مسلمان سے لڑائی اور گالی کا سنگین انجام
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏سباب المسلم فسوق وقتاله كفر .‏‏‏‏ [متفق عليه]
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی ) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ “
[متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 6044] ، [مسلم، الايمان] وغیرھما،۔ دیکھئے تحفۃ الاشراف [35/7، 55/7، 39/7، 129/7، 314/7، 349/7]
مفردات :
سِبَاب، سَبَّ يَسُبُّ (نَصَرَ يَنْصُرُ) کا مصدر سَبٌ اور سِبَابٌ دونوں طرح آتا ہے گالی دینا بعض نے فرمایا یہاں سباب باب مفاعلہ میں سے ہے یعنی دونوں جانب سے گالی گلوچ کرنا۔ اَلسُّبَّةُ جسے گالی دی جائے دبر کو بھی سُبَّۃ کہا جاتا ہے کیونکہ گالی دیتے وقت اسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ابراہیم حربی نے فرمایا : سباب سب سے زیادہ سخت اور تکلیف ده گالی کو کہتے ہیں کیونکہ سباب کا مطلب ہے کہ کسی آدمی کے ان عیوب کا ذکر کیا جائے جو اس میں ہیں اور ان کا بھی جو اس میں نہیں ہیں۔
قِتَال – باب مفاعلہ کا مصدر ہے ایک دوسرے سے لڑنا۔
فُسُوْق . نَصَرَ يَنْصُرُ کا مصدر ہے۔ فَسَقَ يَفْسُقُ فِسْقًا وَ فُسُوْقًا لغت میں اس کا معنی ”نکلنا ہے“ اور شرع میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نکلنا مراد ہے۔ شرع میں یہ عصیان سے سخت ہے۔ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ [49-الحجرات:7] اور اس نے کفر، فسوق اور عصیان کو تمہارے لئے ناپسند بنا دیا۔ [فتح ]

فوائد :
➊ مسلمان کو گالی دینا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ مقابلے میں بھی گالی دینے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ مقابلے میں بھی زیادتی سے بچنا مشکل ہے۔
➋ اگر کوئی ابتداءً گالی دے تو اس سے بدلہ لینا جائز ہے اگرچہ بہتر صبر ہے۔ وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَـٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ [الشوري : 41] ”جو شخص ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لے لے تو ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں۔ “ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ) [الشوري : 43] ”اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یقیناً یہ ہمت کا کام ہے۔ “
➌ بدلہ لینے میں شرط یہ ہے کہ صرف اتنی گالی دے جتنی اسے دی گئی ہے زیادتی نہ کرے اور نہ وہ بات کرے جو جھوٹ ہو۔ اس صورت میں دونوں کا گناہ گالی کی ابتداء کرنے والے پر ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
المستبان ما قالا فعلى البادي منهما ما لم يعتد المظلوم [سنن ترمذي 1981 ]
”دو گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔ “
اگر دونوں ہی ایک دوسرے پر جھوٹ باندھیں تو دونوں گناہ گار ہیں اگرچہ پہل کرنے والا پہل کا مجرم بھی ہے۔ عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : المستبان شيطانان يتهاتران ويتكاذبان [صحيح ابن حبان – 5696]
”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بدزبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔
➍ ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو گالی دے سکتا ہے خصوصاً جب وہ محارب (حالت جنگ میں ) ہو اس وقت اسے ذلیل کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کے ارد گرد ادھر ادھر کے لوگ جمع ہیں جب جنگ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا : امصص بظر اللات انحن نمر عنه
[بخاري، الشروط /5]
”(جاؤ جا کر) لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟“
➎ ”اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے“ لڑائی کرنا گالی دینے سے سخت ہے اس لئے اس پر حکم بھی سخت ہے۔
➏ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے انسان مومن نہیں رہتا بلکہ ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا : لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض [بخاري 7077]
”میرے بعد دوباره کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ خارجی لوگوں کا یہی موقف ہے اور اسی بنا پر انہوں نے علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی لوگوں کو بزعم خویش کبیرہ کا مرتکب ہونے کی بنا پر کافر قرار دیا مگر ان احادیث سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں، بلکہ شریعت کے قواعد اور قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔
➐ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کفر دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک وہ کفر جس سے مراد خروج عن الاسلام ہے اور جس کا مرتکب اسلام سے خارج اور ابدی جہنمی ہے یہ کفر جحود اور بڑا کفر ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ماننے سے انکار کر دینا یہ جانتے ہوئے کہ یہ بات واقعی اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور اس انکار کو درست سمجھنا۔
کفر کی دوسری قسم کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ نے كفرٌ دُوْنَ كفرٍ (بڑے کفر سے کم تر کفر قرار دیا ہے) یعنی اسلام میں رہ کر کفر کے کسی کام کا ارتکاب کرنا۔ اس کفر کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے چھوٹی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [صحيح مسلم۔ الايمان /12]
ایمان کی ان تمام شاخوں کی ضد جتنے کام ہیں سب کفر کے کام ہیں۔ مگر کفر کے ہر کام کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ مثلا اگر کوئی شخص اسلام قبول کر لینے توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے، نماز قائم کرنے، زکوة ادا کرنے اور عملی طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان ہو جانے کے بعد کسی گناه مثلاً قتل، زنا، چوری وغیرہ کا ارتکاب کرتا ہے مگر ان کاموں کو جائز نہیں سمجھتا، نہ ہی اللہ اور اس کے رسول کی کسی بات کا انکار کرتا ہے تو یہ شخص گناہ گار مسلم ہے، یہ نہ اسلام سے خارج ہے، نہ ابدی جہنمی۔ ہاں اس نے جو گناہ کیا ہے وہ کفر اور جاہلیت کا کام ہے اس لئے اس کے متعلق اگر کہیں کافر کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی بھی کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہے اور نہ یہ کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔
اس تفصیل کی دلیل کے لئے چند آیات و احادیث پر غور کریں۔
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ [4-النساء:48]
”یقیناًً اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ چیزیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مشرک جو شرک پر فوت ہو اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں ہاں مومن کے گناہ اللہ چاہے گا تو بخش دے گا۔ چاہے تو سزا دے کر جہنم سے نکال لے گا۔
(ب) شفاعت کی تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ملت اسلام کا فرد ہے اور اسے اللہ چاہے گا تو شفاعت کے ذریعے جہنم سے نکال دے گا اور چاہے گا تو محض اپنے فضل و کرم سے بغیر کسی کی شفاعت کے جہنم سے نکال دے گا۔
(ج) اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا [49-الحجرات:9]
”اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کروا دو۔ “
اس کے بعد والی آیت میں فرمایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ [49-الحجرات:10]
”مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان آپس میں لڑائی کے باوجود مومن ہیں ان کی ایمانی اخوت ختم نہیں ہوئی کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائیں۔ اسی طرح قصاص کی آیات میں قاتل کو اور مقتول کے وارثوں کو بھائی قرار دیا۔ فرمایا :
فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ [2-البقرة:178]
”تو جس شخص کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کر دی جائے تو پیچھا کرنا ہے اچھے طریقے سے اور اس کی طرف ادا کرنا ہے احسان کے ساتھ۔“
معلوم ہوا کہ قتل کے باوجود قاتل مسلمان ہے اور مقتول کے وارثوں کا دینی اور ایمانی بھائی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے یا طلحہ و زبیر و عائشہ رضی اللہ عنہم اور حضرت علی اللہ رضی اللہ عنہ کے در میان حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان جو جنگیں ہوئیں اپنے بالمقابل لڑنے والے کسی شخص کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کافر قرار نہیں دیا، نہ ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنایا، نہ ان کے مال کو مال غنیمت بنایا۔ اگر وہ انہیں کافر قرار دیتے تو مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کی طرح ان کے اموال کو مال غنیمت بناتے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بناتے۔
ان آیات اور صحابہ کرام انتظام کے اجماع سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو جو کفر قرار دیا گیا ہے اور آپس میں لڑنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر کا کام ہے ایمان کا نہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والا کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے یہ نہیں کہ مسلمان سے لڑنا اسلام سے خارج ہونا ہے اور نہ یہ کہ مسلمان سے لڑنے والا ملت اسلام سے خارج ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کئی صحابہ سے قتل، زنا، چوری بہتان، شراب نوشی اور دوسرے گناہوں کا صدور ہوا آپ نے ان پر اللہ کی مقرر کردہ حدیں لگائیں مگر نہ کسی کو کافر قرار دیا نہ ملت اسلام سے خارج قرار دیا نہ ہی کسی کو مرتد قرار دے کر اس پر ارتداد کی حد (قتل) لگائی۔
➒ مسلمان کو گالی دینے کو فسق اور اس سے لڑنے کو کفر قرار دینے سے ان گناہوں کی قباحت اور شناعت صاف ظاہر ہے اہل ایمان کو فسق اور کفر کا ارتکاب کسی طور پر زیب نہیں دیتا۔
➓ بعض علماء نے ”مسلمان سے لڑائی کرنا کفر ہے“ کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اسے مجازاً کفر قرار دیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی نعمت اس کے احسان کی ناشکری اور اخوة اسلام کی بے قدری ہے۔ یہ وہ کفر نہیں جو ایمان سے انکار پر لازم آتا ہے۔ اسے کفر اس لئے قرار دیا گیا کہ اس گناہ میں بڑھتے بڑھتے دل پر زنگ لگ جانے کی وجہ سے بعض اوقات انسان بڑے کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ اعاذنا الله منه

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔