قربانی کی کھالیں کن کو دینی چاہییں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال:

قربانی کی کھالوں کا صحیح مصرف کیا ہے؟ بعض علمائے کرام اس بات پر بہت زور دے رہے ہیں کہ کھالیں صرف اور صرف مساکین اور فقراء کا حق ہے۔ مجاہدین کو قربانی کی کھالیں دینا درست نہیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کر کے عند اللہ ماجور ہوں۔

جواب:

زندگی کے تمام مسائل کی طرح قربانی کی کھالوں کے مصرف کے لیے بھی ہمیں قرآن و سنت کو دیکھنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ معلوم ہو جانے کے بعد جو اس پر عمل بند رہے گا اور یہی مومن کی شان ہے۔ قربانی کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو حج یا عمرہ کے موقع پر حرم میں کی جاتی ہیں، دوسری وہ جو عید الاضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے گھر میں کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں پہلی قسم کی قربانی کے متعلق فرمایا گیا:
﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾
(الحج: 36)
”تم اس میں سے کھاؤ اور ان کو دو جو مانگتے نہیں اور جو مانگتے ہیں۔“
دوسری قسم کی قربانی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اسے خود کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ اور ذخیرہ کر لو۔“
(بخاری، کتاب الاضاحي، باب وكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها 5569، مسلم، كتاب الأضاحي، باب بيان ما كان من النهي الخ 1973)
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھائے اور احباب واقربا اور فقراء مساکین کو بھی دے۔ قربانی کی کھالوں کا مصرف وہی ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے، یعنی خود بھی استعمال کر سکتا ہے، احباب واقربا کو بھی دے سکتا ہے اور صدقہ بھی کر سکتا ہے۔ اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے:
”ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کے دنوں میں دیہات والوں کے کچھ گھر مدینہ میں آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن کے لیے گوشت رکھ کر باقی صدقہ کر دو۔“ جب اگلے سال آیا تو لوگوں نے کہا: ”لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیزے بناتے اور چربی پگھلاتے ہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بات کیا ہے؟“ انھوں نے عرض کیا: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تو تمھیں صرف ان لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو باہر سے آ گئے تھے، اب کھاؤ اور ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔“
(مسلم، كتاب الأضاحي، باب بيان ما كان النهي عن أكل لحوم الأضاحي الخ 1971)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ گوشت کی طرح کھال خود بھی استعمال کر سکتا ہے، دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے اور صدقہ بھی کر سکتا ہے۔ البتہ دوسری احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے گوشت یا کھال خود فروخت کر کے اس کی رقم استعمال نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر کھال صدقہ کر دے اور گوشت کا زیادہ سے زیادہ حصہ بھی صدقہ کر دے تو زیادہ بہتر ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر ایسا ہی کیا تھا۔ صحیح بخاری میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ وہ میری قربانیوں کی نگرانی کریں اور تمام قربانیوں کے گوشت، چربی اور ان کی جلیں تقسیم کر دیں۔ (بخاری، کتاب الحج، باب لا يعطى الجزار من الهدى شيئا 1717/1716)
صحیح مسلم (1317) میں یہ الفاظ ہیں: ”مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت اور چمڑے اور جل صدقہ کر دوں۔“
جو لوگ کہتے ہیں کہ کھالیں صرف فقراء مساکین کا حق ہے ان پر لازم ہے کہ مذکورہ بالا احادیث کے مقابلے میں ایسی حدیث پیش کریں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ کھالیں صرف فقرا و مساکین کا حق ہے اور ایسی حدیث وہ کبھی بھی پیش نہیں کر سکتے۔ ہمارے جن مہربانوں نے فتوی دیا ہے کہ مجاہدین کے لیے کھالیں جائز نہیں اور جن لوگوں نے انھیں کھالیں دی ہیں، ان کی قربانیاں ضائع ہو گئیں، انھیں اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے، کیونکہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قربانی کی کھالیں صرف فقراء مساکین کا حق ہے، تب بھی ان کے سب سے زیادہ مستحق مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہے اور جہاد میں مصروفیت کی وجہ سے کاروبار نہیں کر سکتے۔ خود اللہ تعالیٰ نے صدقات کا مصرف یہ لوگ قرار دیے ہیں:
﴿لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ ۖ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ ۖ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾
(البقرة: 273)
”صدقات ان فقرا کے لیے ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد) میں رک گئے ہیں، زمین میں (کاروبار وغیرہ) کے لیے سفر نہیں کر سکتے، سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف انھیں غنی گمان کرتا ہے، تو انھیں ان کی علامت سے پہچانے گا، وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے