قرض دے کر نفع کمانے کا شرعی حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

قرض دے کر کمائی کرنا
سوال: ایسے شخص کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے بھائی کو اس شرط پر غیر محدود مدت کے لیے قرض دیتا ہے کہ جو سامان وہ فروخت کرے گا، اس سے اسے روزانہ سو ریال یا اس سے کم یا زیادہ دے گا؟
جواب: یہ شرط فاسد ہے، قرض دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ قرض دے کر اس قرض سے کوئی چیز کمائے، خواہ وہ کوئی مال ہو، کوئی چیز ہو، کوئی فائدہ ہو یا کرایہ، کوئی چیز بھی جائز نہیں، کیونکہ قرض صرف احسان ہے، اگر اس میں معاوضہ یا اضافہ داخل ہو جائے تو یہ بیع اور سود ہوگا، مثلاً اگر میں تجھ کو دس ریال بطور قرض دوں تو وہ دس ریال تمہارے ذمے ثابت اور واجب الادا ہو جائیں گے، جب تمہارے لیے آسانی ہوگی، تم مجھے وہ دس ریال دے دو گے۔ لیکن اگر یہ بیع ہوئی تو درست نہیں ہوگی، مثلاً اس نے کہا: میں تجھے دس ریال کے بدلے دس ریال فروخت کرتا ہوں یہاں یاد رہے کہ اگر ایک نے دوسرے کو (مجلس عقد میں) پکڑائے نہیں تو یہ بیع فاسد ہوگی۔
یہاں یاد رہے کہ قرض دینا احسان کرنا ہے اور احسان ہی مطلو ب ہے۔ اس احسان کا یہ فائدہ سود خوروں کی خواہش کے عکس ہے، شریعت نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ تو دس روپے ادھار دے اور وہ دس ہی تجھے واپس کرے گا، لیکن جب تم نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ اس کے بدلے بارہ دے گا، یہ معاوضہ ہو جائے گا اور بیوع کے باب میں داخل ہوگا، اس طرح یہ سود ہو جائے گا، اس لیے اس کے متعلق علما نے ایک بڑا مفید قاعدہ درج کیا ہے کہ ”ہر وہ قرض جو کوئی فائدہ لائے وہ سود ہے۔“
[ابن باز مجموع الفتاوي و المقالات: 9/244]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے