مساقات کسے کہتے ہیں؟

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الثَّامِنُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا { أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ تَمْرٍ أَوْ زَرْعٍ } .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کے ساتھ کھجوروں یا کھیتی کی پیداوار میں آدھے حصے پر معاملہ فرمایا تھا۔
شرح المفردات:
عامل: ایک دوسرے سے باہم معاملہ طے کیا۔ / واحد مذکر غائب، فعل ماضی معلوم، باب مفاعلہ
شرح الحديث:
اسے مساقات کہتے ہیں اور یہ مزارعت ہی کی طرح ہے، یعنی کھیتی یا باغ کا مالک کسی کے ساتھ طے کر لے کہ اس باغ یا کھیتی میں تم کاشت کاری کرو گے اور اس سے حاصل ہونے والے پھل کا اتنا حصہ تمھیں ملے گا۔
(287) صحيح البخارى، كتاب المزارعة ، باب اذا لم يشترط السنين فى المزارعة ، ح: 2329. صحيح مسلم ، كتاب المساقاة ، باب المساقاة والمعاملة بجزء من التمر والزرع ، ح: 1551

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل