مسلمانوں کے لیے قرآنِ کریم کی جمع و تدوین کی تاریخ سب سے روشن اور قابلِ فخر باب ہے۔ نزول کے اوّل دن سے قرآن اصحابِ رسولؐ کی آنکھوں کے سامنے تھا؛ وہ جانتے تھے کہ تیئس برس میں آیات کس ترتیب سے اور کن مواقع پر نازل ہوئیں۔ اس مضمون میں ہم مستند تاریخی حقائق کو آسان زبان میں سمیٹتے ہیں، کمزور روایات سے پیدا ہونے والے شبہات کا جائزہ لیتے ہیں اور تحقیق کے درست اصول واضح کرتے ہیں۔
عہدِ نبویؐ: حفاظتِ قرآن کے دو مضبوط ستون
• حفظ (زبانی حفاظت): ہزاروں صحابہؓ نے قرآن کو ازبر کیا، نماز، تعلیم اور تلاوت میں مسلسل دہرانا اس حفاظت کا مستحکم ذریعہ بنا۔
• کتابت (تحریری حفاظت): رسول اللہؐ کے فرمان پر متعدد کاتبینِ وحی آیات لکھتے تھے اور ساتھ ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔
• ترتیبِ الٰہی کی نگرانی: آیات کی ترتیب توقیفی تھی؛ جب بھی نیا حصہ اترتا، نبیؐ کاتب کو فرماتے: “فلاں آیات کو فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھو”۔ اس سے آج کے مصحف کی ترتیب کی بنیاد عہدِ رسالت ہی میں رکھ دی گئی۔
کاتبینِ وحی کا مختصر تعارف
• حضرت زید بن ثابتؓ (سب سے نمایاں خدمت)
• خلفائے راشدینؓ (ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ)
• حضرت زبیر بن العوامؓ، خالد بن سعیدؓ، ابان بن سعیدؓ سمیت کئی دیگر صحابہؓ
روایتوں میں کاتبین کے نام چالیس سے زائد ملتے ہیں؛ اصل نقطہ یہ ہے کہ کتابت ایک باقاعدہ، نگرانِ وحی (نبیؐ) کی ہدایت کے تحت، مسلسل عمل تھا۔
کتابت کے وسائل: “سخت” اور “ملائم” دونوں
• ملائم مواد: چمڑا/رق (رقاع)، کاغذ/قراطیس، کپڑے کے رقعے — تدریس و حفاظت کے لیے موزوں۔
• سخت مواد (عارضی استعمال): کھجور کی ٹہنیاں، کندھے کی ہڈیاں، پتھر کی پتلی سلیں — جب فوری دستیاب کاغذ و رق نہ ہوں۔
غلط فہمی یہ ہے کہ لکھائی صرف ہڈیوں/سلوں پر تھی؛ درحقیقت تجارت اور تحریری ثقافت کی وجہ سے کاغذ اور چمڑا عام تھے، بڑی تحریری دستاویزات (مثلاً صحیفۂ مقاطعہ، صلح حدیبیہ) اسی پر لکھی جاتیں۔
عہدِ صدیقیؓ: پہلی مرتبہ ایک مجلد “مصحف” کی تیاری
پس منظر
جنگِ یمامہ (بعد از وفاتِ نبویؐ) میں بہت سے حافظ صحابہؓ کی شہادت کے بعد حضرت عمرؓ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر حفاظ یکے بعد دیگرے شہید ہوتے رہے تو ترتیب و جمع کا کام مشکل ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے مشاورت سے اس اندیشے کو سنجیدگی سے لیا۔
طریقِ کار (میثاقی معیار)
حضرت زید بن ثابتؓ کی سربراہی میں کمیٹی بنی:
• دوہری شہادت کا اصول: ہر آیت کے لیے تلاوتی تواتر/حفظ کے ساتھ تحریری ثبوت بھی مانگا گیا۔
• صرف وہی متن شامل کیا گیا جس کی قراءت نبیؐ کے سامنے ثابت تھی اور صحابہؓ میں رائج تھی۔
• تیار شدہ مصحف پہلے حضرت ابوبکرؓ کے پاس، پھر حضرت عمرؓ کے پاس، اور بعد ازاں ام المؤمنین حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ رہا۔
عہدِ عثمانیؓ: معیار بندی اور امت میں وحدتِ قراءت
اسلام مختلف علاقوں تک پھیل گیا تو لہجوں کے فرق اور شخصی صحیفوں نے نو آموز لوگوں کو کنفیوژ کرنا شروع کیا۔ حضرت عثمانؓ نے:
• سرکاری مصاحف رسمِ عثمانی پر تیار کروائے (قریشی لہجے کی بنیاد پر)۔
• بڑے مراکز (مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ، شام وغیرہ) کو نسخے اور معلم قرّاء بھیجے۔
• غیر معیاری ذاتی نسخوں کو اِلتباس کے ازالے کے لیے ختم کروا دیا۔
یہ اقدام تحریف نہیں تھا، بلکہ واحد مستند متن پر امت کو مجتمع کرنا تھا — وہی متن جو عہدِ نبویؐ میں ترتیب دیا جا چکا تھا۔
کمزور روایات اور اُن سے اٹھنے والے شبہات
کچھ روایات (مثلاً “نبیؐ کے بعد تک قرآن جمع نہ ہوا تھا” یا “یمامہ میں قرآن کا حصہ ضائع ہو گیا”) اسناد و متن کے اعتبار سے کمزور ہیں، یا اُن کے الفاظ کی مراد سمجھے بغیر پیش کر دی گئیں۔ مثال کے طور پر:
• “جمع نہ ہوا تھا” کا صحیح مفہوم: ایک جگہ جلد بند مصحف کی صورت ابھی نہیں بنی تھی؛ ورنہ حفظ اور تحریری رقعات دونوں موجود تھے۔
• “ضائع ہو جانا” والی تعبیرات عموماً غیر معتبر اسناد یا فہم کی خطا سے پیدا ہوئیں؛ قرآن متواتر تھا، ایک آیت بھی امت کے عمل و قراءت کے بغیر “غائب” ہونا ممکن نہیں۔
علمی منہج یہ ہے کہ تاریخِ تدوین پر گفتگو میں جرح و تعدیل، اسناد/متن کی چھان بین، اور عملِ صحابہؓ و اجماعِ امت کو معیار بنایا جائے؛ محض ہر منقول روایت کو برابر درجہ دینا علمی کمزوری ہے۔
قراءات اور “سبعۃ أحرف”: کیا سمجھیں، کیا نہ سمجھیں
• قراءت سے مراد وہ تلفظی/لہجی اختلافات ہیں جو نبیؐ سے متعدد تواتر کے ساتھ ثابت ہیں؛ وہ معنی کو نہیں بدلتے بلکہ ادائیگی/لہجے، ادغام/تحقیق، اعراب و اداء کے دائرے میں آتے ہیں۔
• سبعۃ أحرف کی تفاسیر متعدد ہیں، مگر راجح بات یہ کہ یہ ادائیگی کی وسعت اور عربی قبائل کے لہجوں کی سہولت سے متعلق ہے؛ اسے “معنی بدلنے کی آزادی” سمجھنا غلط ہے۔
• بعض صحابہؓ کے ذاتی صحیفوں میں تفسیری توضیحات (مثلاً “وصلاۃ العصر”) بطور حاشیہ/شرح درج تھیں، اصل متنِ قرآن نہیں — عثمانی معیار بندی کے بعد مصحفِ امام ہی نص کا قطعی معیار قرار پایا۔
• نظمِ آیات الٹ پلٹ کر پڑھنا جائز نہیں؛ جہاں کہیں تقدیم و تاخیر کے الفاظ ملتے ہیں وہ یا تو تعلیمی/لسانی تمثیل ہوتی ہے یا روایت کی کمزوری۔
مستشرقین کے اعتراضات: خلاصۂ جواب
اعتراض: عہدِ نبویؐ میں قرآن مدوّن نہ تھا، اس لیے متن محفوظ نہیں رہا۔
جواب: حفظ و کتابت دونوں جاری تھے، آیات کی ترتیب نبیؐ بتاتے، اور صحابہؓ کی اجتماعی تلاوت و تعلیم نے متن کو متواتر بنا دیا۔ مصحف کی جلد بندی بعد میں ادارہ جاتی شکل میں ہوئی — متن پہلے سے موجود اور رائج تھا۔
اعتراض: سخت مواد پر لکھنے سے متن ضائع/تبدیل ہو سکتا تھا۔
جواب: سخت مواد عارضی تھا؛ رقاع/چمڑا/کاغذ بنیادی ذریعہ رہے۔ بڑے عہدناموں اور خطوط کی تحریر اس کا مضبوط قرینہ ہے۔
اعتراض: صحابہؓ نے “معنی کے مطابق” الفاظ بدل دیے۔
جواب: قراءات توقیفی ہیں، من مانی تبدیلی نہیں۔ جہاں ہم معنی الفاظ نقل ہوئے، وہ تفسیری توضیح یا روایت کا مسئلہ ہے، نصِ متلو نہیں۔
تحقیقِ تاریخِ قرآن: درست اصول
• اسناد کی جانچ: رواۃ کی ثقاہت، اتصالِ سند، شذوذ و علّت کی پہچان۔
• متن کی تہذیب: متن کو قرآنِ متواتر، سنتِ متواترہ اور عملِ صحابہؓ/اجماع پر پرکھنا۔
• سیاق و سباق: واقعات کی زمانی ترتیب، اصطلاحات کے معنی، “جمع” جیسے الفاظ کی درست مراد۔
• تقابلی مطالعہ: قدیم مصادر کی تقابل کے ساتھ نقد، محض “نقل” نہیں۔
• تاریخی معقولیت: عرب معاشرت، لکھنے کے وسائل، تجارتی دستاویزات— سب سے قرائن لینا۔
عام غلط فہمیاں — مختصر اصلاح
• “قرآن بعد میں لکھا گیا، پہلے صرف حافظوں پر تھا” → عہدِ نبویؐ میں لکھا بھی گیا اور پڑھا بھی گیا؛ بعد میں صرف ایک مجلد صورت بنی۔
• “یمامہ میں قرآن کا حصہ ضائع” → قرآن متواتر تھا؛ امت کے مسلسل عمل کے ہوتے ہوئے “ضیاع” کا دعویٰ غیر معقول ہے۔
• “قراءات = معنی بدلنا” → قراءات نبیؐ سے منقول ادائیگی ہیں، معنی کی تحریف نہیں۔
• “عثمانی مصاحف نے دیگر متون مٹا دیے” → مقصد وحدتِ امت اور التباس کا ازالہ تھا؛ نص وہی رہا جو عہدِ رسالت میں مقرر تھا۔
سادہ زمانی خاکہ (ٹائم لائن)
• 610–632ء (عہدِ نبویؐ): نزول، حفظ، مسلسل کتابت، آیات/سورہ کی ترتیب کی تعیین۔
• 632–634ء (ابوبکرؓ): جنگِ یمامہ کے بعد سرکاری جمع؛ مصحف تیار، محفوظ۔
• عثمانی عہدؓ: معیار بندی، مصاحف کی تقسیم، قرّاء کی تعیین، امت کو ایک رسم پر جمع کرنا۔
نتیجہ
قرآن کی تاریخ اعتماد، اجتماعی عمل اور علمی معیار کی داستان ہے۔ عہدِ نبویؐ میں متن کی تعیین ہو چکی تھی؛ عہدِ صدیقیؓ میں اسے ایک مجلد مصحف کی صورت دی گئی؛ اور عہدِ عثمانیؓ میں امت کو ایک رسم اور معیار پر جمع کیا گیا۔ کمزور اور باہم متعارض روایات کو بلا نقد نقل کرنے سے شبہات ضرور جنم لیتے ہیں، لیکن جب اسناد و متن کی باریک بینی سے پرکھ کی جائے تو قرآن کی حفاظت کی پوری اسکیم روشن ہو جاتی ہے—إِنّا لَهُ لَحافِظون کی تاریخی تفسیر یہی ہے۔