سوال
محترم حافظ صاحب آپ نے اپنی تحریر میں فرمایا ہے کہ ’’تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمرو بن حزم b والی حدیث بطریق سلیمان بن داؤد خولانی حسن صحیح ہے ۔ لہٰذا آپ کا قول … الخ۔
یہ روایت واقعی ہی حسن ہے ۔ لیکن مزید اس بارے میں کچھ اشکالات ہیں۔ اُمید ہے آپ ضرور مزید توجہ فرمائیں گے اور بہتر حل پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
1۔ محمد ابراہیم شقرہ اپنی کتاب لَا یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ ص:۲۳ میں فرماتے ہیں:
وجوابنا على ذلك من وجهين اثنين : الأوّل : ان كلمة طاهر تعني : المؤمن يدل على ذلك قوله صلى الله عليه وسلم : إن المؤمن لا ينجس (رواه البخاري) فيكون المعني لا يمس المصحف إلا مؤمن والمراد : عدم تمكين المشرك من مسه، فهو كحديث : نهي عن السفر بالقرآن الي أرض العدوّ ، من غير ضرورة.
الثاني: أن النبى ﷺ كان يكتب إلى الملوك الكفار و يضمن كتبه إليهم هذه الآيات من القرآن ولا شك إنهم كانوا يمسون هذا الكتب أويمسها من يقرأ لهم من بطانتهم ممن هم على مثل دينهم
آخر میں لکھتے ہیں:
لا يمس القرآن إلا طاهر مسلم إلا لحاجة وضرورة فيجوز حينئذٍ لغير الطاهر المسلم مسه. ولا فرق بين أن يكون المسلم جنبا و بين أن يكون غير جنب وبين أن تكون المرأة حائضا أو نفساء و بين أن تكون غير ذلك فلا بحظر عليهما مس المصحف فى الحالين لأنها طاهران غير نجسين ص:۲۷
مزید فرماتے ہیں:
لكن الدليل الصريح ، الصحيح ، الموضع للحق فى هذه المسألة هو مع من يقول بإباحة المس ألاَ وَهو قوله صلى الله عليه وسلم لعائشة. حين طمثت فى الحج اصنعي كل ما يصنعه الحاج غير أن لا تطو فى بالبيت ولا تصلي ، فأباح لها الرسول صلى الله عليه وسلم كل أنواع القرب والعبادات ما عد الصلاة والطواف بالبيت لان الطواف صلوة غير أنه اُبيح فيه للطائف أن يتكلم
وبوب الإمام البخاری فی صحیحہ (۱؍۴۰۷) باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت وذكراِحدي روايات الحديث.
قد نقل الحافظ ابن حجر فى فتح الباري :۱؍۴۰۷ عن ابن رشيد تبعاً لإبن بطال. قوله فى مناسبة التبويب: ان مراده الاستدلال على جواز قراءة الحائض والجنب. بحديث عائشه رضي الله عنها واستحسنه الحافظ، ص:۲۸،۲۹۔
ص:۴۰ میں فرماتے ہیں:
وذكر البخاري عن ابن عباس أنه لم ير بالقرأة للجنب بأساً.(مذکورہ تمام حوالے لا يمسه إلا المطهرون لمحمد ابراهيم شقره کے ہیں۔
محترم حافظ صاحب ! آپ نے اپنی تحریر ص:۵،۶ میں شیخ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی عمرو بن حزم رحمہ اللہ والی روایت کی صحت نقل کی ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ روایت تو ثابت ہے لیکن یہاں لفظ ’’طاہر ‘‘ سے مراد کیا ہے۔ بذات خود شیخ موصوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قلت : هذا الجواب مبني على حرمة مس المصحف من الجنب والمصنف لم يذكر دليلا عليه هٰهنا ولكنه أشار فى ’’فصل : ما يجب له الوضوء. أن الدليل هو قوله صلى الله عليه وسلم «لا يمس القرآن إلا طاهر» مع أنه صرح هناك بأن لفظة ’’طاهر ‘‘ مشترك يحتمل معاني شتي وأنه لا بدمن حمله على معنى معين من قرينة ثم حمله هو على غير الجنب بغير قرينة وقد رد دنا عليه هناك بما فيه كفاية ، وبينا المراد من الحديث هناك، وأنه لا يدل على تحريم مس القرآن مطلقاً ، فراجعه.
والبراءة الأصلية مع الذيْن قالو ابجواز مس القرآن من المسلم الجنب ، وليس فى الباب نقل صحيح يجيز الخروج عنها. فتأمل ، تمام المنة للشیخ الالبانی رحمہ اللہ ص:۱۱۶))
اس کے علاوہ جتنے بھی دلائل فقہ السنہ میں جنبی کے لیے یا حائضہ کے لیے قرآن مجید نہ پڑھنے کے ہیں شیخ موصوف نے اپنی اس کتاب میں ان کارد کیا ہے ۔ (انظر تمام المنۃ ص:۱۱۶ تا ۱۱۹)
اب رہا مسئلہ کہ ’’جنبی طاہر نہیں ہوتا ‘‘ تو «إن المؤمن لا ينجس» کا مفہوم اور کیا ہے ؟والثانی : … کہ نماز پھر کیوں نہیں پڑھ سکتا اس لیے کہ اسے شرعاً نماز سے روکا گیا ہے جیسا کہ اوپر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی روایت میں یہ بات ثابت ہے۔
الجواب
مسئلے دو ہیں۔1۔جنبی و حائضہ کا قرآن پڑھنا۔ 2۔جنبی و حائضہ کا قرآن مجید کو ہاتھ لگانا اور چھونا۔
پہلے مسئلے میں درست اور صحیح بات یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ قرآن پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے لیے قرأت قرآن کی ممانعت والی کوئی ایک بھی روایت پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچتی ۔
اور دوسرے مسئلے میں صحیح اور درست قول ہے کہ جنبی اور حائضہ قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتے اور نہ ہی چھو سکتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لا يمس القرآن إلا طاهر » اور معلوم ہے کہ جنبی اور حائضہ طاہر نہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ ﴾ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ﴾ رہا آپ کا اشکال تو اس کا جواب ’’احکام و مسائل ‘‘ میں موجود ہے صفحہ ۹۷اور ۹۸ کا ایک دفعہ پھر سے مطالعہ فرما لیں۔
باقی جو کلام آپ نے شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’تمام المنۃ ‘‘ سے نقل فرمایا ہے تو اس کا جواب انہوں نے خود ہی ’’إرواء الغليل ‘‘ میں لکھ دیا ہے وہ فرماتے ہیں:
"وعليه فالنفس تطمئن لصحة هذا الحديث لاسيما وقد احتج به إمام السنة أحمد بن حنبل كما سبق ، و صححه أيضا صاحبه الإ مام إسحاق بن راهويه، فقد قال إسحاق المروزي فى مسائل الإمام أحمد (ص:۵):
قلت (يعني لأحمد) : هل يقرأ الرجل على غير وضوء؟ فقال : نعم ، ولكن لايقرأ فى المصحف ما لم يتوضأ. قال إسحاق : كما قال لما صح قول النبى صلى الله عليه وسلم:لا يمس القرآن إلا طاهر. وكذلك فعل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم والتابعون (۱؍۱۶۱)