سوال :
مسجد میں درس قرآن مجید ہفتے کے کتنے دن دیا جا سکتا ہے؟ کیا روزانہ کسی بھی نماز کے بعد دیا جا سکتا ہے، یا اس کے لیے ہفتے میں کوئی خاص وقت اور دن مقرر کرنا چاہیے؟ جو چیز قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ تحریر کر دیں۔
جواب :
قرآن مجید کے دروس کے لیے شریعت میں دنوں کا تعین اور حد بندی نہیں ہے۔ خطیب و واعظ، عالم و مدرس کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ سامعین اکتا نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نوح علیہ السلام کی دعوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا﴾
(نوح: 5)
”نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! یقیناً میں نے اپنی قوم کو رات اور دن دعوت دی ہے۔“
یعنی میں نے دن اور رات کی گھڑیوں میں تیرے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور تیری اطاعت کی چاہت میں اپنی قوم کو دعوت دینا ترک نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ دن اور رات میں قوم کو اللہ کے دین کی طرف بلانا بلاشبہ درست ہے، انبیاء و رسل کا یہ صبح و شام طریقہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مختلف اوقات میں اپنی امت کو دین کی دعوت دیتے اور اس بات کا لحاظ بھی رکھتے کہ سامعین اکتا نہ جائیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يتخولنا بالموعظة فى الأيام كراهة السآمة علينا
(بخاری کتاب العلم باب ما كان النبي .. الخ ح 68)
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کر دیے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں۔“
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے:
باب ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يتخولهم بالموعظة والعلم لا ينفرهم
”اس بات کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوں کو نصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے لیے وقت مقرر کرتے تا کہ انھیں ناگوار نہ ہو۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکتاہٹ و ملال کے ڈر سے عمل صالح میں دوام اور پیشگی کو ترک کرنا مستحب ہے، اگر چہ مواظبت و دوام مطلوب و مقصود ہے، لیکن اس کی اقسام ہیں، یعنی یا تو تکلیف کے بغیر اذانہ عمل کیا جائے، یا ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن وعظ کیا جائے، تاکہ جس دن عمل چھوڑا جائے وہ دوسرے دن کے لیے نشاط کا باعث ہو، یا ہر ہفتہ میں ایک دن ہو، یہ حالات و واقعات اور اشخاص و افراد کے مختلف ہونے پر منحصر ہے، تفصیل کے لیے فتح الباری ح (163/1) ملاحظہ ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بعد دوسرا باب یوں قائم کیا ہے: من جعل لأهل العلم أياما معلومة اس بات کا بیان کہ کوئی شخص اہل علم کے لیے کچھ دن مقرر کر دے۔ پھر اس کے تحت حدیث لاتے ہیں کہ ابو وائل شفیق بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: ”اے ابو عبد الرحمن! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔“ تو عبد الرحمن بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”مجھے صرف یہ چیز مانع ہے کہ کہیں تم تنگ نہ آ جاؤ۔“ (بخاری کتاب العلم ح 70)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عوام کی تنگی اور اکتاہٹ کا خیال رکھ کر درس دیا جائے، اگر اکتاہٹ محسوس نہ کریں تو روزانہ بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ مناسب یہی ہے کہ وقفہ وقفہ سے درس و تدریس کی جائے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انھوں نے کہا: ”لوگوں کو ہر ہفتہ میں ایک بار بیان کر، اگر تو انکار کرتا ہے تو دو دفعہ اور اگر زیادہ کرنا ہو تو تین مرتبہ کر لیا کر وہ اس قرآن کے ساتھ لوگوں کو اکتاہٹ میں مبتلا نہ کر۔“
(بخاری کتاب الدعوات باب ما يكره من السجع في الدعاء ح 6337)
ابن ابی سائبہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہفتہ میں ایک بار بیان کر، اگر تو انکاری ہے تو دو مرتبہ، اگر اس سے بھی انکاری ہے تو تین دفعہ، میں تمھیں ہرگز ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ تم لوگوں کے پاس آؤ وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں تو تو ان پر ان کی باتیں منقطع کر دے، لیکن جب وہ تیری بات کی طرف کان لگا دیں تو ان کو بیان کر اور دعا میں سجع کلامی سے بچا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا عہد پایا ہے وہ اس کو ناپسند کرتے تھے۔
(صحیح ابن حبان ح 978، مسند أحمد 217/6 ح 26340)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”میں اور میرا ایک انصاری بھائی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے، جو مدینہ کے (مغرب کی طرف) بلند علاقوں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔ ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں آتا، جس دن میں آتا اس دن کی خبریں اور دیگر باتوں کی خبر میں اسے دیتا اور جب وہ آتا تو اسی طرح کرتا۔“
(بخاری کتاب العلم باب التناوب في العلم ح 89)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ شریعت کی باتیں بیان کرتے تھے اور بعض سامعین جو مدینہ کے باہر سے آتے تھے، اپنے ساتھی کے ساتھ باری مقرر کر لیتے تھے، یعنی خطیب و واعظ روزانہ بھی درس دے سکتا ہے اور سامعین بدلتے رہتے ہیں۔ ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مدرس اگر یہ دیکھے کہ سامعین اکتا رہے ہیں یا تنگی اور بوجھ محسوس کرتے ہیں تو وقفہ وقفہ سے درس کا اہتمام کرے اور اگر عوام چاہتے ہوں تو روزانہ بھی درس دے سکتا ہے، کیونکہ اس میں وسعت ہے۔