محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں
تحریر: ابو حمزہ سلفی

یہ مضمون تابعی محدث محمد بن منکدر سے منسوب اس اثر پر ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک پر جا کر رخسار رکھتے اور وہاں دعا کرتے تھے۔ یہ روایت ابن ابی خیثمہ وغیرہ نے ذکر کی ہے، لیکن اس کی سند میں اسماعیل بن یعقوب التیمی نامی راوی موجود ہے جس پر ائمہ نے سخت جرح کی ہے۔ اسی وجہ سے محدثین نے اس روایت کو سخت ضعیف اور منکر قرار دیا ہے۔

اس تحریر میں ہم اس روایت کا متن، اس کے اسناد پر ائمہ کی آراء، “فِيهِ لِين/لین الحدیث” جیسے جرح کے الفاظ کی حقیقت، اور بعض معاصر اعتراضات کی وضاحت سب کو بالتفصیل بیان کریں گے تاکہ واضح ہو جائے کہ یہ روایت قابلِ احتجاج نہیں اور اس کو وسیلہ یا استغاثہ کے باب میں دلیل بنانا علمی طور پر درست نہیں۔

اصل روایت: متن، ترجمہ اور مراجع

روایت کا متن

ابن ابی خیثمہ نے اپنی تاریخ میں اس اثر کو یوں بیان کیا:

«كان محمد بن المنكدر يجلس مع أصحابه، فكان يصيبه الصمات، فكان يقوم كما هو، يضع خده على قبر النبي ﷺ، ثم يرجع، فعوتب في ذلك، فقال: إنه تصيبني خطرة، فإذا وجدت ذلك استغثت بقبر النبي ﷺ. وكان يأتي موضعًا في المسجد في الصحن فيتمرغ ويضطجع، فقيل له في ذلك، فقال: إني رأيت النبي ﷺ في هذا الموضع؛ قال: أراه في النوم.»

اردو ترجمہ

محمد بن منکدر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتے تو کبھی ان پر سکوت طاری ہو جاتا۔ پھر وہ اسی حالت میں اٹھ کر نبی کریم ﷺ کی قبر پر اپنا رخسار رکھ دیتے اور واپس پلٹ آتے۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو کہا: میرے دل پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے، تو میں نبی کریم ﷺ کی قبر کے پاس جا کر فریاد کرتا ہوں۔ وہ مسجد کے ایک حصے میں آ کر زمین پر لیٹ بھی جاتے، جب ان سے پوچھا گیا تو کہا: میں نے اسی جگہ خواب میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا ہے۔


(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ 2/258–259، رقم 2777–2778؛ تاریخ دمشق لابن عساکر 50/56؛ سیر أعلام النبلاء للذہبی 5/358–359)

سند کی حالت

یہ اثر سند کے اعتبار سے درست نہیں کیونکہ اس کا مدار اسماعیل بن یعقوب التیمی پر ہے جس پر ائمہ نے ضعف کی تصریح کی ہے، جیسا کہ آگے تفصیل میں ذکر ہوگا۔

اسماعیل بن یعقوب التیمی پر ائمہ کی جرح

یہ روایت جس راوی پر موقوف ہے وہ اسماعیل بن یعقوب التیمی ہے۔ ائمہ حدیث نے اس پر متعدد جروحات کی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کی روایت معتبر نہیں۔

1. امام ابو حاتم الرازی

عربی متن:
«إسماعيل بن يعقوب التيمي … هو ضعيف الحديث.»
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 2/204، رقم 690)

ترجمہ: اسماعیل بن یعقوب التیمی حدیث میں ضعیف ہے۔

وضاحت: امام ابو حاتم کی جرح صریح ہے، اس کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

2. حافظ ذہبی

انہوں نے تاریخ الإسلام میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد کہا:
عربی متن:
«إسماعيل: فيه لين.»
(تاریخ الإسلام، ترجمہ محمد بن المنکدر)

ترجمہ: اسماعیل میں کمزوری ہے۔

وضاحت: “فِيهِ لِين” محدثین کے ہاں جرح کا لفظ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس راوی کی منفرد روایت پر حجت نہیں، زیادہ سے زیادہ متابعت یا شواہد میں ذکر ہو سکتی ہے۔

3. امام ابن الجوزی

انہوں نے اپنی کتاب الضعفاء والمتروكون میں لکھا:
عربی متن:
«إسماعيل بن يعقوب التيمي … ضعيف الحديث.»
(الضعفاء والمتروكون، رقم 429)

ترجمہ: اسماعیل بن یعقوب التیمی ضعیف الحدیث ہے۔

وضاحت: ابن الجوزی نے بھی ابو حاتم کی جرح برقرار رکھتے ہوئے اسے مجروح راویوں میں شامل کیا۔

4. دیگر اقوال

  • میزان الاعتدال میں حافظ ذہبی نے ابو حاتم کی جرح کو برقرار رکھا اور اس راوی کو غیر معتبر بتایا۔

  • اس راوی کے بارے میں کسی بھی معتبر امام سے توثیق ثابت نہیں۔

نتیجہ

اسماعیل بن یعقوب التیمی پر ائمہ کی متفقہ جرح ہے: “ضعیف الحدیث” اور “فِيهِ لِين”۔ لہٰذا محمد بن منکدر سے مروی یہ واقعہ اپنی بنیاد ہی میں غیر معتبر ہے، اور اس سے استدلال درست نہیں۔

“فِيهِ لِين / لین الحدیث” کی اصطلاح اور محدثین کی وضاحت

محمد بن منکدر کے اثر کی سند میں موجود راوی اسماعیل بن یعقوب التیمی پر بعض محدثین نے “فِيهِ لِين” یا “لین الحدیث” کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ اصطلاح اپنے مفہوم کے اعتبار سے جرح کے الفاظ میں شمار ہوتی ہے، اور اس کی وضاحت ائمہ حدیث نے صاف طور پر کر رکھی ہے۔

1. ملا علی قاری حنفی

“لین الحدیث” اور “فِيهِ لِين” جیسے الفاظ جرح کی مراتب میں سے ہیں:

«فكل من قيل فيه هذه المراتب الأربعة بل الخمسة لا يُحتج به، ولا يستشهد به، ولا يُكتب حديثه.»
(شرح نخبة الفكر)

ترجمہ: جن راویوں کے بارے میں یہ الفاظ (ضعف، فیہ خلف، فیہ لین، لین الحدیث وغیرہ) کہے گئے ہوں ان سے نہ تو احتجاج کیا جائے گا، نہ استشہاد اور نہ ہی ان کی حدیث لکھی جائے گی۔

2. ابن الملقن

«لَين الحديث: يُكتب حديثه ويُنظَر فيه اعتباراً.»
(المقنع في علوم الحديث)

ترجمہ: “لین الحدیث” راوی کی روایت لکھی تو جاتی ہے مگر صرف اعتبار (یعنی متابعت و شواہد) کے لیے، حجت کے طور پر نہیں۔

3. جلال الدین سیوطی

«فإذا قالوا: لين الحديث كُتِب حديثه ويُنظَر فيه اعتباراً.»
(تدريب الراوي)

ترجمہ: اگر محدثین کسی کے بارے “لین الحدیث” کہیں تو اس کی روایت لکھی جاتی ہے مگر صرف اعتبار (شواہد/متابعات) کے لیے۔

4. حافظ زین الدین عراقی

«المرتبة الخامسة: فلان فيه مقال … أو لين الحديث … فإنّه يُخرج حديثه للاعتبار.»
(شرح التبصرة والتذكرة = ألفية العراقي)

ترجمہ: پانچویں درجہ کی جرح میں “لین الحدیث” آتا ہے، ایسے راوی کی روایت صرف اعتبار کے لیے ذکر کی جاتی ہے۔

5. امام ابو حاتم الرازی

«لين الحديث: يكتب حديثه ولا يُحتج به.»
(الجرح والتعديل)

ترجمہ: “لین الحدیث” راوی کی روایت لکھی جاتی ہے لیکن اس سے احتجاج نہیں کیا جاتا۔

خلاصہ

“فِيهِ لِين / لین الحدیث” کا مطلب یہ ہے کہ ایسا راوی اپنی منفرد روایت میں قابلِ حجت نہیں۔ اس کی روایت زیادہ سے زیادہ شواہد و متابعات میں ذکر کی جاتی ہے۔ اسماعیل بن یعقوب پر یہی حکم لگایا گیا ہے، اس لیے اس کی سند والی روایت ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے۔

بعض بریلوی اعتراضات کی وضاحت اور نتیجہ

1. اعتراض: ابو حاتم الرازی متشدد ہیں

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابو حاتم نے اسماعیل بن یعقوب پر جرح کی ہے، لیکن وہ جرح میں سخت تھے، اس لیے ان کی بات قابلِ التفات نہیں۔

جواب: اس پر صرف ابو حاتم کی جرح نہیں ہے، بلکہ حافظ ذہبی نے بھی اسے “فِيهِ لِين” کہا اور ابن الجوزی نے اسے ضعفاء میں ذکر کیا۔ جب متعدد ائمہ کا کلام ایک ہی سمت میں ہو تو کسی ایک کے “تشدد” کا بہانہ اسے معتبر نہیں بنا سکتا۔

2. اعتراض: حافظ ذہبی نے “فِيهِ لِين” کہا، لہٰذا وہ صدوق ہے

“فِيهِ لِين” محدثین کی اصطلاح میں جرح ہے، توثیق نہیں۔ جیسا کہ ملا علی قاری، ابن الملقن، سیوطی، عراقی اور ابو حاتم نے وضاحت کی: “لین الحدیث” راوی کی روایت احتجاج کے قابل نہیں، صرف شواہد و متابعات میں ذکر کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ اسماعیل بن یعقوب صدوق ہے، درست نہیں۔

3. اعتراض: ابن حبان نے اسماعیل کو الثقات میں ذکر کیا

ابن حبان کے بارے میں اہلِ علم نے لکھا ہے کہ وہ توثیق میں توسع کرتے تھے اور بعض مجروح و مجہول راویوں کو بھی الثقات میں ذکر کر دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ابن حبان کی توثیق کو جمہور محدثین کی صریح جرح پر ترجیح دینا درست نہیں۔

4. قبرِ نبوی کے ادب کے بارے میں اہلِ علم کی ہدایت

علامہ سمہودی نے وفاء الوفاء میں لکھا: قبر کے سامنے جھکنے یا زمین کو چومنے سے پرہیز کیا جائے، کیونکہ یہ بدعت ہے اور سلف سے ثابت نہیں۔ خیر و بھلائی سلف صالحین کی پیروی میں ہے۔

جامع نتیجہ

  • محمد بن منکدر سے قبرِ نبوی پر جا کر دعا اور استغاثہ کرنے والا اثر ابن ابی خیثمہ وغیرہ کے طریق سے آتا ہے، لیکن اس کی سند میں اسماعیل بن یعقوب التیمی ہے۔

  • اس پر ائمہ کی متفقہ جرح ہے: ابو حاتم نے “ضعیف الحدیث” کہا، ذہبی نے “فِيهِ لِين” کہا، ابن الجوزی نے اسے ضعفاء میں ذکر کیا۔

  • “لین الحدیث / فیہ لین” محدثین کے نزدیک جرح کے الفاظ ہیں، اس کی منفرد روایت حجت نہیں۔

  • ابن حبان کی توثیق کو جمہور کی صریح جرح پر ترجیح دینا علمی دیانت کے خلاف ہے۔

  • لہٰذا یہ اثر سخت ضعیف و منکر ہے، اس سے استغاثہ یا وسیلہ کے باب میں کوئی شرعی دلیل قائم نہیں کی جا سکتی۔

نتیجہ: زیارتِ قبرِ نبوی میں صحیح ادب سلام اور دعا ہے، لیکن اس طرح کے ضعیف و منکر آثار پر عمل کرنا اور ان کو دلیل بنانا درست نہیں۔

اہم حوالوں کے سکین

محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 01 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 02 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 03 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 04 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 05 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 06 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 07 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 08 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 09 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 10 محمد بن منکدر کی نبیﷺ کے روضہ پر فریاد رسی والی روایت ثابت نہیں – 11

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے