اس چیز سے منع کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے یہیں آ کے رہنا ہے اس لیے ان کو برا نہ کہو۔لیکن کزن اسی بات پہ بضد رہتی ہے کہ برائی کو دل میں تو برا جاننا چاہیے۔اس کے شوہر اور اسکی بحث اکثر اسی بات پہ رہتی ہے کہ بیوی اس معاشرے کے رہن سہن سے نفرت کا اظہار کرتی رہتی ہے اور شوہر کو برا لگتاہے تو کہتا ہے آکے انھی لوگوں میں رہنا ہے تو نفرت کیوں کیا حضور پاک کے دور میں بھی مسلمان کافروں سے اور ان کے رہن سہن سے نفرت کرتے تھے۔۔
اسلام کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں کہ بیوی کا رویہ صحیح ہے یا غلط۔
قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ
دارالکفر یعنی کفار کے ممالک کی طرف ہجرت کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے انسان کا ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے اور فحاشی اور منکرات میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔