ایامِ اضحیٰ میں صحیح قربانی وہ ہے جو خالص توحید، پاکیزہ کمائی اور سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق ہو۔ اس مضمون میں تین بنیادی سوالات کا تحقیقی جواب پیش کیا جا رہا ہے:
-
گائے یا اونٹ میں حصے دار کتنے بھی ہوں، کیا سب کا موحّد مسلمان ہونا شرط ہے؟
-
اگر پہلے سے خریدا ہوا جانور دبلا نکلے تو اسے بیچ کر قیمت میں اضافہ کر کے فربہ جانور لینا جائز ہے؟
-
حدیث کے لفظ «مسنّة» کا اصل مفہوم کیا ہے: “دو سال کا جانور” یا “دو دانت والا جانور”؟
2. قربانی اور تقویٰ کی بنیادی شرط
قَالَ اللهُ تَعَالٰی:﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْمُتَّقِينَ﴾ (المائدة: 27)
ترجمہ: “اللہ تو صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے۔”
قبولیتِ قربانی کیلئے سب سے پہلی شرط تقویٰ اور حلال مال ہے۔ اسی حقیقت کو رسولِ اکرم ﷺ نے یوں بیان فرمایا:
عَنۡ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه:«إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ، لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا»
(صحيح مسلم، كتاب الزكاة، ح 1015)ترجمہ: “بے شک اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک (مال اور عمل) ہی قبول فرماتا ہے۔”
جب ایک حصے دار کا مال حرام ہو تو پوری قربانی کی روح فوت ہو جاتی ہے، کیونکہ اللہ کا قانونِ قبولیت اجتماعی عمل میں سب پر یکساں نافذ ہوتا ہے۔
3. گائے/اُونٹ میں شراکت کی شرعی شرائط
-
تمام حصے دار مسلمان موحّد ہوں – غیر مسلم، بدعتی یا بے نماز شخص کی شرکت سے پوری قربانی باطل ہو جاتی ہے۔ یہ موقف حافظ عبدالقادر روپڑیؒ کا فتویٰ ہے (تنظیم اہل حدیث، 21 دسمبر 1973ء) اور اسے ائمۂ حدیث نے قبول کیا۔
-
نیت کی وحدت – سب کی نیت صرف “قربانی” ہو؛ کسی کا حصہ عقیقہ، نذر یا صدقہ کی نیت سے نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى»
اور ہر شخص کو وہی (اجر) ملے گا جس کی اُس نے نیت کی۔
(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، ح 1)
-
حصوں کی تعداد – سنت کی رو سے گائے میں سات، اونٹ میں دس افراد تک شریک ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ اوپر کی دونوں شرطیں پوری ہوں۔
4. دبلا جانور بدل کر فربہ جانور لینا
اگر خریدا ہوا جانور شرعی معیار پر پورا اترتا ہو (یعنی لاغر تو ہے مگر عیب دار نہیں) تو اس پر اکتفا کرنا بہتر ہے؛ البتہ صاحبِ حیثیت اگر ثواب کی نیت سے بہتر جانور لانا چاہے تو ایسا کرنا جائز اور مستحب ہے۔
دلیل:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما:
«فِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الإِبِلِ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَابْنَةُ لَبُونٍ…»
(صحيح البخاري، كتاب الزكاة، ح 1454)
ترجمہ: “پچیس اونٹوں میں زکوٰۃ ایک بنتِ مخاض ہے؛ اور اگر وہ موجود نہ ہو تو ابنۃ لبون (عمر میں بڑی) دی جا سکتی ہے۔”
امام ابن قدامہؒ اسی حدیث سے قیاس کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وَإِنْ بَاعَ الْهَدْيَ وَاشْتَرَى خَيْرًا مِنْهُ جَازَ»
(المغنی، ج 8، ص 638)
ترجمہ: “اگر کوئی قربانی کا (کم تر) جانور بیچ کر اس سے بہتر جانور خریدے تو جائز ہے۔”
5. لفظ «مسنّة» کی لغوی و فقہی تحقیق
الف. لغوی پہلو
-
«مسنّة» (نون مشدد) مادّہ س ن ن سے ہے، معنی: “دُو دانت والا”۔
-
یہ «مسنَّن» کا مؤنث ہے؛ اصل میں اسمِ فاعل تھا، نقلِ حرکت کے بعد «مسنّة» بنا۔
-
اس کا تعلق سال (سنة) سے نہیں بلکہ دانت (سِنّ) سے ہے۔
ب. حدیثِ نبوی ﷺ
عَنۡ جَابِرٍ رضي الله عنه:
«لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ»
(صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، ح 1963)
ترجمہ: “مسنّہ (دو دانت والا) جانور ہی ذبح کرو، سوائے اس کے کہ میسر نہ ہو تو دنبے کا جذعہ (جس کے آگے کے دودانت گرتے ہی اُگے ہوں) ذبح کر لو۔”
ج. فقہی تطبیق
-
بکری، گائے اور اونٹ—تینوں میں کم از کم دو مستقل دانت نکل آئے ہوں تو وہ مسنّہ ہیں۔
-
بعض ائمہ نے عمر کا اندازہ (ایک سال/دو سال) ملکی حالات کے لحاظ سے بیان کیا ہے، مگر اصل معیار دانت ہی ہے۔
6. جامع نتیجہ
-
قربانی میں شریک تمام افراد کا مسلمان، موحّد، نمازی اور حلال کمائی والا ہونا لازم ہے؛ ایک بھی خلافِ شرع شریک ہو تو پوری قربانی ناقص ہو جاتی ہے۔
-
شرعاً لاغر مگر صحت مند جانور بدلنا ضروری نہیں، لیکن ثواب کی غرض سے بہتر جانور کے ساتھ تبدیل کرنا جائز اور باعثِ اجر ہے۔
-
حدیث میں «مسنّة» سے مراد “دو دانت والا” ہے؛ عمر کا تخمینہ محض اجتہادی سہولت ہے، نص کا بدل نہیں۔
وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص توحید، پاکیزہ رزق اور سنتِ رسول ﷺ کے مطابق قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین.