مسجد میں جماعت چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھنے کا شرعی حکم
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

اگر مسجد میں جماعت ہو چکی ہو یا کسی شخص کو کوئی مجبوری ہو، تو کیا وہ گھر میں نماز ادا کر سکتا ہے؟ کیا گھر میں نماز پڑھنے سے نیکی میں کوئی کمی آتی ہے یا نہیں؟

جواب

اگر کسی شخص کو بیماری، خوف، یا شدید بارش جیسا کوئی شرعی عذر ہو، تو وہ گھر میں نماز ادا کر سکتا ہے۔ ان حالات میں گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن اگر کوئی عذر موجود نہ ہو، تو فرض نماز کے لیے مسجد میں جانا ضروری ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیے کہوں، اور ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے۔”
(صحیح بخاری، باب وجوب صلاة الجماعة؛ صحیح مسلم، باب فضل صلاة الجماعة)

ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ جو شخص اذان سن کر بغیر کسی عذر کے جماعت میں شامل نہیں ہوتا اور گھر میں نماز پڑھتا ہے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
(سنن ابن ماجہ، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعة؛ إرواء الغلیل للألبانی)

لہٰذا، بغیر عذر کے گھر میں فرض نماز پڑھنے سے نیکی میں کمی آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ فرض نماز کے لیے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہی افضل اور ضروری ہے، سوائے شرعی عذر کے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے