مرد کا کانوں کو چھیدوا کر بالیاں ڈالنا

سوال : مرد کے لئے کانوں کو چھیدوا کر بالیاں وغیرہ ڈالنا شرعاً کیسا ہے ؟
جواب : بچے یا مرد کے لئے کانوں کو چھیدوانا اور ان میں بالیاں وغیرہ ڈالنا شرعاً جا ئز نہیں ہے، کیونکہ یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، جو کہ حرام ہے۔
◈ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
” بچے کے کان کو چھید کرانے میں نہ کوئی دنیاوی مصلحت ہے، نہ ہی دینی۔ صرف اس کے اعضاء میں سے ایک عضو کو کاٹنا ہے، جو کہ جائز نہیں۔ “ [ تحفة المو دود باحكام المولود : 143 ]
◈ ابن الخاس لکھتے ہیں :
و ذلك بدعة يجب ا نكارها والمنع منها
”بچے کے کان کو چھیدنا بدعت ہے، اس کا انکار کرنا اور اس سے منع کرنا واجب ہے۔ “
فائدہ :

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، جس میں بچے کے متعلق سات چیزوں کو سنت کہا گیا ہے، ان میں سے ایک اس کے کان کو چھیدوانا بھی ہے۔ [المعجم الاوسط للطبراني : 176/1، ح : 558 ]

تبصرہ
اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ :
اس کا راوی رواد بن جراح اگرچہ جمہور کے نزدیک ” حسن الحدیث“ ہے، لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا، اس بنا پر ” متروک“ قرار پایا۔
جیسا کہ اس بارے میں :
◈ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
صدوق اختلظ بأخرة، فترك، و فى حديثه عن الثوري ضعف شديد .
”یہ صدوق راوی ہے لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا، اس کی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے حدیث میں سخت کمزوری ہے۔“ [ تقريب التهذيب لابن حجر : 1958 ]
القاسم بن مساور الجوہری دونوں کے بارے میں کسی نے ذکر نہیں کیا کہ انہوں نے رواد سے اختلاط سے پہلے سنا ہو، لہٰذا سند ” ضعیف “ ہے
◈ ابوالحسن علی بن اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے باپ اسحق بن راہویہ رحمہ اللہ کے کان پیدائشی طور پر چھیدے ہوئے تھے تو دادا راہویہ، الفضل بن موسی السیانی کے پاس گئے، ان سے اس بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: آپ کا بیٹا تو انتہائی اچھا انسان ہو گا یا انتہائی برا ہو گا۔ [ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي : 347/6، وسنده حسن ]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
هذا اسناد جيد و حكاية عجيبه . . . .
”اس کی سند حسن ہے اور یہ حکایت عجیب ہے۔“ [ سير اعلام النبلاء للذهبي : 380/11 ]
◈ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”گویا کہ امام الفضل بن موسی یوں سمجھے کہ جس طرح یہ بچہ اس خاصیت میں دوسروں سے منفرد ہے، اسی طرح یہ دین، یا دنیا میں دوسروں سے منفر د ہو گا۔“ [تحفة المودود : 143 ]
◈ امام اسحاق بن راہویہ المروزی رحمہ اللہ ( 161/ 238ھ ) کے بارے میں امام خطیب بغدای رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
كان أحد أئمة المسلمين و علما من اعلام الد ين، اجتمع له الحديث، والفقه، والحفظ، والصدق، و لورع، والزهد . . . . . . . . . .
” آپ مسلمانوں کے اماموں میں سے ایک امام ہیں۔ ان کے پاس حدیث، فقہ، حفظ، صدق، ورع، اور زہد سب کچھ جمع ہو گیا“ تھا۔۔۔۔۔۔۔ [تاريخ بغداد للخطيب : 345/6 ]
آپ رحمہ اللہ نے بلاد خراسان میں جہمیوں اور دیگر اہل بدعت کا خوب ردّ کیا، سنت کی بالا دستی اور صحیح اسلامی عقائد کی نشر و اشاعت میں بھر پور کردار ادا کیا۔
فائدہ :
بچی یا عورت کے لئے کانوں میں چھید کروانا جائز اور درست ہے، کیونکہ عورت زینت کے لئے زیور کی محتاج ہے، اس کے جواب پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ام زرع دلیل ہے۔ اس میں ہے کہ گیارویں عورت نے اپنے خاوند کے بارے میں کہا :
أناس من حلي أذني .
” اس نے زیورات سے میرے کان لچکا دیئے۔ “ [ صحيح بخاري : 2/ 780/5189، صحيح مسلم : ٢/288، 2448/92 ]
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے بعد عورتوں کو صدقہ کی ترغیب دلائی تو :
فجعلت المرأة تلقي قرطها .
” عورت اپنی بالیاں اتارنے لگیں۔“
[ صحيح بخاري : 843/2، ح : 5873، صحيح مسلم : 290/1، ح 890 ]
محمد بن محمود السروشنی (الحنفی م 632ھ ) لکھتے ہیں :
ولا بأس بثقف أذن الطفل من البنات، لأنهم يفعلون ذلك زمن النبى صلى الله عليه وسلم من غير انكار . . . . . . .
”بچیوں کے کانوں کو چھید وانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ لوگ عہد نبوی میں بغیر انکار کے ایسا کرتے تھے۔ “ [ جامع احكام الصغار 122/ ]
الحاصل :
مرد کے لئے کانوں کو چھید وانا اور ان میں بالیاں وغیرہ ڈالنا قطعاً جائز نہیں ہے بلکہ عورتوں کی مشابہت کی بنا پر حرام ہے۔ افسوس ہے مسلمان نوجوان کافروں کی نقالی میں شریعت مطہرہ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے