مبارک بن حسان السلمی جرح و تعدیل کے تناظر میں
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد!
مبارک بن حسان السلمی البصری المکی کتب ستہ میں سے سنن ابن ماجہ کے راوی ہیں اور ابو یونس کی کنیت سے معروف ہیں۔
سنن ابن ماجہ میں ان کی دو (۲۹۳۹،۲۷۱۰) حدیثیں ہیں ۔ عام طور پر انھیں مختلف فید راوی شمار کیا جاتا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ ثقہ و صدوق راوی ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
معدلین اور ان کی تعدیل
◈امام یعقوب بن سفیان الفسوی رحمتہ اللہ (متوفی ۲۷۷ھ) نے فرمایا: ’’مبارك بن حسان وهو ثقة‘‘
🌿(المعرفة والتاريخ: ١٩٩/٢)
◈امام یحیی بن معین رحمتہ اللہ ( متوفی ۳۳۳ھ) نے فرمایا: ”ثقة“
(تاريخ يحيى بن معين /٥٤٨/٢ ، رواية الدورى)
◈امام ابن حبان رحمتہ اللہ (متوفی ۳۵۴ھ) نے کتاب الثقات (٥۰۱/۷) میں نقل کر کے فرمایا: ’’يخطئ ويخالف‘‘
◈امام ابن شاہین رحمتہ اللہ (متوفی ۳۸۵ھ) نے فرمایا: ”ثقة“
🌿(تاريخ أسماء الثقات: ١٤٣٨)
◈امام حاکم نیشا پوری رحمتہ اللہ (متوفی ۴۰۵ھ) نے ان کی حدیث کو صحیح الإسناد قرار دیا ہے۔
🌿(دیکھئے المستدرك ٥٤٣/١)
◈امام عبد الحق الاشبیلی رحمتہ اللہ (متوفی ۵۸۱ھ) نے فرمایا: ’’مبارك بن حسان ثقة مشهور‘‘
🌿(الأحكام الكبرى ٤٩٦/٣)
◈امام ابوالفضل محمد بن طاہر بن علی المقدسی القیسر انی رحمتہ اللہ (۵۰۷ھ) نے فرمایا: ’’ومبارك هذا لم يتكلم فيه المتقدمون‘‘
یعنی متقدمین میں سے کسی نے ان پر کوئی کلام نہیں کیا۔
🌿(ذخيرة الحفاظ ٢/ ٧٤٥)
نيز فرمايا:
”والمبارك هذا لم يذكر في الضعفاء“ مبارک کو ضعیف راویوں میں شمار نہیں کیا گیا۔
🌿(ذخيرة الحفاظ ١٧١٤٣)
◈حافظ ضیاء الدین المقدسی رحمتہ اللہ (متوفی ۶۴۳ ھ ) نے بھی صحیح حدیث کی ہے۔
🌿(دیکھئے المختاره: ۲۱۷/۱۱)
◈علامہ بوصیری رحمتہ اللہ (متوفی ۸۴۰ھ) نے مبارک بن حسان کی حدیث کے بعد فرمايا: ’’هذا إسناد رواته ثقات‘‘
🌿(اتحاف الخيره المهرة ٣٤٢/٦)
جمہور محدثین کی توثیق کے بعد مبارک بن حسان پر جرح سے متعلق چند باتیں قابل ذکر ہیں:
ان پر بعض جرح غیر ثابت ہے۔
بعض متاخرین و معاصرین نے امام ابوداود، امام نسائی اور از دی کے محض اقوال نقل کیے ہیں، لہذا انھیں جارحین میں شمار نہیں کیا ، مثلاً: ابن الملقن
🌿(دیکھئے البدر المنير ٦/١٧٧)
جارحین اور ان کی جرح
◈امام ابوداود رحمتہ اللہ (متوفی ۲۷۵ھ) نے فرمایا: ’’منکر الحدیث‘‘
🌿(اکمال تهذيب الكمال ٥٧/١١)
یہ جرح مردود ہے کیونکہ اس جرح کے راوی ابوعبیدالآجری کی توثیق نا معلوم ہے۔
تنبیہ :
میں نے ’’سؤالات أبي عبيد الأجرى للإمام‘‘ أبي داود سليمان بن ’’الأشعث السجستانی‘‘ کے دو نسخے دیکھے ہیں، مجھے ان میں مبارک بن حسان کا ترجمہ ہی نہیں ملا ، یعنی یہ ابوعبید ( مجہول) کی طرف بھی محض منسوب ہے۔ واللہ اعلم
امام ابو عبد الرحمن النسائی رحمتہ اللہ (متوفی ۳۰۳ھ) نے فرمایا: ’’ليس بالقوى‘‘
🌿(ميزان الاعتدال للذهبي ٥١٢/٤)
یہ قول امام نسائی رحمتہ اللہ سے باسند صحیح ثابت نہ ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ (متوفی ۴۵۸ھ) نے فرمایا: ’’ضعیف‘‘
🌿(دیکھیے شعب الایمان (٤٩/١٢) الدعوات الكبير (٣٢١/٢)
◈حافظ عبد الرحمن بن علی بن الجوزی رحمتہ اللہ (متوفی ۵۹۷ھ) نے فرمایا: ’’قال الأزدي: متروك الحديث لا يحتج به يرمي بالكذب‘‘
🌿(الضعفاء والمتروكون ٣٢/٣)
حافظ ابن الجوزی کی جرح کی بنیاد الازدی ہے جو کہ خود مختلف فیہ بلکہ ضعیف ہے۔ دیکھیے تاريخ بغداد للخطيب (٣٦/٣، ٣٧ت ٧٠٩ و میزان الاعتدال ( ٥٢٣٣) وغيره، نیز امام ذہبی رحمتہ اللہ نے فرمایا: اس کی کتاب ’’الضعفاء‘‘ میں مؤاخذات ہیں کیونکہ ایک جماعت کو اس نے بغیر دلیل کے ضعیف قرار دیا ہے۔ (سیر أعلام النبلاء ٣٤٨/١٦) مبارک بن حسان (ثقه عند الجمہور) امام ذہبی کی مذکورہ عبارت کے بالکل صحیح مصداق ہیں جنھیں متروک بنادیا گیا ہے!
◈امام ذہبی رحمتہ اللہ (متوفی ۷۴۸ھ) نے فرمایا: ’’مبارك واه‘‘
(تلخيص المستدرك: ٥٤٣/١)
◈حافظ ابن حجر العسقلانی رحمتہ اللہ (متوفی ۸۵۲ھ) نے فرمایا: ’’لین الحدی‘‘
🌿(تقريب التهذيب : ٦٣٦٠)
◈حافظ ابن حبان رحمتہ اللہ نے فرمایا: ”يخطئ يخالف“
🌿(کتاب الثقات: ٥٠١/٧)
◈امام ابن عدی رحمتہ اللہ (متوفی ۳۶۵ھ) نے فرمایا: ’’ومبارك بن حسان هذا مھم اللہ قدروى أشياء غير محفوظة‘‘
🌿(الكامل في ضعفاء الرجال: ٤٩٥/٩)
قارئین کرام :
مبارک بن حسان کی جمہور محدثین نے توثیق کر رکھی ہے اور جمہور کے مقابلے میں صرف امام بیہقی ، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ کی جرح ثابت ہے جو يقيناً لائق التفات نہیں، نیز حافظ ابن حبان اور امام ابن عدی کے کلام کا دو طرح سے جواب ہے:
اولاً:
جمہور کی توثیق کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اسی لیے امام ابوالفضل المقدسی رحمتہ اللہ نے ’’الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ سے مبارک بن حسان کی دونوں روایتیں نقل کرنے کے بعد بالترتیب فرمایا: ’’ومبارك هذا لم يتكلم فيه المتقدمون‘‘
🌿(ذخيرة الحفاظ ٢/ ٧٤٥)
’’والمبارك هذا لم يذكر في الضعفاء‘‘ (١٧١٤/٣)
ثانیا :
جن روایات میں محدثین کرام خطا کی صراحت کر دیں انھیں چھوڑ دیں ، علاوہ ازیں یہ ثقہ وصدوق اور قابل حجت ہیں، لیکن پہلا جواب ہی راجح ہے۔ واضح رہے کہ جب راوی ثقہ ثابت ہو جائے تو ’’يخطئ ويخالف‘‘ وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ، کیونکہ خطا سے کون محفوظ ہے؟ نیز جب ثقہ راوی کی خطا دلائل سے معلوم ہو جائے تو محض اس خطا کو ترک کیا جاتا ہے نہ کہ ثقہ راوی کو ہی متروک قرار دیا جاتا ہے۔
خلاصة التحقیق :
مبارک بن حسان اثقه عند الجمہور اور صحیح الحدیث ہیں۔
تنبيه :
ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ مبارک بن حسان کو محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمتہ اللہ نے بھی سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں ضعیف قرار دیا ہے تو عرض ہے کہ راقم الحروف استاذ محترم رحمه الله رحمة واسعة ہی کے علم وفنون سے خوشہ چین ہے اور اٹھی کے منہج کے مطابق یہ تحقیق پیش کی ہے۔ ہم نے ابھی تک استاذ محترم رحمتہ اللہ سے بڑھ کر رجوع الی الحق کرنے والا کسی کو نہیں پایا اور یہی ہمارے اسلاف کا طریقہ تھا جس پر گامزن رہنے کے لیے ہم بھی کوشاں ہیں ، ولله الحمد ۔