مرغی کی خوراک میں سور کے اجزا کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

قاری ے(برامکر) مرغی کی خوراک میں سور کے اجزا استعمال کیے جاتے ہیں، کیا اس کا گوشت مسلمان استعمال کر سکتے ہیں؟ اسی طرح کسی جانور کو اگر قصدا ایسی غذا کھلائی جاتی ہو جس میں حرام اجزا شامل ہوں، یا جسے حلال غذا کھلائی جائے لیکن جب وہ مالک کی پہنچ سے دور نکل جائے تو گندگی اور کیڑے مکوڑے کھالے، یا نالی میں منہ ڈال دے، ان کا کیا حکم ہے؟

جواب :

حلت و حرمت کے بارے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حلال صرف وہی چیز ہے جسے قرآن و سنت میں حلال بتایا گیا ہو اور حرام بھی وہی ہے جس کی حرمت پر کتاب و سنت میں دلیل موجود ہو، انسانی مزاج اور ذوق کو حلت و حرمت میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اللہ مالک الملک نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾
(النحل: 116)
”اور یہ جو تمھاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو، یقیناً جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا سکتے۔“
معلوم ہوا کہ حلال و حرام بندوں کے اختیار میں نہیں، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ جسے حلال ٹھہرائے وہ حلال ہے اور جسے اللہ تعالیٰ حرام ٹھہرائے وہ حرام ہے، بندوں کا ذوق اور مزاج اس کا فیصلہ نہیں کرتا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ حلال و حرام انسانوں کی عقل کے تابع نہیں اور نہ لوگوں کی آراء و قیاسات اور مادی ذرائع و وسائل سے ان کا اثبات کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ عقل و قیاس سے حلال و حرام کے فیصلے کرتے ہیں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھ لیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھا حرام قرار دیا ہے اور جنگلی گدھے حلال۔
(بخاری کتاب الذبائح والصید باب لحوم الحمر الإنسية ح 5521 تا 5529، مسلم کتاب الصید والذبائح باب تحريم أكل لحم الحمر الأنسية 1407، قبل الحدیث : 1936، إرواء الغلیل 137/8، نیز دیکھیں این ساحه ح 3191، 3192 باب لحوم الخیل اور باب لحوم الحمر الأهلية)
اب جنگلی گدھے کی حلت اور گھریلو گدھے کی حرمت کا مسئلہ عقل سے طے نہیں کیا جا سکتا اور نہ اہل علم اور حیوانوں کے علم کے سپیشلسٹ ان دونوں کے فرق کی علت معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ دونوں شکل و شباحت اور قد کاٹھ میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، ان کی حلت و حرمت شرع سے ثابت ہوتی ہے۔ لہذا کسی بھی چیز کی حلت و حرمت معلوم کرنے کے لیے شرعی دلائل کو دیکھا جائے گا۔ اصل مرغی کی حلت شرعی دلیل سے ثابت ہے۔ زھدم الجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دعت على أبى موسى وهو يأكل دجاجة فقال ادن فكل فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكله
(ترمذی کتاب الأطعمة باب ما جاء في أكل الدجاج ح 1826، بخاری کتاب فرض الخمس باب ومن الدليل على أن الخمس الخ ح 3133، مسلم کتاب الأيمان باب ندب من حلف يمينا الخ ح 1649/9)
”میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ مرغی کھا رہے تھے تو انھوں نے کہا قریب ہو اور کھا، بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔“
یہ حدیث مختصر و مفصل کئی ایک کتب احادیث میں موجود ہے اور جو الفاظ ہم نے نقل کیے ہیں یہ ترمذی شریف کے ہیں۔
بخاری و مسلم وغیرہما میں یہ بات بھی ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاں جب مرغی کا گوشت لایا گیا تو ایک آدمی ایک طرف ہٹ گیا اور اس نے مرغی کا گوشت نہ کھایا تو اسے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بلایا۔ اس آدمی نے کہا: ”میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا ہے اور میں اس کا کھانا مکروہ سمجھتا ہوں۔“ تو اسے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔“
علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
فيه جواز أكل الدجاج إنسية ووحشية وهو بالإجماع إلا عن بعض المتعمقين على سبيل الورع إلا أن بعضهم استثنى الجلالة وهى ما تأكل الأقذار وظاهر صنيع أبى موسى أنه لم يبال بذلك
(تحفة الأحوذي 5/564-565)
”اس حدیث میں مرغی کھانے کا جواز ہے، خواہ گھریلو ہو یا جنگلی اور یہ بات اتفاقی ہے، صرف زیادہ گہرائی میں جانے والے لوگوں نے تقویٰ کی وجہ سے اختلاف کیا ہے، اسی طرح بعض لوگوں نے جلالہ کو مستثنیٰ کیا ہے اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے عمل سے ظاہر ہے انھوں نے اس کی پروا نہیں کی۔“
اور ائمہ حدیث نے اس حدیث پر مرغی کی حلت کا باب باندھا ہے، جیسا کہ بخاری و ترمذی وغیرہ میں ہے۔
معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغی کا گوشت کھایا ہے اور یہ اس کے حلال ہونے کی صریح اور واضح دلیل ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو حلال اور طیب چیز ہی کھاتے ہیں۔ پھر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی اس کو کھایا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے نقش قدم پر چلتے تھے اور اس سے کراہت کرنے والے کو انھوں نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا ہے، اس لیے تو بھی کھالے، اگر چہ کراہت کرنے والے نے اسے کچھ گندگی کھاتے دیکھا بھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حلت و حرمت میں جانور کی غذا نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہے۔ بعض ایسے جانور ہیں جو صاف ستھری غذا کھاتے ہیں، لیکن وہ حلال نہیں ہیں، جیسے گیدڑ اور بندر وغیرہ، ان کی خوراک پھل، سبزیاں اور گوشت وغیرہ ہے۔ اس طرح اگر کوئی آدمی خنزیر کے بچے کو گھر میں رکھ کر پرورش کرے، اسے صاف ستھری غذا کھانے کو مہیا کرے تو وہ صاف غذا کی وجہ سے حلال نہیں ہو گا، حرام ہی رہے گا۔ کیونکہ اس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ شارح بخاری اور علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ شارح ترمذی رحمہ اللہ نے جو بعض لوگوں کے مرغی کو جلالہ شمار کرنے کے باعث اس کی عدم حلت کا ذکر کیا ہے تو وہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں جو صرفی گندگی و پاخانہ کھاتی ہے، وہ جلالہ ہے اور جلالہ کی حرمت پر نص وارد ہے۔ جلالہ کی حلت و حرمت کے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔ اس میں ائمہ محدثین کے تین قول ہیں:
① جلالہ کے کھانے میں کوئی حرج نہیں، خواہ وہ مرغی ہو یا کوئی دوسرا جانور۔ یہ امام مالک اور امام لیث بن سعد کا قول ہے۔
② جب کثیر نجاست کھانے کی وجہ سے اس کا گوشت متغیر ہو جائے تو مکروہ ہے۔ یہ شافعیہ کا قول ہے۔
③ یہ حرام ہے۔ یہ قول شافعیہ کی ایک جماعت، حنابلہ، بغوی، غزالی، ابن دقیق العید، ابو اسحاق مروزی، قاضی عیاض مروزی اور امام الحرمین جوینی کا ہے۔ انھوں نے گوشت کے ساتھ جلالہ کا دودھ اور اس کے انڈے بھی حرام قرار دیے ہیں۔
(فتح الباری 648/9 کتاب الذبائح والصید)
جلالہ کے کھانے سے ممانعت کی چند ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
وأن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن لبن الجلالة
(ابو داود کتاب الأطعمة باب النهي عن أكل الجلالة وألبانها ح 3786، المنتقى لابن الجارود ح 887، ترمذی کتاب الأطعمة باب ما جاء في أكل لحوم الجلالة وألبانها ح 1825، ابن حبان ح 5399، بیہقی 333/9، مسند احمد 226/1 ح 1989، سنن نسائی ح 4453)
”یقیناً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلالہ کے دودھ سے منع کیا ہے۔“
امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے، ابن حجر اس کی سند کو جلالہ کے متعلق وارد احادیث میں سے سب سے صحیح قرار دیتے ہیں۔
(فتح الباری 648/9)
اس حدیث کا ایک شاہد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر الأهلية وعن الجلالة وعن ركوبها وعن أكل لحمها
(نسائی کتاب الضحايا باب النهى عن أكل لحوم الجلالة ح 4452، ابو داود ح 3811، بیہقی 333/9)
”یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن گھریلو گدھوں کے گوشت، جلالہ، اس پر سواری کرنا اور اس کا گوشت کھانا منع کیا ہے۔“
اس کا تیسرا شاہد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ابو داود ح (3785)، ترمذی ح (1824)، ابن ماجہ ح (3189)، بیہقی (332/9) اور شرح السنة للبغوی (252/11) میں موجود ہے۔ اسے امام ترمذی، امام بغوی اور ابن حجر رحمہم اللہ نے حسن قرار دیا ہے۔ امام سفیان ثوری نے اگر چہ اسے ابن ابی نجیح عن مجاہد مرسلاً بیان کیا ہے اور ابن اسحاق نے موصولی اور سفیان ثوری ابن اسحاق سے اثبت ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن ابن اسحاق کی روایت کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے یہ حدیث ابو ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی بیان کی ہے۔
(فتح الباری 648/9)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اگر چہ اپنا رجحان ان لوگوں کے ساتھ ظاہر کیا ہے جو ایسے جانوروں کی حرمت کی طرف گئے ہیں لیکن راقم الحروف کہتا ہے کہ ان احادیث میں جلالہ کی حرمت قطعی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ ان کے استعمال سے آدمی اس وقت تک روکا ہے، جب تک اس سے اس کی گندی خوراک کی بدبو زائل نہ ہو۔ سلف صالحین میں سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
أنه كان يحبس الدجاجة الجلالة ثلاثا
(مصنف ابن ابی شیبہ باب في لحوم الجلالة 148/5 ح : 24608، مصنف عبد الرزاق ح 522/14، علامہ البانی نے إرواء الغلیل 101/8 ح 2005 میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری 648/9 میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے)
”وہ جلالہ مرغی کو تین دن قید رکھتے تھے (پھر استعمال کر لیتے تھے)۔“
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جو درع و تقویٰ اور اتباع سنت میں بڑے متشدد تھے وہ بھی جلالہ مرغی کو تین دن قید رکھنے کے بعد استعمال کر لیتے تھے، تاکہ اس کا پیٹ صاف ہو جائے اور گندگی کی بو اس سے زائل ہو جائے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جلالہ کی ممانعت والی حدیث کے راوی بھی ہیں اور راوی حدیث اپنی بیان کردہ حدیث کا مفہوم دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ جانتا ہے، جیسا کہ محدثین اس قاعدہ کو ذکر فرماتے ہیں۔ اگر جلالہ کی حرمت گوشت کی نجاست کی وجہ سے ہوتی تو وہ گوشت جس نے حرام پر نشو و نما پائی کسی حال میں بھی پاک اور حلال نہ ہوتا۔
امام ابن قدامہ مقدسی رقمطراز ہیں: احسن بصری رحمہ اللہ نے جلالہ کے گوشت اور دودھ میں رخصت دی ہے، اس لیے کہ حیوان نجاسات کھانے سے نجس نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شراب پینے والے شخص کے اعضاء پر نجس ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا اور وہ کافر جو خنزیر اور محرمات کھاتا ہے، اس کا ظاہر نجس نہیں ہوتا اور اگر نجس ہو جاتا تو اسلام لانے اور غسل کرنے سے پاک نہ ہوتا۔ پھر لکھتے ہیں: ولو نجست الجلالة لما طهرت بالحبس”اگر جلالہ نجس ہوتی تو روک رکھنے سے پاک نہ ہوتی۔“
(المغنی 328/31-329)
اور ابن قدامہ مزید لکھتے ہیں:
اور جلالہ کو روک رکھنے سے کراہت اتفاقی طور پر زائل ہو جاتی ہے اور روک رکھنے کی مقدار میں اختلاف ہے۔ امام احمد سے روایت ہے کہ قید رکھا جائے، خواہ پرندہ ہو یا چوپایہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما جب اس کے کھانے کا ارادہ کرتے تو تین دن روک کر رکھتے اور یہ قول امام ابو ثور کا ہے، اس لیے کہ جو چیز حیوان کو پاک کر دیتی ہے وہ دوسری چیز کو بھی پاک کر دے گی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام احمد کے ہاں بھی جلالہ اصلاً حرام نہیں ہے، بلکہ جلالہ کو روک کر رکھنے سے اس کی پاکیزگی ہو جاتی ہے اور کراہت زائل ہو جاتی ہے، اس پر اتفاق ہے۔
(المغنی 329/13)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ائمہ کا اختلاف نقل کرنے کے بعد ارقام فرماتے ہیں:
”جلالہ کے کھانے کے جواز میں معتبر قول بدبو کا زائل ہونا ہے، جب اسے پاک چیز کھانے کے لیے دی جائے اور سلف سے اس بارے وقت کا تعین بھی مروی ہے، ابن ابی شیبہ کے ہاں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ جلالہ مرغی کو تین دن روک کر رکھتے تھے۔ “
(فتح الباری 648/9)
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
چوپایہ جو گندگی کھاتا ہے اس کے متعلق محکم یہ ہے کہ دیکھا جائے گا اگر تو وہ گندگی کبھی کبھار کھاتا ہے تو وہ جلالہ نہیں ہے اور نہ اس کا کھانا حرام ہے، جیسے مرغی وغیرہ اور اگر اس کی خوراک اکثر گندگی ہے، یہاں تک کہ گندگی اس کے گوشت اور دودھ میں غالب ہو جائے، پھر اہل علم کا اسے کھانے میں اختلاف ہے۔ ایک قوم اس بات کی طرف گئی ہے کہ اسے کھانا اتنی دیر تک حلال نہیں جب تک اسے کچھ دن قید نہیں رکھا جاتا اور گندگی کے علاوہ کوئی اور خوراک اسے دی جائے، یہاں تک کہ اس کا گوشت صاف ستھرا ہو جائے، پھر اسے کھانا حلال ہے۔ یہ قول اصحاب الرائے، شافعی اور احمد کا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ گائے کو چالیس دن چارہ ڈالا جائے، پھر اس کا گوشت کھایا جائے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مرغی کو تین دن قید رکھتے تھے اور حسن بصری رحمہ اللہ جلالہ کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور یہی قول امام مالک کا ہے اور امام اسحاق بن راہویہ نے کہا اس کا گوشت اچھی طرح دھو لینے کے بعد کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(شرح السنة 253/11-254، نیز دیکھیں معالم السنن للخطابی 306/5-307، مع مختصر المنذری عون المعبود 412/3-413، تحفة الأحوذي 564/5-565، عارضة الأحوذي 8/18)
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ صحیح بخاری کی شرح عمدۃ القاری (127/12) میں لکھتے ہیں:
حدیث میں مرغی کا گوشت کھانے کا جواز ہے اور توضیح میں ہے کہ اس کی حلت پر اجماع ہے، وہ خوشگوار اور مزیدار کھانوں میں سے ہے۔ تنگ حال زاہدوں میں سے جس نے اسے مکروہ کہا ہے اس کی کراہت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، جب کہ اسے سید الزاہدین نے کھایا ہے، حالانکہ اس کے جلالہ ہونے کا احتمال تھا۔ طبرانی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ وہ جلالہ مرغی نہیں کھاتے تھے حتیٰ کہ اسے کچھ دن قید رکھتے تھے۔ ان سے یہ روایت بھی ہے کہ جب وہ مرغی کا انڈہ کھانے کا ارادہ کرتے تو اسے تین دن قید رکھتے تھے۔ ابو حنیفہ نے کہا ہے مرغی مخلوط غذا کھاتی ہے اور جلالہ گندگی و پاخانہ کے سوا نہیں کھاتی اور ابن حزم نے کہا ہے کہ جلالہ چار پاؤں والے جانداروں کے ساتھ خاص ہے، پرندوں اور مرغی کو جلالہ نہیں کہتے۔ ابن بطال نے کہا ہے علماء جلالہ کے کھانے کے جواز پر متفق ہیں اور متون مالکی سے بکری کے اس بچے کے بارے پوچھا گیا ہے خنزیرنی نے دودھ پلایا ہو تو اس نے کہا اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام طبری نے کہا ہے علماء کا اس پر اجماع ہے کہ وہ اونٹ یا بکری کا بچہ جسے کتیا یا خنزیرنی کے دودھ سے غذا دی گئی ہو، اس کا کھانا حرام نہیں ہے۔ حالانکہ خنزیرنیوں کے دودھ کے نجس ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، وہ گندگی کی طرح ہے۔ (واللہ تعالیٰ أعلم)
علامہ عینی حنفی کی اس طویل عبارت سے بھی واضح ہو گیا کہ مرغی جلالہ بھی ہو تو وہ حرام نہیں ہے، مرغی مخلوط غذا کھاتی ہے اور اس کی جو خوراک تیار کی جاتی ہے، وہ بھی مخلوط ہوتی ہے، دیسی مرغی جس کی حلت پر آج بھی سب متفق ہیں، وہ بھی گندی نالیوں، کوڑے کے ڈھیر وغیرہ سے گندگی کھاتی ہے، لیکن اسے کوئی بھی حرام نہیں کہتا، اور یہ بات بھی یاد رہے کہ مرغی کی خوراک میں جو حرام اشیاء ڈالی جاتی ہیں، جیسے خون، مردار، خنزیر کا گوشت وغیرہ یہ اشیاء انسانوں کے لیے حرام ہیں، جانوروں کے لیے نہیں، کیونکہ وہ تو مکلتف ہی نہیں۔
آخر میں از راہ نصیحت مرغی کی خوراک خریدنے والے بھائیوں کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ شریعت نے ہمارے لیے جن چیزوں کو حرام کیا ہے ان کی خرید و فروخت بھی حرام ہے، سوائے چند ایک جانوروں کے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں حجر اسود کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے آسمان کی طرف نگاہ دوڑائی، پھر ہنس پڑے، پھر فرمایا:
لعن الله اليهود حرمت عليهم الشحوم فباعوها وأكلوا أثمانها وإن الله عز وجل إذا حرم على قوم أكل شيء حرم عليهم ثمنه
(مسند احمد 247/1 ح 2221، ابو داود کتاب البیوع باب في ثمن الخمر والميتة ح 3488، صحیح ابن حبان ح 4938)
”اللہ کی لعنت ہو یہود پر! ان پر چربی حرام کی گئی لیکن انھوں نے اس کو بیچا اور اس کی قیمت کھا گئے، بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔“
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله حرم الخمر وثمنها وحرم الميتة وثمنها وحرم الخنزير وثمنه
(سنن ابی داود کتاب البیوع باب في ثمن الخمر والميتة ح 3485، حلیة الأولياء ح 3378، سنن الدار قطنی 7/3 ج 2792، بیہقی 12/9 ح 11049)
”بے شک اللہ نے شراب حرام کی اور اس کی قیمت بھی حرام کی، مردار حرام کیا اور اس کی قیمت بھی حرام کی، خنزیر حرام کیا اور اس کی قیمت بھی حرام کی۔“
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ اللہ نے انسانوں پر جو چیزیں کھانے کے لیے حرام کی ہیں ان کی خرید و فروخت اور قیمت لینا بھی حرام ہے، لہذا مرغیوں کے لیے حرام اشیاء تیار شدہ خوراک کی خرید و فروخت نہ کریں۔ جیسے شراب، مردار اور خنزیر حرام ہے، اسی طرح ان کی خرید و فروخت بھی حرام ہے۔ لہذا جن بھائیوں کو واقعی علم ہے کہ مرغی کی خوراک میں سور کے اجزا یا خون و مردار شامل کیا جاتا ہے وہ یہ خوراک مت خریدیں، خوراک میں مردار، خون، خنزیر کے اجزا شامل کرنے کی بجائے مچھلی کا چورہ وغیرہ ڈال لیں، حرام سے مکمل طور پر اجتناب کی کوشش کریں اور جو آدمی حرام سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی کفایت کرتا ہے اور اسے بچنے کی توفیق عطا کر دیتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے