سوال : کچھ لوگ قرآن مجید کی بعض آیات سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں ان کی محنت کہاں تک درست ہے ؟ مہربانی فرما کر وضاحت کر دیں۔
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، ہجرت، تبلیغ، جہاد، امت پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوسرے احوال پر مسلمان سے خوشی مطلوب ہے۔ یہ خوشی سال کے 360 دنوں میں سے صرف ایک دن یا رات تک محدود نہیں بلکہ ہر زمانے میں ہر وقت اور ہر حالت میں ہونی چاہیے۔ یہ کس قدر زیادتی ہے کہ ہم مسلمان ہو کر سال میں صرف ایک دن تو خوشی اور جشن منائیں باقی سارا سال نہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل یاد رہے، نہ زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ نظر آئے بلکہ ہماری زندگی کا ہر پہلو یہود و نصاریٰ اور ہندوؤں کی رسم و رواج کا مظہر ہو اور سال میں صرف ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر وہ بھی غیر مسلم قوموں کی مشابہت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے خلاف گزرے۔
✿ قرآن کی آیت :
قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا
’’ کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہو جاؤ۔ “ [10-يونس:58]
↰ اس میں فليفرحو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی اور جشن منانے کا استدلال حقیقت میں تحریف قرآن ہے۔ کیونکہ فليفرحو کا معنی خوشی مناؤ کون سی لغت میں ہے ؟ بتاؤ کس مفسر یا مترجم نے لکھا ہے کہ اس کا معنی جلوس نکالو، بھنگڑے ڈالو، موسیقی بجاؤ، بیل چھکڑے، بسیں، ٹرک، ٹرالیاں سجا کر میدان میں آؤ، گنبد خضراء کا ماحول بناؤ اور اونٹوں پر بیٹھ کر گلی گلی گھومو اور شرکیہ نعتیں پڑھو۔
↰ سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہلال بن سیاف، قتادہ، زید بن اسلم اور ضحاک رحمه الله وغیرہم نے اس فضل اور رحمت کی تفسیر اسلام اور قرآن مجید کے ساتھ کی ہے جس کی تائید اس سے پہلی آیت بھی کرتے ہے۔ امام ابن جریر، امام ابن کثیر، امام بغوی، امام قرطبی، ابن عربی، اور دوسرے بہت سے مفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ ائمہ کی تفاسیر میں سے کسی بھی تفسیر میں نہیں ہے کہ اس رحمت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہے۔ یہ واضح ہو کہ لوگوں کے لئے اصل رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور رسالت ہے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
’’ اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تما م جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ “ [21-الأنبياء:107]
↰ یہ آیت نص ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت جہانوں کے لیے رحمت ہے۔ اور صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ آپ مشرکین کے لیے بددعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اني لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمة ’’ میں لوگوں پر لعنت کرنے کے لیے نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ “ [مسلم، كتاب البرو الصلة : باب النهي عن لعن الدواب وغيرها 2599]
↰ یہ آیت اور حدیث دونوں اس بات کو واضح کر رہی ہیں کہ جہانوں کے لیے رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ک بعثت ہے۔ دوسرا جو صحیح بخاری کی روایت سے استدلال ہے وہ بھی باطل ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ دین اسلام وحی کے علاوہ کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا اور یہ بخاری کی حدیث میں جس بات کا تذکرہ ہے وہ خواب ہے اور خواب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں جو وحی ہوتا ہے بلکہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا خواب ہے اور ان کے مسلمان ہونے سے پہلے کا ہے۔ ایک کافر آدمی کے خواب سے دین کیسے ثابت ہو سکتا ہے ؟ جسے بیان بھی اس نے حالت کفر ہی میں کیا ہو۔ دوسرے وجہ یہ ہے کہ کافر کو مرنے کے بعد اس کے اچھے اعمال کی جزا نہیں ملتی۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا
’’ اور ہم ان کے عملوں کی طرف پہنچے جو انہوں نے کیے تھے تو ہم نے اسے اڑتی ہوئی خاک بنا دیا۔ “ [25-الفرقان:23]
✿ دوسری آیت میں ہے :
أُولَـئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا
’’ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کی آیتوں اور اس کی ملاقات کا، برباد ہو گئے ان کے اعمال۔ قیامت کے دن ہم ان کے لیے ترازو قائم نہیں کریں گے۔ “
↰ اگر ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا سن کر خوش بھی ہوا تھا تو وہ ایک طبعی خوشی تھی کیونکہ ہر انسان اپنے اعزا کے بچے کی پیدائش پر خوش ہوتا ہے اور ج خوشی اللہ کے لیے نہ ہو اس کا کوئی ثواب نہیں ملتا اور پھر کیا وہ خوشی ہر سال مناتا تھا یا اس نے ایک ہی مرتبہ منائی تھی۔ قرآن مجید کی نصوص سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ کفار کے عذاب میں تخفیف نہیں ہو گی۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ ٭ وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ
’’ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان پر فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ان میں سے ان کے عذاب میں تخفیف ہی کی جائے گی۔ ہم ہر ناشکرے کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ وہ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس سے نکال ہم اچھے کام کریں گے، ان کاموں کے علاوہ جو دنیا میں کرتے تھے۔ (اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ) کیا ہم نے تمہیں عمر نہیں دی تھی کہ اس میں سوچ لو جس نے سوچنا ہے اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے تھے۔ اب چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ “ [35-فاطر:36]
✿ ایک دوسری آیت میں ہے :
إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ * لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ
’’ یقیناً مجرم جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ہلکا کیا جائے گا ان سے عذاب اور وہ اس میں ناامید ہو کر پڑے رہیں گے۔ “ [43-الزخرف:74]
↰ اگر واقعی کسی کے خیال میں ان دلائل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشی اور جشن منانے کا شرعی حکم ثابت ہوتا ہے تو خود امام الانبیاء اور ان کے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی ؟ اگر انہیں یہ سمجھ تھی تو انہوں نے یہ جش کیوں نہ منایا ؟ پھر اس روایت میں ہے کہ ابولہب نے کہا: ’’ میں اپنی انگلی سے پانی چوستا ہوں۔ “ جب کہ انگلی اس کے ہاتھوں کا جز ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
’’ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا۔ “ [111-المسد:1]
↰ قرآن مجید کی یہ آیت بھی اس کی تردید کر رہی ہے۔ اب بات ابولہب کی درست ماننی ہے یا قرآن کی ؟ فیصلہ کریں اور یاد رکھیں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دین اسلام میں وہ چیزیں داخل کر دیں جن کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پہنچانے میں خیانت کی ہے۔ (نعوذ باللہ)
↰ بلکہ خوشی کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس میں کسی قسم کا اضافہ کرنے سے پرہیز کریں اور دل و جان سے اسلام کے احکامات تسلیم کریں۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت و اتباع ہے۔