امام معمر بن احمد ابو منصور الاصبہانی (م 418ھ)
امام معمر بن احمد ابو منصور الاصبہانی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
فَہَذَا مَذْہَب أہل السّنۃ وَالْجَمَاعَۃ والأثر، فَمن فَارق مَذْہَبہم فَارق السّنۃ، وَمن اقْتدی بہم وَافق السّنۃ، وَنحن بِحَمْد اللَّہ من المقتدین بہم، المنتحلین لمذہبہم، الْقَائِلین بفضلہم، جمع اللَّہ بَیْننَا وَبینہمْ فِی الدَّاریْنِ، فَالسنۃ طریقتنا، وَأہل الْأَثر أَئِمَّتنَا، فأحیانا اللَّہ عَلَیْہَا وأماتنا برحمتہ إِنہ قریب مُجیب.
’’یہ (صفات باری تعالیٰ میں تعطیل و تاویل کی نفی) اہل سنت و الجماعت اور اہل الاثر کا مذہب ہے۔ جو ان کے مذہب کو چھوڑتا ہے، وہ سنت کو چھوڑتا ہے اور جو ان کی پیروی کرتا ہے، وہ سنت کی موافقت کرتا ہے۔ ہم بحمداللہ ان (اہل سنت و الجماعت) کے پیروکار ہیں اور ان کے مذہب کی طرف منسوب ہیں، ان کی فضیلت کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ساتھ دنیا و آخرت میں جمع کر دے۔ پس سنت ہمارا راستہ ہے اور محدثین ہمارے ائمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی (سنت) پر زندہ رکھے اور اپنی رحمت پر فوت کرے۔ وہ قریب و مجیب ہے۔‘‘
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ١/٢٦٠، وسندہ، صحیح)
علامہ ابو المظفر السمعانی (426-489ھ)
علامہ ابو المظفر السمعانی (رحمۃ اللہ علیہ) بیان کرتے ہیں:
أَنا أمرنَا بالاتباع وندبنا إِلَیْہِ، ونہینا عَنِ الابتداع، وزجرنا عَنہُ، وشعار أہل السّنۃ اتباعہم السّلف الصَّالح، وترکہم کل مَا ہُوَ مُبْتَدع مُحدث.
’’ہمیں اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں اسی کی طرف ترغیب دی گئی ہے اور ہمیں بدعت سے منع کیا گیا ہے اور ہمیں اس سے ڈانٹا گیا ہے۔ اہل سنت کا شعار اپنے سلف صالحین کی پیروی اور ہر بدعت کو چھوڑنا ہے۔‘‘
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ١/٣٩٥، الانتصار لاھل الحدیث : ٣١)
قوام السنہ، امام اسماعیل بن محمد الاصبہانی (م 535ھ)
قوام السنہ، امام اسماعیل بن محمد الاصبہانی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
وَلَیْسَ الْعلم بِکَثْرَۃ الرِّوَایَۃ، وَإِنَّمَا ہُوَ الإتباع، والاستعمال یَقْتَدِی بالصحابۃ، وَالتَّابِعِینَ وَإِن کَانَ قَلِیل الْعلم، وَمن خَالف الصَّحَابَۃ وَالتَّابِعِینَ فَہُوَ ضال، وَإِن کَانَ کثیر الْعلم.
’’علم کثرت روایت کا نام نہیں، بلکہ علم تو اتباع و اقتدا کا نام ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کی پیروی کرے، اگرچہ علم تھوڑا ہی ہو اور جو شخص صحابہ و تابعین کی مخالفت کرے، وہ گمراہ ہے، اگرچہ زیادہ علم والا ہی ہو۔‘‘
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ٢/٤٦٩)
نیز فرماتے ہیں:
وَذَلِکَ أَنہ تبین للنَّاس أَمر دینہم فعلینا الإتباع لِأَن الدّین إِنَّمَا جَاءَ من قبل اللہ تَعَالَی لم یوضع عَلَی عقول الرِّجَال، وآرائہم قد بَین الرَّسُول صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ السّنۃ لأمتہ، وأوضحہا لأَصْحَابہ، فَمن خَالف أَصْحَاب رَسُول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ فِی شَیْء من الدّین فقد ضل.
’’لوگوں کے لیے اپنے دین کا معاملہ واضح ہو گیا ہے۔ ہم پر اتباع ضروری ہے، کیونکہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔ دین لوگوں کی عقلوں اور آراء پر نہیں رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی سنت کو امت کے لیے واضح کر دیا ہے اور آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کے لیے اپنی سنت کی وضاحت کی ہے۔ تو جس شخص نے دین کے کسی مسئلہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی مخالفت کی، وہ گمراہ ہو گیا۔‘‘
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ٢/٤٧٢)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (661-728ھ)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) بیان کرتے ہیں:
وَمَنْ آتَاہُ اللَّہُ عِلْمًا وَإِیمَانًا؛ عَلِمَ أَنَّہُ لَا یَکُونُ عِنْدَ الْمُتَأَخِّرِینَ مِنْ التَّحْقِیقِ إلَّا مَا ہُوَ دُونَ تَحْقِیقِ السَّلَفِ لَا فِی الْعِلْمِ وَلَا فِی الْعَمَلِ.
’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے علم اور ایمان دیا ہو، اسے معلوم ہو جائے گا کہ علم و عمل میں متاخرین کی تحقیق، سلف صالحین کی تحقیق سے ادنیٰ درجہ کی ہی ہو گی۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیہ : ٧/٤٣٦)
امام دارمی (200-280ھ)
امام دارمی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
إِنَّ عَلَی الْعَالِمِ بِاخْتِلَافِ الْعُلَمَائِ، أَنْ یَجْتَہِدَ وَیَفْحَصَ عَنْ أَصْلِ الْمَسْأَلَۃِ، حَتَّی یَعْقِلَہَا بِجَہْدِہِ ما أَطَاقَ، فَإِذَا أَعْیَاہُ أَنْ یَعْقِلَہَا مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ فَرَأْیُ مَنْ قَبْلَہَ مِنْ عُلَمَاءِ السَّلَفِ خَیْرٌ لَہُ مِنْ رَأْیِ نَفْسِہِ.
’’ہم کہتے ہیں کہ علمائے کرام کے اختلاف کی بنا پر ایک عالم کو اجتہاد اور مسئلہ کی دلیل کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے، حتی کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق سمجھے۔ جب کتاب و سنت سے سمجھنے سے وہ عاجز آجائے تو اس سے پہلے سلف کے علمائے کرام کی آراء اس کے لیے اس کی اپنی رائے سے بہتر ہیں۔‘‘
(نقض الامام عثمان بن سعید الدارمی علی المریسی : ٦٦٥)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا مزید قول
ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) مزید فرماتے ہیں:
وَکُلُّ قَوْلٍ یَنْفَرِدُ بِہِ الْمُتَأَخِّرُ عَنْ الْمُتَقَدِّمِینَ وَلَمْ یَسْبِقْہُ إلَیْہِ أَحَدٌ مِنْہُمْ فَإِنَّہُ یَکُونُ خَطَأً.
’’ہر وہ قول جس میں بعد والا متقدمین سے منفرد ہو، اس سے پہلے وہ قول کسی نے نہ کہا ہو، وہ یقینا غلط ہوگا۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیہ : ٢١/٢٩١)
اہلحدیث کا موقف
اہلحدیث کہتے ہیں:
ما تکلم فیہ السلف فالسکوت عنہ جفائ، وما سکت عنہ السلف فالکلام فیہ بدعۃ.
’’جس مسئلہ میں سلف نے کلام کی ہے، اس بارے میں خاموش رہنا گناہ ہے اور جس مسئلہ میں سلف خاموش رہے ہیں، اس بارے میں کلام کرنا بدعت ہے۔‘‘
اور مزید کہتے ہیں:
کل خیر فی اتباع من سلف وکل شر فی ابتداع من خلف.
’’ہر خیر و بھلائی سلف کے اتباع میں ہے اور ہر برائی بعد والوں کی اختراع میں ہے۔‘‘
علامہ شاطبی کا قول
علامہ شاطبی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
فَالْمُتَأَخِّرُ لَا یَبْلُغُ من الرُّسُوخِ فِی عِلْمٍ مَا یَبْلُغُہُ الْمُتَقَدِّمُ، وَحَسْبُکَ مِنْ ذَلِکَ أَہْلُ کُلِّ عِلْمٍ عَمَلِیٍّ أَوْ نَظَرِیٍّ؛ فَأَعْمَالُ الْمُتَقَدِّمِینَ فِی إِصْلَاحِ دُنْیَاہُمْ وَدِینِہِمْ عَلَی خِلَافِ أَعْمَالِ الْمُتَأَخِّرِینَ، وَعُلُومُہُمْ فِی التَّحْقِیقِ أَقْعَدُ، فَتَحَقُّقُ الصَّحَابَۃِ بِعُلُومِ الشَّرِیعَۃِ لَیْسَ کَتَحَقُّقِ التَّابِعِینَ، وَالتَّابِعُونَ لَیْسُوا کَتَابِعِیہِمْ، وَہَکَذَا إِلَی الْآنِ، وَمَنْ طَالَعَ سِیَرَہُمْ، وَأَقْوَالَہُمْ، وَحِکَایَاتِہِمْ؛ أَبْصَرَ الْعَجَبَ فِی ہَذَا الْمَعْنَی.
’’بعد والا شخص علمی رسوخ میں پہلے والے شخص تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس سلسلے میں ہر عملی و نظریاتی علم کا یہی حال ہے۔ متقدمین کے دنیا و دین کے اصلاح کے حوالے سے جو کام ہیں، وہ متاخرین کے کاموں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ ان کے علوم، تحقیق میں گہرے تھے۔ صحابہ کرام کا شرعی علوم میں رسوخ تابعین کے رسوخ جیسا نہیں تھا (بلکہ اس سے بڑھ کر تھا)، اسی طرح تابعین، تبع تابعین کی طرح نہیں تھے اور آج تک یہی صورت حال ہے۔ جو شخص متقدمین کے احوال، اقوال اور حکایات کا مطالعہ کرے گا، اس سلسلے میں عجیب باتیں دیکھے گا۔‘‘
(الموافقات للشاطبي : ١/١٤٩)