ماہِ شعبان کے روزے : سنت یا بدعت؟
یہ اقتباس الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر (ترجمان سپریم کورٹ، الخبر، سعودی عرب) کی کتاب بدعات رجب و شعبان سے ماخوذ ہے۔

ماہ شعبان اور آتش بازی وغیرہ :۔

ماہ شعبان سے متعلق بعض موضوعات کی وضاحت کر دینا بھی مناسب لگتا ہے کہ اس ماہ میں کون کون سے اعمال مسنون ہیں؟ اور وہ کون کون سے افعال ہیں جو نہ صرف یہ کہ مسنون نہیں بلکہ بدعات ہیں؟ اسی طرح اس ماہ کی درمیانی یعنی نصف شعبان کی رات کی حقیقت کیا ہے؟ اس دن کا روزہ رکھا جاتا ہے اور اس رات میں جو ایک مخصوص نماز ادا کی جاتی ہے، اس کی شرعی حقیقت کیا ہے؟ اس رات جو آتش بازی اور چراغاں کی جاتی ہے، اُن کی حقیقت تو ہم ”جشن معراج“ کے ضمن میں ذکر کر چکے ہیں، لہذا اُسے دُہرانے کی ضرورت نہیں۔

ماہ شعبان کے روزے :۔

دیگر امور کے سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے کسی خاص دن کو مقرر کیئے بغیر اس میں بکثرت نفلی روزے رکھتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر ويفطر حتى نقول لا يصوم وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان وما رأيته فى شهر أكثر منه صياما فى شعبان
(بخاری 1969 ، مسلم 37/8/4 ، صحیح الترمذی : 615 ، صحیح النسائی : 4215 ، ابن ماحه : 1710)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے اس کثرت سے رکھتے کہ ہم کہتے کہ شاید آپ کسی دن کا روزہ بھی نہیں چھوڑیں گے ، اور کبھی مسلسل روزے نہ رکھتے تو ہم سمجھتے کہ آپ نفلی روزہ نہیں رکھیں گے ، اور میں نے آپ کو کسی بھی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے رمضان کے ، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی ماہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔
اس موضوع کی احادیث صحاح وسنن میں بکثرت ہیں، جن میں سے بعض میں تو كُلِّه کے الفاظ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے ، مگر اُس کُل سے مراد اکثر ہے نہ کہ مکمل مہینہ، کیونکہ صحیح مسلم و نسائی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
ولا صام شهرا كاملا قط منذ قدم المدينة غير رمضان
(صحیح مسلم 36/8/4 ، صحیح نسائی 2213)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ طیبہ آئے ، سوائے رمضان کے آپ نے کسی ماہ کے پورے روزے کبھی نہیں رکھے۔
عربوں میں ویسے بھی اکثر پر كُل کا لفظ بولا جاتا ہے معروف ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام عبد اللہ ابن المبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے :
وهو جائز فى كلام العرب إذا صام أكثر الشهرأن يقول صام الشهر كله
(ترمذی مع التحفه 436/3 ، وايضاً فتح البارى)
کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ماہ کے اکثر دنوں کے روزے رکھے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے سارے ماہ کے روزے رکھے اور یہ بات تقریباً ہر زبان میں ہی معروف ہے۔
اور صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے :
وما صام النبى صلى الله عليه وسلم شهرا كاملا قط غير رمضان
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے روزے کبھی بھی پورے نہیں رکھے۔
اور اسی حدیث شریف میں آپ کے نفلی روزوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ويصوم حتى يقول القائل لا والله لا يفطر ويفطر حتى يقول القائل لا والله لا يصوم
(بخارى مع الفتح 215/4 حدیث : 197)
آپ کبھی اس تسلسل سے روزے رکھتے چلے جاتے کہ کہنے والا کہتا: اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی روزہ نہیں چھوڑیں گے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے ترک کرتے تو مسلسل ترک ہی کیئے جاتے حتی کہ کہنے والا کہتا : واللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو کبھی بھی نفلی روزہ نہیں رکھیں گے۔
ان اور ایسی ہی دوسری احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ آپ حسب موقع اور حسب فرصت کبھی مسلسل روزے رکھتے چلے جاتے اور کبھی مسلسل چھوڑتے ہی چلے جاتے ، جبکہ ہر ماہ کے ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے اور ہر ہفتہ میں پیر اور جمعرات کے روزے بھی رکھا کرتے تھے۔

ماہ شعبان کے بکثرت روزے رکھنے کی وجہ :۔

ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے تو ماہ محرم کے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں وارد ہے، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم سے بھی زیادہ شعبان کے روزے رکھے ہیں، اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ کو ماہ محرم کے روزوں کا شعبان کے روزوں سے افضل ہونا بعد میں بتایا گیا ہو، اور عمر کے آخری حصہ میں اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بکثرت روزے نہ رکھ سکے ہوں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اتفاق سے ماہ محرم میں سفر اور مرض وغیرہ کے عذر کی وجہ سے اس کے روزوں کی کثرت نہ فرما سکے ہوں۔
علامہ یمانی امیر صنعانی رحمہ اللہ نے ”سبل السلام“ میں لکھا ہے :
اس بات کا جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ ماہ محرم کے روزوں کی فضیلت حرمت والے مہینوں میں سے سب سے زیادہ ہو، یعنی عام مہینوں کی نسبت سے تو شعبان کے روزے افضل ہوں ، مگر حرمت والے چار مہینے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب اس سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ ان چار مہینوں کی فضیلت ماہ رمضان کے سوا دوسرے عام مہینوں سے ویسے ہی زیادہ ہے اور پھر ان زیادہ فضیلت والے مہینوں میں سے بھی ماہ محرم کے روزے زیادہ فضیلت والے ہوں۔(سبل السلام 168/2/1)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہ شعبان کے اکثر روزے رکھنے کی متعدد وجوہات بیان کی گئی ہیں، حتی کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”فتح الباری“ میں علامہ یمانی رحمہ اللہ نے ”سبل السلام“ میں اور دیگر شارحین نے اپنی اپنی کتب میں بعض روایات بھی نقل کی ہیں ، جن میں اس کا سبب بھی مذکور ہے ، مگر وہ چونکہ ضعیف روایات ہیں ، لہذا اُن سے قطع نظر اس سلسلہ میں صحیح ترین حدیث وہ ہے جو کہ ابو داؤد و نسائی اور صحیح ابن خزیمہ میں ہے جس میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
لم أرك تصوم من شهر من الشهور ما تصوم من شعبان قال ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى الله رب العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم
(فتح البارى و سبل السلام)
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہ شعبان جتنے (نفلی) روزے کسی دوسرے مہینے کے رکھتے نہیں دیکھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ اور یہ مہینہ وہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا عمل ایسی صورت میں اٹھایا جائے کہ میں روزے کی حالت میں ہوں۔
ماہ شعبان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بکثرت روزے رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ایام بیض اور پیر و جمعرات کے روزے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر رکھا کرتے تھے ، اور کبھی بعض وجوہات کی بناء پر مسلسل یہ روزے نہ رکھ سکتے تو ان کی کمی پوری کرنے کے لیئے آپ شعبان کے اکثر روزے رکھ لیتے تھے، اور اس مفہوم کی ایک حدیث بھی طبرانی اوسط میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، مگر وہ ضعیف ہونے کی وجہ سے نا قابل استدلال ہے۔
ماہ شعبان میں کثرت صیام کی ایک توجیہ یہ بھی منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم ماہ رمضان میں قضاء ہونے والے روزے آپ کے موجود ہونے کی وجہ سے موخر کرتی رہتیں حتی کے شعبان آجاتا تو وہ اپنے قضاء شدہ روزے رکھتیں، ساتھ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نفلی روزے رکھ لیا کرتے تھے۔(فتح البارى و سبل السلام)
بہر حال آپ ماہ شعبان میں بکثرت روزے رکھا کرتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت مبنی بر حکمت اور کسی نہ کسی برائی کو دور کرنے والی ہے۔ عربوں میں ڈاکہ اور رہزنی عام تھی مگر حرمت والے چار مہینوں میں وہ بھی ان افعال سے رک جاتے تھے اور ماہ رجب کے حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے اس میں وہ رکے رہتے اور شعبان کے شروع ہوتے ہی ادھر اُدھر منتشر ہو جاتے تھے، اور اس ماہ کا نام شعبان رکھا جانے کی وجہ دیگر وجوہات کے علاوہ ایک یہ منتشر ہو جانا بھی ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے :
وسمي شعبان لتشعبهم فى طلب المياه أو فى الغارات بعد أن يخرج شهر رجب الحرام وهذا أولى من الذى قبله وقيل فيه غير ذلك
(فتح الباري 213/3)
ماہ شعبان کا یہ نام ان کے پانی کی طلب یا لڑائی ولوٹ مار وغیرہ کے لیے منتشر ہو جانے کی وجہ سے ہی رکھا گیا ، یہ چیزیں وہ رجب کے گزر جانے کے فورا بعد ہی شروع کر دیتے تھے۔ یہ وجہ تسمیہ سب سے اولیٰ ہے اگرچہ اور بھی کئی ذکر کی گئی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ان حرکات اور افعال قبیحہ کے مقابلے میں روزے رکھنے کی سنت قائم فرمائی ، جس میں ترک طمع ولالچ ، ضبط نفس اور فاقہ کشی کی ریاضت ہے جس سے غارت گری، لوٹ مار اور ظلم و تعدّی کی عادات خود بخود چھوٹ جاتی ہیں۔

نصف ثانی شعبان کے روزے :۔

ماہ شعبان کے روزے مطلق ہیں نہ کہ خاص پندرہ شعبان کا روزہ ، کیونکہ خاص پندرہ شعبان کے بارے میں پائی جانے والی روایت ضعیف ہے ، جس کی قدرے تفصیل بھی ہم تھوڑا آگے چل کر ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ ، اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزے نہیں رکھنے چاہیئیں۔
جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
إذا انتصف شعبان فلا تصوموا حتى يکون رمضان
(صحیح ابی داؤد : 2049 ، ترمذی مع التحفه 437/3 ، ابن ماجه : 1651 ، مصنف عبد الرزاق 7325 ، صحيح الجامع للالباني 68/1)
جب نصف شعبان ہو جائے تو بعد میں روزے نہ رکھو یہاں تک کہ ماہِ رمضان داخل نہ ہو جائے۔
المرقاۃ میں ملا علی قاری کے بقول ، اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ شعبان کے روزے چاہے کتنے ہی فضیلت والے کیوں نہ ہوں مگر ہیں تو نفلی ، جبکہ آگے رمضان المبارک کے فرض روزوں کا مہینہ ہے ، لہذا اُس کی تیاری کے لیے قوت جمع کی جائے تاکہ کہیں آدمی کمزوری و ضعف کا شکار نہ ہو جائے اور کہیں اُس مہینہ کے فرض روزوں میں قضاء کی نوبت نہ آجائے۔ (المرقاة بحواله تحفة الأحوذي 437/3)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
شعبان میں کثرت صیام کی فضیلت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت صیام کی سنت اور نصف ثانی کے روزوں کی ممانعت میں کوئی تعارض و تضاد نہیں ، اور ان دونوں باتوں میں یوں مطابقت پیدا کرنا ممکن ہے کہ یہ ممانعت اُن لوگوں کے لیے ہے جو عموماً سال بھر کے دوران روزے رکھنے کے عادی نہ ہوں ، اور کسی وجہ سے شعبان کے نصف ثانی میں شروع کر دیں ، جبکہ ہر ماہ میں جو شخص ایام بیض ، ہر ہفتہ میں پیر و جمعرات یا ہر دوسرے دن کا روزہ یعنی صوم داؤدی رکھنے کا عادی ہو، اُسے ان ایام میں روزے رکھنے کی بھی ممانعت نہیں ہوگی ، لہذا دونوں طرح کی احادیث کا تعارض ختم ہو گیا۔(دیکھئے : الفتح 215/4)

شعبان کے آخری ایک دو دنوں کا روزہ :۔

اسی طرح ہی ماہ رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ رکھنے کی بھی ممانعت ہے۔ (دیکھئیے : بخاری : 1914 مسلم 194/7/4 ، صحیح ابی داؤد : 2047 ، صحیح الترمذی : 551 ، صحیح نسائی 2052 ، ابن ماجه : 1650)
ان دو یا صرف ایک روزے کی ممانعت بھی اُن لوگوں کے لیے ہے جو رمضان المبارک کی سلامی کا روزہ سمجھ کر رکھیں۔ اور سال بھر کے عادی روزہ دار کا چونکہ ایسی باتوں یا سلامیوں سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا ، لہذا اس کی بات ہی الگ ہے، اور خاص شعبان کی آخری تاریخ کا روزہ محض اس شک کی بناء پر رکھنا کہ شاید چاند ہو گیا ہو مگر کسی وجہ سے نظر نہ آسکا ہو، لہذا ہم اُس دن کا روزہ رکھ لیتے ہیں ، اس بات کی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت تردید فرمائی ہے، اور شک کے دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، اور بعض صحیح احادیث کی رو سے شک کے دن کا روزہ رکھنا نہ صرف ممنوع بلکہ حرام ہے، اور بعض محدثین وفقہاء نے صوم يوم الشك كو الأيام التى يحرم صومها کے ضمن میں ہی ذکر کیا ہے۔(دیکھئیے موطا مالك حوالہ جامع الاصول 226/7، 231، 233 ، صحیح ابی داؤد : 2046 صحیح نسائی : 2068 ، صحیح ترمذی : 553 ، ابن ماجه : 645)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے