ماہِ رجب پہلے جمعہ کی نماز صلوۃ الرغائب : ایک من گھڑت بدعت
یہ اقتباس الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر (ترجمان سپریم کورٹ، الخبر، سعودی عرب) کی کتاب بدعات رجب و شعبان سے ماخوذ ہے۔

صلوۃ الرغائب :

بعض لوگ ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو ایک خود ساختہ نماز ادا کرتے ہیں جسے ”صلوۃ الرغائب“ کا نام دیا جاتا ہے، یہ نماز جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شام کو مغرب وعشاء کے مابین پڑھی جاتی ہے ، جس کی امام غزالی وغیرہ کی طرف سے بارہ رکعتیں قرار پائی ہیں، ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ تین دفعہ سورہ قدر إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (سورۃ القدر : 1) اور بارہ مرتبہ سورہ اخلاص قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (سورۃ الاخلاص: 1) پڑھی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر ستر مرتبہ درود شریف پڑھیں اور پھر سجدہ میں گر کر ستر مرتبہ سبوح قدوس رب الملائكة و الروح پھر سجدہ سے سر اٹھا کر ستر مرتبہ رب اغفر وارحم وتجاوز عما تعلم إنك أنت الأعز الأكرم اور پھر دوسرے سجدہ میں بھی پہلے کی طرح ہی کریں۔ الابداع في مضار الابتداع، على احياء علوم الدین للغزالى 182/1
اور کئی موضوع ومن گھڑت روایتیں بیان کر کے اس نماز کی فضیلتوں کے پل باندھے جاتے ہیں ، جنہیں سن کر علم دین سے بے بہرہ اور اصلی و جعلی کی پہچان سے لا پرواہ لوگ حصول ثواب کے لیے کشاں کشاں چلے آتے ہیں، حالانکہ ”البداية و النهاية“ میں معروف مؤرخ ومفسر اور محدث امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے بقول یہ نماز قطعاً بے ثبوت ہے۔البداية والنهاية لابن كثير 109/3/2

صلوۃ الرغائب اور علامہ عراقی:۔

علامہ عراقی رحمہ اللہ نے احیاء علوم الدین للغزالی کی تخریج میں مذکورہ نماز والی حدیث کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔ تخریج احياء علوم الدین 182/1

صلوۃ الرغائب اور ابن تیمیه :۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس نماز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین، ائمہ دین اور علماء سلف رحمہم اللہ میں سے کسی سے بھی اس نماز کا ثبوت نہیں ملتا، اور نہ خاص ماہ رجب کی پہلی جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب کی فضیلت کسی حدیث صحیح میں وارد ہوئی ہے اور اس کے بارے میں جو ایک روایت بیان کی جاتی ہے، وہ علم حدیث کی معرفت رکھنے والے علماء ومحدثین کرام کے نزدیک جھوٹی اور من گھڑت ہے۔ الإبداع ايضاً

صلوۃ الرغائب اور فقهاء احناف:۔

اس صلوۃ الرغائب کے بارے میں دیگر فقہی مکاتب فکر اور محدثین و مجتہدین کی طرح ہی حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء بھی خوش نہیں، بلکہ فقہ حنفیہ کی کتب میں بھی اسے جعلی و من گھڑت اور بدعت قرار دیا گیا ہے. چنانچہ حاشیۃ ”الاشباه للحموی“ سے نقل کرتے ہوئے معروف و متداول کتاب ”رد المحتار“ حاشیه در مختار کی جلد اول ص : 544 پر ”صلوۃ الرغائب“ کے بارے میں لکھا ہے :
قد حدثت بعد أربع مائة و ثمانين من الهجرة وقد صنف العلماء كتبا فى الرد عليها و ذمها و تسفيه فاعلها ، ولا يغتر بكثرة الفاعلين لها فى كثير من الأمصار
یہ نماز 480 ھ کے بعد ایجاد ہوئی اور علماء نے اس کے انکار و مذمت اور اسے ادا کرنے والوں کے احمق پن پر کئی کتابیں لکھی ہیں ، اور کثیر شہروں میں اسے ادا کرنے والوں کی کثرت سے دھوکہ نہ کھایا جائے۔
اور آگے چل کر ص : 660 پر لکھا ہے :
ولذا منعوا عن الاجتماع لصلوة الرغائب التى أحدثها بعض المتعبدين لأنها لم تؤثر على هذه الكيفية فى تلك الليالي المخصوصة و إن كانت الصلواة
بحوالہ ردبدعات مصنفہ حضرت العلام حافظ عبد اللہ روپڑی ج : 117 120
اور اسی لیے اہل علم نے اس نماز ”صلوۃ الرغائب“ کے لیے جمع ہونے سے منع کیا ہے، جسے بعض جاہل عابدوں نے ایجاد کیا ہے، کیونکہ اس مذکورہ کیفیت کے ساتھ مخصوص راتوں میں ایسی کوئی نماز ماثور یا ثابت نہیں ہے، اگر چہ بذاتہ نماز تو اچھا عمل ہے۔
علاوہ ازیں بعض دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے اقوال و ارشادات سے بھی مذکورہ نماز کے بے اصل ہونے کا پتہ چلتا ہے مثلاً :

صلوۃ الرغائب اور حافظ ابن الجوزی :۔

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ”الحصن الحصین“ میں اس نماز والی روایت کے بارے میں کہا ہے :
فلا تصح، وسندها موضوع و باطل
بحوالہ الابداع ص: 288
یہ صحیح نہیں ہے، اور اس کی سند من گھڑت اور باطل ہے۔

صلوۃ الرغائب اور امام نووی

شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ اپنی ایک دوسری کتاب ”المجموع شرح المهذب“ میں فرماتے ہیں :
”صلوۃ الرغائب“ کے نام سے معروف نماز جو ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو مغرب و عشاء کے مابین بارہ رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ، اور 15 شعبان کی رات کو سو رکعتوں پر مشتمل ایک نماز پڑھی جاتی ہے، یہ دونوں نمازیں منکر ترین بدعت ہیں۔ اور کتاب ”قوت القلوب“ اور ”احیاء علوم الدین“ میں ان نمازوں کے مذکورہ ہونے سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے ، اور ان نمازوں کے بارے میں بیان کی جانے والی احادیث سے بھی دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے ، یہ سب باطل ہیں اور ائمہ علم میں سے ایک صاحب پر ان نمازوں کی شرعی حیثیت مشتبہ ہوگئی ، اور انھوں نے چند اوراق پر مشتمل ایک رسالہ بھی لکھ مارا اور اُس میں ان نمازوں کا استحباب ذکر کر دیا۔ اس رسالہ سے بھی دھوکہ نہ کھایا جائے۔ (کیونکہ وہ رسالہ من زلات العلماء کے قبیل سے ہے) اُس میں انھوں نے مغالطہ سے کام لیا ہے، اور شیخ الاسلام ابومحمد عبد الرحمن بن اسماعیل المقدسی رحمہ اللہ نے ان کے رد میں ایک نفیس کتاب لکھی ہے جس میں بڑے عمدہ طریقے سے ان کا بطلان ثابت کیا ہے۔المجموع شرح المهذب ، اور دیکھیے : الابداع، ص: 288

صلوۃ الرغائب اور امام طرطوشی :۔

اس خود ساختہ نماز کے بارے میں امام طرطوشی رحمہ اللہ نے امام المقدسی رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
لم يكن عندنا ببيت المقدس صلوة الرغائب هذه التى تصلى فى رجب ولا فى شعبان وأول ما حدثت عندنا صلوة شعبان فى سنة ثمان و أربعين و أربع مائة
حوالہ الابداع ، ص: 388
ہمارے یہاں بیت المقدس میں یہ نماز ”صلوۃ الرغائب“ نہیں پڑھی جاتی تھی جو کہ رجب میں پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی پندرہ شعبان کی نماز مروج تھی اور یہ شعبان والی نماز تو 448ھ میں ایجاد ہوئی ہے۔
ایسے ہی کئی دیگر محققین علماء نے اس ”صلوۃ الرغائب“ کو غیر مستحب بلکہ مکروہ و منکر بدعت قرار دیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے