قرآن کریم کی تدوین: ابتدائی مراحل
مسلمانوں کے لیے قرآن کی تدوین ایک قابلِ فخر وراثت ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لیے صحابہ کرامؓ نے زبردست محنت کی۔ نزول کے آغاز سے ہی قرآن اصحابِ رسول ﷺ کی نظروں کے سامنے تھا، اور وہ جانتے تھے کہ تیئس سالوں میں یہ کتاب نبی ﷺ پر کس طرح نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قسم کھا کر کہا کہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں انھیں معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔
(مباحث فی علوم القرآن، ڈاکٹر صبحی صالح، ص132)
➊ قرآن کی حفاظت کا طریقہ
صحابہ کرامؓ نے قرآن کو نبی ﷺ سے سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کیا اور اسے لکھنے کی صورت میں بھی محفوظ کیا۔ حضرت زید بن ثابتؓ اور دیگر کاتبینِ وحی نے یہ خدمت سرانجام دی۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ کو آیات نازل ہونے کے فوراً بعد لکھواتے اور ان کی ترتیب بھی بتاتے۔
(جامع ترمذی، حدیث نمبر 1)
➋ روایات کی چھان بین میں کوتاہی
بعد کے زمانوں میں، جب مختلف فتنوں نے جنم لیا، تو بعض کمزور اور متضاد روایات کو قرآن کی تاریخ میں جگہ مل گئی۔ بعض مؤرخین نے ان روایات کو بلا تنقید نقل کر دیا۔ مستشرقین نے ان کمزور روایات کو بنیاد بنا کر قرآن کے متعلق شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی۔
➌ مستشرقین کے اعتراضات
مستشرقین نے دعویٰ کیا کہ نبی ﷺ کی زندگی میں قرآن مکمل طور پر جمع نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگِ یمامہ میں کئی حفاظ کی شہادت کے بعد قرآن کے ضائع ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن نبی ﷺ کی زندگی میں مکمل طور پر تحریری شکل میں موجود نہ تھا۔
(آرتھر جفری، کتاب المصاحف)
➍ کمزور روایات کی مثالیں
- سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان میں نقل کیا کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہا: "رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت قرآن کسی چیز میں جمع نہیں کیا گیا تھا۔”
(الاتقان، سیوطی، 1/57) - ابن ابی داؤد نے روایت کی کہ جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت کی وجہ سے قرآن کا ایک حصہ ضائع ہوگیا۔
(المصاحف، ص23)
➎ ان اعتراضات کا جواب
علمائے اسلام نے ان کمزور روایات کا تجزیہ کیا اور بتایا کہ یہ روایات ناقابلِ اعتماد ہیں۔ مثال کے طور پر:
- زید بن ثابتؓ کے بیان کا مطلب یہ لیا گیا کہ نزولِ قرآن کے مکمل ہونے تک قرآن ایک جگہ مرتب نہیں کیا گیا تھا۔
- حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کو مرتب کرنے کا فیصلہ حفاظ کے شہید ہونے کے اندیشے کے تحت کیا تاکہ قرآن ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔
(الاتقان، سیوطی)
➏ کتابتِ قرآن: عہدِ نبوی کے وسائل
مستشرقین نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ قرآن کو پتھر، ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر لکھا جاتا تھا، جو مکمل قرآن کو محفوظ کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عہدِ نبوی میں چمڑے اور کاغذ جیسے جدید آلاتِ تحریر بھی استعمال ہوتے تھے۔ قریش کی تحریری دستاویزات، صلح حدیبیہ کا معاہدہ، اور رسول اللہ ﷺ کے خطوط اس بات کا ثبوت ہیں۔
(عن القرآن، محمد صبیح، ص86)
➐ قراءاتِ قرآن اور شبہات
قرآن کی مختلف قراءات کے مسئلے کو بھی مستشرقین نے شبہات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ قراءات کے اختلاف کی بنیاد پر قرآن میں الفاظ اور معانی کی تبدیلی ہوئی۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ یہ اختلافات عربی لہجوں یا مترادف الفاظ کی بنیاد پر تھے اور ان میں سے کئی قراءات منسوخ ہو چکی تھیں۔
➑ مستشرقین کے پیش کردہ دلائل
مستشرقین نے ایسی روایات پیش کیں جن میں بعض صحابہ نے مترادف الفاظ استعمال کیے۔ مثال کے طور پر، ابن مسعودؓ کی قراءت میں
"فولو وجوہکم شطرہ” کی بجائے "فولو اوجوجکم قبلہ” ملتا ہے۔
’’اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو‘‘ ’’اپنے چہرے قبلہ کی طرف پھیر لو‘‘
(البحر المحیط)
➒ ان شبہات کا علمی رد
علمائے اسلام نے وضاحت کی کہ مختلف قراءات عربی زبان کے لہجوں کے مطابق تھیں اور ان سے قرآن کی اصل تعلیمات یا معنٰی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
- "سبعۃ احرف” کا مفہوم بھی عربی کے مختلف لہجوں میں قرآن کو آسانی سے سمجھنے کے لیے تھا۔
➓ مستشرقین کے مقاصد
مستشرقین کا اصل مقصد قرآن کے محفوظ ہونے پر شبہات پیدا کرنا تھا تاکہ اسلام کی بنیادوں کو کمزور کیا جا سکے۔ لیکن علمائے اسلام نے ان کے اعتراضات کا کامیابی سے رد کیا اور ثابت کیا کہ قرآن مکمل طور پر محفوظ ہے اور نبی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں تحریری شکل میں موجود تھا۔