قراردادِ مقاصد پر اعتراض اور جمہور علماء کا جواب

المورد کے مؤقف پر اعتراض اور جمہور علماء کا موقف

جناب زاہد مغل نے اپنی پوسٹ میں المورد سے وابستہ ایک معزز فرد کا بیان نقل کیا ہے، جس میں پاکستان کے آئین کی بنیاد "قراردادِ مقاصد” پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ اس بیان کے مطابق، اگر بھارت کے آئین میں یہی بات ہوتی کہ وہاں کا دستور "وشنو” کے احکامات کے مطابق ہوگا اور "وشنو” کے فرمان کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا جائے گا، تو کیا یہ بات مسلمانوں کو قابلِ قبول ہوتی؟

المورد کے مؤقف کی تشریح

  • اسلام کو دستور بنانے کی مخالفت: المورد کے حضرات یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر مسلمان اپنی ریاست میں شریعت کو اعلیٰ قانون قرار دیتے ہیں، تو دوسرے مذاہب کو بھی یہی حق دینا ہوگا۔ اس سے ہر ملک اپنے مذہب کو قانون کا درجہ دے دے گا، جس سے ایک غیر منصفانہ نظام پیدا ہوگا۔
  • سیکولر ریاست کی حمایت: المورد کے نزدیک ریاست کو ایک سیکولر فارمیٹ پر چلانا زیادہ مناسب ہے، تاکہ کسی مذہب کو ریاستی حیثیت نہ دی جائے۔
  • مسلم سیاست دانوں کا کردار: یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمان سیاست دان سیکولر نظام کے اندر رہتے ہوئے انفرادی طور پر شریعت کے نفاذ کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن یہ بات عملی طور پر ایک تضاد کی صورت اختیار کرتی ہے۔

جمہور علمائے اسلام کا مؤقف

جمہور علمائے اسلام کا موقف اس معاملے میں مختلف ہے، جو المورد کی دلیل کو قابلِ قبول نہیں سمجھتے:

  • حق اور باطل کی بنیاد: جمہور علماء کے نزدیک حق اور باطل کا معیار صرف اور صرف نبی آخر الزمان ﷺ کی شریعت ہے۔ کوئی بھی نظام، خواہ وہ سیکولر ہو یا کسی اور مذہب پر مبنی، اگر شریعت کے خلاف ہو تو وہ "باطل” ہے۔
  • سیکولر ریاست بمقابلہ ہندو ریاست: علماء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر شریعت کا نفاذ ممکن نہ ہو، تو سیکولر ریاست کو ہندو ریاست پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ موازنہ "حق اور باطل” کا نہیں بلکہ "کمتر برائی” اور "زیادہ برائی” کا موازنہ ہے۔
  • المورد کی دلیل کی خامی: المورد کے مؤقف میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ سیکولر ریاست اور ہندو ریاست کے درمیان موازنہ "حق” اور "باطل” کا ہے، حالانکہ جمہور علماء اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ موازنہ صرف "کمتر” اور "زیادہ برائی” کے درمیان ہوتا ہے۔

اسلامی ریاست اور دلیل کا معیار

جمہور علماء کے مطابق، اسلام کو ریاستی دستور کے طور پر نافذ کرنا اللہ کی کتاب، سنتِ رسول ﷺ، اور فقہاء کے علمی اصولوں کے تحت ایک واجب عمل ہے۔ اسلامی ریاست کو ہندو ریاست پر قیاس کرنا ایک غیر منطقی دلیل ہے، جس کی بنیاد مغربی فلسفے اور ہیومن ازم کی سوچ پر ہے۔ علماء کے نزدیک دلیل وہی ہے جو قرآن، سنت، اور فقہ کے اصولوں سے مستنبط ہو۔

خلاصہ

المورد کا مؤقف یہ ہے کہ اسلام کو ریاستی آئین بنانے سے دوسروں کو اپنے مذہب کو آئینی حیثیت دینے کا حق حاصل ہو جائے گا، اس لیے سیکولر نظام زیادہ مناسب ہے۔ جمہور علماء اس دلیل کو رد کرتے ہیں اور حق و باطل کے موازنے کو صرف شریعت کی بنیاد پر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کو دستور بنانا ایک شرعی تقاضا ہے، اور سیکولر نظام کو صرف "اھون الشرین” (کمتر برائی) کے اصول پر قبول کیا جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے