سوال:
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پہلی بار اپنی لاٹھی کے حرکت میں آنے پر کیا کیا ؟
جواب :
ارشاد ربانی ہے :
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ ﴿١٠﴾
” اور اپنی لاٹھی پھینک۔ تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے، جیسے وہ ایک سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر لوٹا اور واپس نہیں مڑا۔ اے موسیٰ! مت ڈر، بے شک میں، میرے پاس رسول نہیں ڈرتے۔“ [النمل: 10]
اللہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی ہاتھ سے زمین پر پھینکیں، تا کہ وہ ان کے لیے واضح دلیل بن جائے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے والا مختارکل اور ہر چیز پر قادر ہے۔ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ ”الجان“ سانپوں کی ایک قسم ہے، جو حرکت میں سب سے تیز اور اضطراب میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو سانیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔
پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے اس کا معاینہ کیا، وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ یعنی شدت خوف سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : موسیٰ! جو تو دیکھ رہا ہے، اس سے خوف نہ کھا، بلاشبہ میں تجھے اپنا رسول منتخب کرنا چاہتا ہوں اور تجھے قدر و منزلت والا نبی بنانا چاہتا ہوں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿١٣﴾
”تو جب ان کے پاس ہماری نشانیاں آنکھیں کھول دینے والی پہنچیں تو انھوں نے کہا: یہ کھلا جادو ہے۔“ [ النمل: 13 ]
انھوں (فرعون اور اس کا لشکر) نے اپنے جادو کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہا، لیکن مغلوب ہوئے اور ذلیل ہو کر لوٹے۔