سوال : کیا مسجد میں نماز کے لیے سترہ ضروری ہے۔ بعض لوگ اسے صحرا کے لیے خاص سمجھتے ہیں۔ صحیح بات کی طرف رہنمائی فرما دیں۔
جواب : جب آدمی نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اسے مختلف وساوس میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے حتی کہ کبھی اس قدر حائل ہوتا ہے کہ اسے بھول جاتا ہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اس شیطانی حملے سے بچنے کے لیے شریعتِ اسلامیہ نے جہاں کئی ایک اعمالِ صالحہ بتائے ہیں وہاں اس بات کی بھی تاکید فرمائی ہے کہ نمازی کو اپنے سامنے کوئی ایسی چیز رکھنی چاہیئے جو اس کے لیے سترے کا کام دے۔ یا دیوار و ستون کے پیچھے ہو کر نماز ادا کرے۔ کیونکہ اگر سترہ نہ رکھا جائے تو شیطان نماز خراب کرتا ہے اور نمازی کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔ اگر سترہ سامنے ہو تو شیطان اس کی نماز کو نہیں توڑ سکتا۔
علاوہ ازیں اگر کوئی آدمی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ سترے کے پیچھے سے گزر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرتا ہے یا سترے کی شرعی حد کے اندر سے گزرتا ہے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّيْ مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَّقِفَ أَرْبَعِيْنَ خَيْرًا لَّهُ مِنْ أَنْ يَّمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ [ بخاري، كتاب الصلاة : باب إثم المار بين يدي المصلي 510 ]
”نمازی کے آگے سے گزرنے والا آدمی اگر جان لے کہ اس پر کس قدر گناہ ہے تو وہ چالیس (سال) تک ٹھہر جائے تو یہ اس کے لیے اس کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے “۔
سترے کی شرعی حد تین ہاتھ ہے۔ یعنی نمازی اور سترے کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہیئے یا اس کے سجدے والی جگہ اور سترہ کے درمیان بکری کے گزرنے کی مقدار کا فاصلہ ہو۔ اس سے زیادہ سترے سے دور نہیں ہونا چاہئیے۔ سترے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک احادیث ہیں جن میں اس کی اہمیت بتلائی گئی ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
➊ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ، وَلَا تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ [ابن خزيمة 10/2، 800، كتاب الصلاة : باب النهي عن الصلاة إلى غير سترة ]
” سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دو۔ اگر ول (گزرنے والا) انکار کر دے تو اس سے لڑائی کرو یقیناًً اس کے ساتھ شیطان ہے۔ “
➋ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعِ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ [كتاب الصلاة : باب الدنو من السترة 695، ابن خزيمة 803، أحمد 2/4، الأوسط لابن المنذر 86/5/، ابن حبان 409، حاكم 251/1]
امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
”جب بھی تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ سترے کی طرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو، شیطان اس پر اس کی نماز کو منقطع نہیں کرے گا۔ “
➌ حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَتِرْ وَلْيَقْتَرِبْ مِنَ السُّتْرَةِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ [شرح السنة 447/2، 537 ]
”جب بھی تم میں سے کوئی آدمی نماز ادا کرے تو وہ سترہ رکھے اور سترہ کے قریب کھڑا ہو اس لیے کہ شیطان اس کے سامنے سے گزرتا ہے۔“
➍ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا وَضَعَ اَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذٰلِكَ [مسلم، كتاب الصلاة : باب سترة المصلي والندب إلى الصلاة إلى سترة 449، ترمذي 335، شرح السنة 539، ابن خزيمة 508، الأوسط لابن المنذر 2431 ]
”جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھے، اس کے پیچھے سے جو گزرے اس کی پرواہ نہ کرے۔“
مندجہ بالا احادیث سے یہ واضح طور پر معلوم ہوا کہ نمازی کو سترے کے بغیر نماز ادا نہیں کرنی چاہئیے۔ یہ احادیث عام ہیں، مسجد وغیر مسجد ہر دو صورتوں کو شامل ہیں بلکہ صحیح ابن خزیمہ کی صحیح حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو فرمایا : لَا تُصَلِّ اِلَّا إِلٰي سُتْرَةٍ ”سترہ کے بغیر نماز نہ پڑھو“۔ جس سے واضح ہو گیا کہ سترہ کے بغیر نماز پڑھنا درست نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو مساجد میں بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
وَرَأَى عُمَرُ رَجُلًا يُصَلِّيْ بَيْنَ أُسْطُوَانَتَيْنِ فَأَدْنَاهُ إِلٰى سَارِيَةٍ، فَقَالَ : صَلِّ إِلَيْهَا [ بخاري، أبواب سترة المصلي : باب الصلاة إلى الأسطوانة قبل الحديث/502 ]
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اسے ایک ستون کے قریب کر دیا اور فرمایا : ” اس کی طرف نماز ادا کرو۔ “
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس اثر کو ابن ابی شیبہ اور حمیدی نے موصولاً بیان کیا ہے۔ مزید فرماتے ہیں :
وَاَرَادَ عُمَرُ بِذٰلِكَ اَنْ تَكُوْنَ صَلَاتُهُ اِلٰي سُتْرَةٍ [فتح الباري 577/1]
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کام کا ارادہ اس لیے کیا کہ اس کی نماز سترہ کی طرف ہو۔ “
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ الْمَغْرِبِ [بخاري، أبواب سترة المصلي : باب الصلاة إلى الأسطوانة 503 ]
”میں نے کبار صحابہ کو دیکھا کہ وہ مغرب (کی اذان) کے وقت ستونوں کی طرف جلدی کرتے۔ “
مولانا رشید احمد گنگوہی رقمطراز ہیں :
فَالْاَوْجَهُ عِنْدِيْ أَنَّ الْاِمَامَ الْبُخَارِيَّ اَشَارَ بِالتَّرْجُمَةِ الْاُوْلٰي عَدْمَ تَخْصِيْصِ السُّتْرَةِ بِالصَّحْرَاءِ [لامع الداري 502/2 ]
”میرے نزدیک صحیح ترین توجیہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس ترجمہ باب سے یہ اشارہ فرماتے ہیں کہ سترہ صحراء کے لیے مخصوص نہیں۔“
یہی بات مولانا محمد زکریا نے بھی کی ہے۔ [ شرح أبواب وتراجم صحيح بخاري ص/79]
اسی طرح صحیح بخاری میں ابوصالح السمان سے روایت ہے :
رَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ يُصَلِّي إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَأَرَادَ شَابٌّ مِنْ بَنِي أَبِي مُعَيْطٍ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَدَفَعَ أَبُو سَعِيدٍ فِي صَدْرِهِ فَنَظَرَ الشَّابُّ فَلَمْ يَجِدْ مَسَاغًا إِلَّا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَعَادَ لِيَجْتَازَ فَدَفَعَهُ أَبُو سَعِيدٍ أَشَدَّ مِنَ الْأُولَى فَنَالَ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى مَرْوَانَ فَشَكَا إِلَيْهِ مَا لَقِيَ مِنْأَبِي سَعِيدٍ، وَدَخَلَ أَبُو سَعِيدٍ خَلْفَهُ عَلَى مَرْوَانَ فَقَالَ : مَا لَكَ وَلِابْنِ أَخِيكَ يَا أَبَا سَعِيدٍ ؟ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : ” إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْهُ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ [بخاري، كتاب الصلاة : باب يرد المصلي من مر بين يديه 509 ]
”میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو جمعہ والے دن سترہ کی طرف نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ بنو ابی معیط سے ایک نوجوان نے ان کے سامنے سے گزرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس کے سینے میں ایک گھونسا مارا۔ نوجوان نے جب ان کے آگے سے گزرنے کے علاوہ کوئی جگہ نہ پائی تو وہ دوبارہ وہاں سے گزرنے لگا۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسے پہلے سے زیادہ سخت گھونسا مارا تو ابوسعید سے اس نوجوان کو رنج پہنچا۔ وہ نوجوان مروان کے پاس پہنچا اور ابوسعید نے جو کیا تھا اس کی شکایت کی۔ ابوسعید اس کے پیچھے ہی مروان کے پاس جا پہنچے تو مروان نے کہا: ”ابوسعید ! تیرے اور تیرے بھتیجے کے درمیان کیا جھگڑا ہے ؟“ ابوسعید رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی لوگوں سے آڑ کر کے نماز پڑھے، پھر کوئی اس کے سامنے (یعنی آڑ کے اندر) سے گزرنا چاہے تو اس کو روکے، اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑے، وہ شیطان ہے۔“
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کے روز ابوسعید سترہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے اور اس کا وہ اہتمام کیا کرتے تھے۔
یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے :
رَأَيْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَقَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّيْ إِلَيْهَا [ ابن أبى شيبة 310/1، الأوسط لابن المنذر 89/5، طبقات ابن سعد 11/7 ]
” میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو مسجد حرام میں دیکھا، وہ لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز ادا کر رہے تھے۔ “
نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے :
كَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيلاً إلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، قَالَ لِي : وَلِّنِي ظَهْرَك [ابن ابي شيبه 313/1]
”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کی جانب کوئی جگہ نہ پاتے تو مجھے کہتے کہ میری طرف اپنی پشت کر کے بیٹھ جاؤ۔“
نافع رحمہ اللہ کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں :
أن ابن عمر كان يقعد رجلا فيصلي خلفه والناس يمرون بين يدي ذلك الرجل [ابن ابي شيبه 313/1]
”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک آدمی کو بٹھاتے پھر اس کے پیچھے نماز پڑھتے اور لوگ اس آدمی کے آگے سے گزرتے۔ “
ان صحیح احادیث اور آثارِ صحابہ سے معلوم ہوا کہ وہ مسجد وغیر مسجد جہاں بھی نماز پڑھتے تو سترے کا خیال رکھتے تاکہ نماز صحیح ادا ہو سکے۔ لہٰذا ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ جب نماز ادا کریں خواہ مسجد ہو یا کوئی دوسری جگہ، سترے کا ضرور خیال رکھیں تا کہ اگر کوئی آدمی اس کے سامنے سے گزرنا چاہے تو وہ سترے کے پیچھے سے گزر سکے۔
امام بن ہانی رحمہ اللہ فرم تے ہیں :
راني ابو عبدالله يوما وانا اصلي وليس بين يدي سترة وكنت معه فى المسجد الجامع فقال لي استتر بشيء فاستترت رجلا [مسائل احمد لا سحاق بن ابراهيم المعروف با بن هاني 1/ 66 ]
”مجھے امام احمد رحمہ اللہ نے ایک دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، میرے سامنے سترہ نہیں تھا، اور میں ان کے ساتھ جامع مسجد میں تھا تو انہوں نے مجھے کہا ” تو میں نے ایک آدمی کو سترہ بنا لیا۔ “
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ نمازی خواہ مسجد میں پڑھ رہا ہو یا صحراء میں اسے سترے کا اہتمام ضرور کرنا چا ہیئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ بات ذکر کر دی گئی ہے کہ وہ جب بھی نماز ادا کر تے ہیں، اس کا ضرور اہتمام فرما تے۔
ہم مساجد میں نماز کے لیے آئیں تو اس کا آسانی سے اہتمام کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے آنے والے اگر اگلی صف پوری کریں اور مسجد کی دیوار کے قریب ہوں اور بعد میں آنے والے ان کے پیچھے نماز ادا کریں تو اس طرح یہ مسئلہ حل ہو جاتا یے۔ ایک تو صفوں میں پہلے پہنچنے کا اجر ملے گا اور ساتھ ہی سترے کا مسئلہ بھی حل ہو جایے گا اور اگر علیحدہ علیحدہ بھی نماز ادا کریں تو مسجد کی دیوار، ستون یا کسی اور لکڑی وغیرہ کو سترہ بنا کر نماز ادا کریں۔