ماہ محرم کے دو روزوں کی فضیلت میں صحیح احادیث
تحریر: ابوالحسن انبالوی، ماہنامہ الحدیث حضرو

الحمد لله رب العلمين والصلو والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:

ماہ محرم کے دو روزے؟

سیدنا ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یوم یومِ عاشوراء کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ
یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
(صحیح مسلم: ١١٦٢)

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے کہا: یہ ایک اچھا دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی ، موسیؑ نے بھی اس (دن) کا روزہ رکھا تھا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”موسیٰ کے ساتھ (مناسبت کے اعتبار سے ) میں زیادہ حق رکھتا ہوں ۔ تو آپ نے روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔‘‘
(صحيح البخاری: ٢٠٠٤ ، صحیح مسلم : ۱۱۳۰)

جمہور کے نزدیک یوم عاشوراء سے مراد ماہ محرم کا دسواں دن ہے۔
دیکھئے شہ صحیح مسلم للنووی (۱۲/۸)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’رمضان کے بعد افضل روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے۔“
(صحیح مسلم: ١١٦٣)

ابتدائے اسلام میں یوم عاشوراء کا روزہ فرضیت کا درجہ رکھتا تھا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ساقط ہوگئی تاہم فضیلت برقرار ہے۔ یہودیوں کی مخالفت … مگر کیسے؟
رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ( تو صحابہ کرامؓ نے) عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ یہود ونصاریٰ کی تعظیم و تکریم کا دن ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ
’’آئندہ سال ہم ان شاء اللہ ۹ محرم کا روزہ رکھیں گے۔“
(صحیح مسلم: ١١٣٤)

قارئین کرام ! اس سلسلے میں تقریباً تین موقف معروف ہیں، ہم ترتیب واران تینوں کو مع دلائل نقل کریں گے، پھر راجح موقف بھی واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ

پهلا موقف …..

صرف ۹ محرم کو روزہ رکھا جائے گا۔ درج بالا حدیث بھی اسی پر دال ہے، نیز اس حدیث کے راوی عبد اللہ بن عباسؓ سے جب عاشوراء کے روزے سے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : جب تم محرم کا چاند دیکھ لو تو دن شمار کرتے رہو اور نویں تاریخ کو روزہ رکھو۔
(صحیح مسلم : ۱۱۳۳)
یہ موقف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مرفوع حدیث اور صحابی کے قول سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ روزہ صرف ۹ محرم کا رکھا جائے گا اور اس سے یہود کی مخالفت بھی ہو جائے گی۔

دوسرا موقف …

روزہ ، ۱۰محرم کو رکھنا چاہیے، البتہ یہودیوں کی مخالفت کی بنا پر ۹ یا ۱۰ محرم کا روزہ بھی ملانا چاہیے اور ان کی دلیل درج ذیل ہے: ”عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو (لہذا) ایک دن پہلے یا بعد کا (بھی) روزہ رکھو۔“
(مسند احمد ١ / ٢٤١ ، ح ٢١٥٤ ، ابن خزيمة : ٢٠٩٥)

لیکن یہ روایت داود بن علی کی وجہ سے ضعیف ہے، لہذا اس روایت سے ۱۰ اور ۹ محرم کو روزہ رکھنے کا استدلال درست نہیں، تاہم ۹ اور ۱۰ کی وضاحت تیسرے موقف میں آ رہی ہے۔

تیسرا موقف ……

۹اور ۱۰ محرم کے دو روزے رکھنا مستحب ہیں اور ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
سیدنا جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیںعاشوراء کے روزے کا حکم دیتے ، اس کی ترغیب دیتے اور اس کا (خوب) اہتمام فرماتے ۔جب رمضان (کا روزه) فرض کر دیا گیا تو نہ آپ نے ہمیں اس کا حکم دیا نہ منع کیا اور نہ اس کا (خاص) اہتمام کیا۔
(صحیح مسلم : ۱۱۲۸)

حسن بصریؒ نے فرمایا:
” عَاشُورَاءُ يَوْمُ الْعَاشِرِ “ عاشوراء ( محرم کا ) دسواں دن ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبة ٥٩/٣ وسندہ صحیح) اور جمہور کے نزدیک بھی یہی مسلم ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔
جب یہ واضح ہو گیا کہ عاشوراء محرم ہے تو درج بالا حدیث سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے دس محرم، یعنی یوم عاشوراء کے روزے سے کبھی منع نہیں فرمایا، لہذا اس کی ممانعت پر محض عدم سے استدلال درست نہیں ہے ۔اگر کوئی کہے کہ عبداللہ بن عباسؓ نے ۹ محرم کو بھی عاشوراء قرار دیا ہے تو یہ صرف عاشوراء (دس محرم ) سے نسبت کی بنا پر کہا ہے، کیونکہ وہ ۹ اور ۱۰ محرم کے روزے کے قائل ہیں ، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

◈ سیدنا معاویہؓ(اپنے دور خلافت میں) مدینہ آئے تو انھوں نےعاشوراء کے دن خطبہ دیا، پھر فرمایا: تمھارے علماء کہاں ہیں؟ اے مدینہ والو! میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا، آپ اس دن کے بارے میں فرما رہے تھے : ” یہعاشوراء کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن کا روزہ تم پر فرض نہیں کیا (لیکن) میں روزے سے ہوں ، لہذا تم میں سے جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے وہ نہ رکھے ۔“
(صحیح مسلم : ۱۱۲۹)

سیدنا معاویہؓ کا نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعدعاشوراء کے روزے سے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنا، اس امر کی دلیل ہے کہ عہد صحابہ میں بھی دس محرم کا روزہ مشروع تھا اور یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء (دس محرم ہی) کو روزہ رکھا تھا۔

یوم عاشوراء کے روزے سے متعلق سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:
’’خَالِفُوا اليَهُودَ وَصُوْمُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ“
’’یعنی یہود کی مخالفت کرو اور ۹ – ۱۰ ( محرم کو ) روزہ رکھو۔‘‘
(السنن الكبرى للبيهقى ٢٨٧/٤ ، مصنف عبد الرزاق : ٧٨٦٩ وسنده صحيح)

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کے فتویٰ سے درج ذیل امور کا پتا چلتا ہے:
➊ آپ کے نزدیکعاشوراء صرف ۹ محرم نہیں بلکہ 9 اور ۱۰ ہے اور اس کی وجہ تسمیہ ہم بیان کر چکے ہیں۔
➋ ۱۰ محرم کا روزہ مشروع و مسنون ہے۔
➌ یہود کی مخالفت کرنے کی غرض سے ۹ محرم کا روزہ بھی مشروع ہے۔
➍ عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی بعض روایات میں اور آپ کے اپنے ایک قول میں صرف ۹ محرم کا ذکر ہے، جبکہ درج بالا قول میں ۹ اور ۱۰ دونوں کا ذکر ہے، لہذا اسی قول پر فتوی و عمل ہوگا، کیونکہ عدم ذکر نفی ذکر کو مستلزم نہیں اور عدم ذکر سے استدلال اہل علم کو لائق نہیں ہے۔

◈ سید نا عبداللہ بن عباسؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ إِلَى قَابِلِ صُمْتُ التَّاسِعَ مَخَافَةَ أَنْ يَفُوْتَنِي يَوْمُ عَاشُوْرَاءَ
’’اگر آئیندہ سال تک زندگی ہوئی تو میں ان شاء اللہ محرم کو روزہ رکھوں گا، اس اندیشے کے پیش نظر کہ مجھ سے یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت نہ رہ جائے ۔“
(المعجم الكبير للطبراني : ۱۰۸۱۷ وسنده حسن)

اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ یوم عاشورا، دس محرم ہے وہاں یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت و اہمیت بھی واضح ہے۔

ایک عجیب اعتراض:

بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب۱۰ محرم کا روزہ رکھ لیا، پھر یہود کی مخالفت تو نہ ہوئی لہذا سرے سے ۱۰ محرم کو روزہ ہی نہ رکھا جائے ۔
واضح نصوص کے مقابلے میں اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں لیکن ہم ایک پہلو سے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے صرف ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔
(سنن ابی داود : ٢٤٢١ وسنده حسن)

امام ترمذیؒ ممانعت کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں:
’’ لأنَّ الْيَهُودَ يُعَظِمُونَ يَوْمَ السَّبْتِ‘‘
کیونکہ یہود ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔
(سنن الترمذی : ٧٤٤)
لیکن اگر ہفتے کے ساتھ اتوار کا روزہ بھی رکھ لیا جائے تو یہ جائز ہے۔
(دیکھئے: صحیح ابن خزیمه قبل حدیث : ٢١٦٧)

واضح رہے کہ ۱۰ محرم کا روزہ نہ رکھ کر یہود کی مخالفت مراد نہیں، بلکہ ا کے ساتھ ۹ محرم کا بھی روزہ رکھ کر مخالفت ثابت ہوگی۔

راجح موقف :

پہلے موقف میں مذکور احادیث اور تیسرے موقف کے دلائل کی رو سے ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ ۹ اور ۱۰ محرم کا روزہ مستحب و مسنون ہے۔

معروف عربی عالم دین الشیخ احمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں:
’’ وَمِنَ الْأَخْطَاءِ صِيَامُ يَوْمِ التَّاسِعِ فَقَط “
صرف ۹ محرم کا روزہ رکھنا خطا ہے۔
(بدع واخطاء تتعلق بالأيام والشهور، ص ٢٢٤)

یعنی ۹ اور ۱۰ محرم کے دو روزے رکھنے چاہئیں ۔

واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے