پس منظر
ایک ملحد مصنف، اینڈرسن شاو (جو پہلے "مکی” کے نام سے لکھتے تھے)، نے قرآن کے کلام پر اعتراضات کیے ہیں کہ قرآن کا انداز امیہ بن الصلت کے اشعار سے اخذ کیا گیا ہے۔ انہوں نے قرآنی چیلنج کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے ہیں، جن کا جواب دیکر اس دعویٰ کی حقیقت واضح کی جائے گی کہ قرآن انسانی تصنیف نہیں بلکہ خدائی کلام ہے۔
قرآنی چیلنج کا جواب
قرآن میں واضح چیلنج دیا گیا ہے:
فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا
(پس اگر تم ایسا نہ کرسکو اور تم ایسا کر بھی نہیں سکتے۔)
ملحدین کے اعتراضات میں ایک اہم حوالہ ابن الراوندی سے ہے، جس کا کہنا ہے کہ ایک انسان عربوں کی فصاحت و بلاغت میں سبقت لے جا سکتا ہے، اور غیر عربوں کے لیے یہ حجت نہیں۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کی یہ حجت صرف عربوں پر ہی نہیں، بلکہ ہر زبان اور ہر قوم پر بھی ہے۔
نضر بن حارث اور ابن الراوندی کی لاجوابی
نضر بن حارث اور ان کے ساتھیوں نے بھی قرآن کے چیلنج کے جواب میں کہا تھا کہ وہ بھی اس جیسا کلام لا سکتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ ایسا نہ کر سکے۔ آج بھی ملحدین "ہم بھی لا سکتے ہیں” کی تکرار تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر ایسا کوئی کلام پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ابن الراوندی اور اس جیسے افراد قرآن کا جواب دینے کی بجائے الٹی باتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔
قرآن میں فصاحت و بلاغت اور مخفی باتوں کی اطلاع
قرآن میں دلوں میں چھپی باتوں کی اطلاع دی گئی ہے جو صرف فصاحت و بلاغت کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ قرآن نے ایسے سوالات کے جوابات بھی دیے جنہیں عرب خود نہیں جانتے تھے، مثلاً اصحاب کہف اور ذو القرنین کا قصہ۔ اس قسم کی معلومات کو فصاحت کے ذریعے سمجھانا ممکن نہیں، بلکہ یہ علم نبوت اور الہامی کتاب کی خصوصیت ہے۔
قرآن میں بلاغت کا حسن
ملحدین نے قرآن کی عبارتوں میں بظاہر "عدم تسلسل” اور "تکرار” کا اعتراض کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں بلاغت کا ایک منفرد اسلوب "التفات” استعمال ہوا ہے جس سے عبارت مزید مؤثر ہوتی ہے۔ جیسے سورۃ کوثر میں "ہم” سے "تیرا رب” کی طرف رخ موڑنا ایک بلاغی حسن ہے۔
زبان و ادبی نقائص کے اعتراضات
ملحدین کا کہنا ہے کہ قرآن میں نحوی اور بلاغی نقائص ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان کے قواعد و ضوابط قرآن کے بعد طے کیے گئے اور قرآن نے خود عربی زبان کے قواعد کی بنیاد رکھی۔ ملحدین کے اعتراضات دراصل قرآن کے اسلوب کو نہ سمجھنے کی علامت ہیں۔
قرآن میں تکرار کا مقصد
اللہ نے بار بار کی تکرار کے ذریعے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ شاہ ولی اللہؒ کے مطابق تکرار کا مقصد غیر مانوس کو مانوس بنانا اور مخاطب کو اس کلام کے رنگ میں رنگ دینا ہوتا ہے۔
امیہ بن الصلت کے کلام کا اعتراض
اینڈرسن شاو کا کہنا ہے کہ قرآن کا اسلوب امیہ بن الصلت کے کلام سے متاثر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ امیہ سمیت دیگر شعراء کے کلام میں اللہ کا ذکر ملتا ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اسلام سے قبل عرب اللہ کو مانتے تھے، مگر ان کی توحید مکمل نہ تھی۔ قرآن نے عربوں کے اسی معروف خدا کی عبادت کا صحیح تصور پیش کیا۔
خلاصہ
ملحدین کے اعتراضات، دراصل قرآنی اعجاز کو سمجھنے میں ناکامی کا نتیجہ ہیں۔ قرآن کا چیلنج آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کوئی اس کے جیسا کلام پیش نہیں کر سکتا۔